تحریر : سنگت بلوچ
اگر ہم مقبوضہ بلوچستان میں 73 سالہ سیاست کو دیکھے تو ہمارے زہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں پاکستان کی قبضہ گیریت سے لیکر آج تک بلوچستان میں نام نہاد پارلیمنٹ پرست بلوچوں نے تاریخ کو بلوچ قوم کے خون سے لکھا ہے۔
مقبوضہ بلوچستان میں مظلوم بلوچوں کی چیخ و پکار نے ناقابل فراموش نئے داستاں رقم کیئے ہیں، کبھی بانک کلثوم کی طرح تو کبھی حیات بلوچ ، کبھی کمبر چاکر ،کبھی زرینہ مری ، تو کبھی برمش کی طرح ایسے بہت سے اور واقعات ہے جو سوشل میڈیا کی توجہ تو حاصل نہیں کر سکے، کیونکہ بلوچستان کے 70 فیصد علاقوں میں قابض پاکستان نے انٹرنیٹ کو بند کیا ہے تاکہ مظلوموں کی آواز کو سختی سے دبایا جاسکے۔ تاکہ اپنے سامراجی قبضہ کو مزید تقویت دے کر محکوم قوم کی سیاسی ،معاشی اور سماجی استحصال کو جاری رکھا جاسکے۔
اب بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میں ہمارے نام نہاد بلوچ پارلیمان پرست بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرتے آ رہے ہیں اپنے اقتدار کے لالچ میں ریاست کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی دیکھ کر بھی خاموش تماشی بنے بیھٹے ہیں۔
ماضی کی طرح جن کے آباو اجداد نے بلوچ قوم کو دھوکہ دے کر اس کی سرزمین پر اسے غلام بنا کے رکھا ہے آج پھر وہی نسل اور کچھ مردہ ضمیر بلوچوں کے ساتھ آ کر بلوچ کی سر زمین پر اپنے منفی کردار کی پردہ پوشی کرنے کیلیۓ بلوچوں کے زخموں کو مزید نمک چڑکا رہے ہے۔
پی ڈی ایم کے پنڈال میں مریم نواز کہتا ہے کہ مجھے رونا آرہا ہے کہ ایک بہن یعنی حسیبہ قمبرانی کے تین بھائی جبری اغوا کیئے گئے ہے، سوال تو آپ لوگوں سے بنتا ہے کہ یہ لاپتہ افراد تو آپ کے دور اقتدار میں ہی لاپتہ ہوۓ تھے ۔
آپ بلوچ قوم کے مجرم ہے آپ کا رونا صرف اقتدار کیلیۓ ہے نہ کہ مظلوموں کے داد رسی کیلیۓ ۔
دولت اور اقتدار کے شوقین کبھی بھی نظریاتی نہیں ہوتے اور نہ ہی مظلوموں کے دوست ہوتے ہیں ۔
تاریخ نے ہمیشہ سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ظالم کو مظلوم کی یاد تب آتی ہے جب ظالم کو اپنے مقصد کےلئےانکی ضرورت ہوتی ہے،ظالم نے ہمیشہ سے مظلوم کےجذبات اور احساسات کو اپنی ضرورت کے لئے استعمال کیا ہے۔
افسوس تو اس بات پہ بھی ہوتا ہے کہ جب بانک حسیبہ قمبرانی اپنے پیارے بھائیوں کی بازیابی کیلیۓ سٹیج پر آ کر درخوست کرتا ہے، تو اختر مینگل صاحب معزرت کرکے کہتے ہے کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہے، اگر کسی کے پاس ایک تقریر کا اختیار نہ ہو تو اسمبلیوں میں بیھٹنے کا کیا فائدہ؟
پی ڈی ایم کے جلسہ میں تو وہ کیسے یہ دعوہ کرتے ہے کہ میں بلوچوں کا نمائندہ ہوں ؟
بات تو سب کرتے ہیں بلوچ قوم کے اوپر ہونے والے جبر کی لیکن کسی بھی پارٹی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ خود جاکر مِسنگ پرسنز کے کیمپ کا دورہ کرکے دنیا کو پاکستانی مظالم سے آگاہی دے کر عالمی طاقتوں کو واضع بتادے کہ کہ وہ پاکستانی مظالم کو روکنے میں ان کی مدد کریں۔
ان بلوچ ماں بہنوں کی جو گیارہ سال سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلیۓ ایک امید پر زندہ ہے ۔ اب پاکستان کے ساتھ وہ باقی ماندہ بلوچ بھی شامل ہے جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بلوچوں کی نسل کشی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سب سے بڑا ہاتھ تو انہی پارلیمنٹیرین کا ہے چاہے وہ بلوچ ہو یا کوئی غیر قوم ۔
نواز شریف کے دور حکومت میں بہت سے بلوچ لاپتہ کیۓ گئے تھے ان میں سے ایک تو راشد حسین ہے جو آج بھی لاپتہ ہے۔ اور اب اس کا تصویر مریم نواز کے ہاتھ میں ہے پہلے آپ اپنے والد سے یہ پوچھے ۔ کہاں ہے وہ بلوچ مسنگ پرسنز جو آپ کے والد کے دور حکومت میں لاپتہ ہوۓ تھے ؟
اسی طرح ایک عمران خان نیازی جو اقتدار سے پہلے 2009 میں برٹش پارلیمنٹ میں بلوچ اور مقبوضہ بلوچستان کے موضوع پر بات کرتا تھا جن کا مقصد صرف اپنے سیاست کو چمکانے کیلیۓ تھا۔
پارلیمنٹ پرستوں کی جانب سے بلوچستان میں بلوچوں کے نام پر سیا ست کرنا اور دآمن ریاست کے مظالم بارے خاموشی کا مطلب ان کے زخموں پر نمک چڑکانہ اپنی سیاست کو چمکانے کے مترادف ہے۔
یہ سب صرف کرسی کے لئے ہوا ہے۔
کیا اس سے پہلے یہ لوگ موجود نہیں تھے؟
یہ صرف موجود ہی نہیں ،بلکہ حکمران بھی تھے۔ انہی کے سوالوں میں ان کا جواب ہے کہ یہ اقتدار کے طلب گار ہے ۔اب ڈاکٹر مالک کی بھی آواز سنائی دۓ رہی ہے کہ گوادر کے جزیرے وفاق کے حوالے نہیں ہونے دیں گے ۔
پہلے آپ بلوچ قوم کو یہ تو بتا دے کیا آپ نے خود اپنے دور اقتدار میں ریکوڈک کو غیر ملکیوں کے حوالے نہیں کیا تھا۔ اپنے اور اپنے پارٹی کے زاتی مفادات پر آپ ہی کے دور اقتدار میں ہمارے ماں بہنوں کی عزتوں کو پامال کر کے ان کی لاشیں جنگلوں میں پھینکی گئی تھی۔ اس وقت آپ لوگ تو اقتدار میں عیش و عشرت کر رہے تھے کیا اس وقت بلوچ اور گوادر یاد نہیں آرہے تھے ؟
ضروری ہے کہ میں آپ کو وہ سب کچھ یاد دلادوں ۔جب آپ اقتدار میں تھے پنجابی سے زیادہ تو آپ نے وفاداری دکھائی۔ بلوچوں کے قتل عام میں دشمن کے ساتھ شریک ہوئے۔ جب 28 مئی 1998 کو نواز شریف اور بی این پی کے دور اقتدار میں بلوچستان کے سینے چاغی کے حسین پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ جس کی وجہ سے آج تک بلوچ قوم انہی کے مہربانیوں سے مختلف قسم کے بیماریوں کینسر جیسے موزی مرض کے شکار چلی آرہی ہے۔
جب اختر مینگل سے پوچھا گیا کہ وزیر اعلی تو آپ تھے اور بلوچستان کو بنجر آپ نے بنایا تو جناب فرماتے ہیں مجھ سے اس بارے اجازت نہیں لیا گیا تھا۔اور میرے اختیارات اتنے بھی نہیں تھے کہ انھیں روک سکتا۔
لیکن جناب نہ جانے کیوں یہ بات بھول جاتے ہے کہ اس وقت وہ بے اختیاری کو جواز بنا کر قومی مفادات کی خاطر استعفی بھی تو دے سکتا تھا۔
اگر کسی وزیر اعلی کے پاس اختیارات نہیں ہے اور ایک نام نہاد جمہوری ملک میں پارلمینٹ فوج اور اس کے اداروں کے ماتحت ہو تو اس سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ سیاست داں اپنے ذاتی مفادات کیلیۓ بلوچ قوم اور مسنگ پرسنز کے نام پہ سیاست کرکے بلوچوں کے جزبات سے کھیل رہا ہے ، اور انھی ایشوز کے بہانے عوام میں اپنے لیئے اعتماد بحال کرنے کی ناکام کوشش کر ر ہے ہیں۔
ہمیشہ پارلمینٹ میں بکھے ہوۓ بلوچ ، یہاں بلوچ اور بلوچستاں کا نہیں بلکہ اپنے مفادات کی سیاست کرتے آ رہے ہیں۔