موقع پرست سیاست ایک ایسی اصطلاح ہے جو سیاست اور اقتصادیات میں فعال طور پر استعمال ہوتی ہے۔ وہ مارکسزم کے نظریات کی بدولت زیادہ استعمال ہوا۔ اس لفظ کی فرانسیسی جڑیں ہیں۔ اس کے ترجمہ کا مطلب ہے “آسان ، منافع بخش”۔ لاطینی زبان میں ، فرانسیسی مواقع کے ساتھ مل کر ایک لفظ ہے۔ لاطینی زبان میں اس کا مطلب ہے “موقع” ، “موقع بدل گیا”۔
موقع پرستی 19 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں فعال طور پر تیار کیا گیا تھا۔ یہ انقلابی تحریکوں کی ترقی کی وجہ سے ہوا ہے۔ لیکن موقع پرستی کیا ہے؟ تصور کی تشریح نقطہ نظر پر منحصر ہے ، اگر ہم بات کریں تو یہاں موقع پرستی ایک ایسی صورتحال کی منظر بینی کرسکتا ہے جو انفرادی گروہی اور پارٹیوں کے مفادات کے منافی ہے اور قائدین کو حکمران طبقے کے مفاد پرست راستے پر گامزن کرتی ہے۔ کسی کے ذاتی مفادات اس طرح کے رجحان کی طرف جاتے ہیں۔
اگر سیاست ہوتی ہے تو پھر موقع پرستی کو ایک فائدہ مند کیس کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، جو حکمران طبقے یا کسی فرد ، سیاسی جماعت کے ذریعہ معاشرے میں موجود نظریے کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی موقع پرستی کو ذاتی مفادات کے مطابق موافقت سمجھتا ہے۔ کسی بھی پارٹی، گروہ، نظریہ اور سیاست کا بتدریج مسترد ہونا ، جو بالآخر سیاسی تنظیموں کے فیصلوں کو اپنانے اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور پارٹی کے اصولوں کے لئے لڑنے سے انکار کا باعث بنتا ہے۔ کچھ ذرائع سیاست اور اقتصادیات کے لحاظ سے موقع پرستی کو نہیں مانتے ہیں۔ وہ اس لفظ کی اس طرح سے تشریح کرتے ہیں: یہ انسانی بے اعتقادی ہے ، جس کے پیچھے اہداف حاصل کرنے کی خواہش ، بغیر کسی کوشش کے ، کم سے کم قیمت پر ، رہ جاتی ہے۔
موقع پرستی کیا ہے اس سوال کے جواب میں ، اس اصطلاح کے ابھرنے کی تاریخ کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اس کی پیدائش کا سال 1864 میں ہوا تھا ۔ یہ مزدوروں کی پہلی بین الاقوامی تنظیم کی کام کے فریم ورک کے اندر ہی تھا ، کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے فرڈینینڈ لاسل اور ایڈورڈ برنسٹین کے تصورات پر تنقید کی۔ ان دونوں نے سوشلزم کو ترک کیا اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے حکمرانوں کا ساتھ دیا ، جس کی وجہ سے انہیں موقع پرستوں کا بدنما داغ ملا۔ مارکس اور اینگلز نے میخائل بیکونن اور آگسٹ بلانک کی مہم جوئی کی تجاویز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کارکنان اپنے نظریات کو ترک کریں اور حکام سے اتفاق کریں۔ ان خیالات کو مارکسسٹوں نے غداری کے طور پر سمجھا اور خود کار طریقے سے اپنے پیروکاروں کو موقع پرستوں کے درجے تک پہنچا دیا۔ چنانچہ موقع پرستی سوشلزم ، انارکیزم اور لبرل اصلاح پسندی کے نظریات کے دھماکہ خیز مرکب پر مبنی ہے۔ اور اس کا سیاسی معیشت کے تصور سے گہرا تعلق ہے۔
اگر آپ اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ موقع پرستی معاشی نقطہ نظر سے کیا ہے ، تو اس لفظ کی تعریف اس طرح محسوس ہوگی، یہ آپ کے اپنے مفادات کی پیروی کررہا ہے ، جس میں جھوٹ ، چوری ، فراڈ دھوکہ دہی سے استعمال کرنا شامل ہے ، لیکن ان تک محدود نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر ، یہ تصور دھوکہ دہی کی زیادہ لطیف شکلوں کو ظاہر کرتا ہے ، جو ایک فعال اور غیر فعال شکل اختیار کرسکتا ہے۔ معاشی موقع پرستی کا بنیادی ہدف مادی فائدہ ہے۔ یہ تعریف امریکی ماہر معاشیات اولیور ولیم سن نے تیار کی تھی۔ “کامریڈ نور محمد ترہ کئی کا قول ہےکہ جس معاشرے میں سیاستدان سیاست کو دولت اور کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں، تباہی اس معاشرے کا مقدر بن جاتی ہے”۔
بلوچ آزادی کی تحریک کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی کچھ واقعات، لمحات اور کچھ حقیقیت پر مبنی داستانیں آپ کو کثرت سے ملیں گے، مثال کے طور پر نوری نصیر خان کا متحدہ بلوچستان کا دفاع، سردار دوست محمد خان بارانزئی کا گولڈ سمتھ لائن لائن کے خلاف مزاحمت، نواب یوسف عزیز مگسی کا بلوچ قوم کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کی کوششیں ، میر غوث بخش بزنجو کا بلوچستان اسمبلی میں پاکستان میں شامل ہونے کی مخالفت، آغا عبدالکریم خان اور ان کے دوستوں کا بغاوت کا اعلان، نواب نوروز خان کا بلوچستان کے دفاع میں پہاڑوں کا رخ، بابو شیر و مری اور میر سفر خان زہری کا بلوچستان میں پاکستان کے خلاف کاروائیاں، بابا نواب خیر بخش مری کا 1973 کے آئین پر دستخط نہ کرنے کا اعلان،ڈاڈا شہید نواب اکبر خان بگٹی اور میر محمد خان رئیسانی کا ڈھاکہ بنگلہ دیش کا تاریخی دورہ اور بلوچستان کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی سے ملاقاتیں، سردار عطا اللہ مینگل،نواب خیر بخش مری، میر گل خان نصیر ، میر غوث بخش بزنجو اور محمد حسین عنقا کا ولی خان والوں سے نیشل عوامی پارٹی(نیپ) کا قیام ، نواب خیر بخش مری کا مری قبیلے کے ساتھ افغانستان ہجرت اور پھر واپسی پر 1992 میں تاریخی استقبال، بابا خیر بخش مری و حیربیار مری کا دوستوں کی مشاورت سے بلوچستان میں آزادی کا اعلان، استاد واحد قمبر اور ڈاکٹر خالد کا مکران میں ذمہ داریاں سنھبالنا، ڈاڈا اکبر خان بگٹی و بالاچ مری اور براہمدغ خان بگٹی کا ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری میں جاندار کردار اور سب سے بڑھ کر بلوچستان کے طول و عرض میں بلوچ نوجوانوں، بلوچ خواتین و بلوچ بوڑھوں اور بچوں کا وہ مثبت کردار جو بلوچ قوم کو ایک سیاسی قوت اور طاقت فراہم کرتے ہیں جس کے اثرات آج بھی چاہیے مقبوضہ مشرقی بلوچستان ہو یا مقبوضہ مغربی بلوچستان ہو، پاکستان اور ایران بلوچستان پر قابض ہے ان حالات اور واقعات سے کوئی بھی ذی شعور بلوچ انکار نہیں کر سکتا مگر اس لمبے سفر میں موقع پرستی کے بھی بہت سے مثالیں ملتی ہے جو آج بھی بلوچ قومی تاریخ کے اوراق میں موجود ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے اختیارات کے لئے اپنے قد کو جلد بازی میں بلند کرنے کی بجائے چھوٹا کرتے ہیں اور بلوچ آزادی کے قومی کاروان کو ذاتی خواہش کی بنا پر ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور قومی کاروان کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی کمزور کرتے رہے ہیں، جو بلوچ آزادی کی تحریک میں ایک بڑا خلا اور قومی سوال ابھر کر بلوچ قوم کے سامنے نمودار ہوا ہے۔” “کامریڈ لینن کہتے ہیں کہ انقلابی تحریکوں میں ذاتی و گروہی مفادات ،خود غرضی،لالچ، اناپرستی اور نظریاتی گمراہی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے”،
اسی طرح بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا تذکرہ کرنا یہاں پر لازمی ہے کیونکہ بلوچ جہد میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، بی ایس او اور بلوچستان لازم وملزوم رہے ہیں ۔ یہ نام گوکہ ایک تنظیم کا ہے لیکن یہ تنظیم بلوچ سیاست میں ایک اہم مقام رکھتی ہے بی ایس او نوجوانوں کی ابتدائی تربیت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اپنے قیام سے اب تک بی ایس او کی گونج بلوچستان کے پہاڑوں صحرائوں سمندروں اور وادیوں میں سنائی دیتی ہے ۔ کوئی سیاست سے خواہ کتنا ہی نابلد کیوں نہ ہو وہ بی ایس او کے نام سے واقف ضرور ہوگا ۔
بی ایس او( بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ) کا قیام 1967 میں ہوا، جب بی ایس او کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے ابتدائی رہنماوں میں حکیم بلوچ، تاج بلوچ، بیزن بزنجو و ڈاکٹر حئی ودیگر رہنماء تھے ۔ ڈاکٹرحئی بی ایس او کے پہلے چیئرمین رہے ۔ بی ایس او کا قیام خالصتا تعلیمی مقاصد کے حصول میں معاون کارکے طورپر عمل میں لایا گیا تھا لیکن بعد میں یہ تنظیم حالات اور واقعات کے سرد گرم میں یوں کندن بنی کہ دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا گئی ، اس تنظیم نے ڈاکٹر حئی ، میر عبدالنبی بنگلزئی، اسلم گچکی ، شفیع محمد بنگلزئی، حمید بلوچ، اسلم بلوچ، نظر جان بلوچ، احمد شاہ بلوچ، اسد مینگل، مجید لانگو، خیر جان بلوچ، فدا بلوچ، عمر مینگل، غلام محمد بلوچ ، وحید شاہوانی، ڈاکٹر یسین بلوچ، امیر بخش لانگو، غفار بلوچ، حمید شاہین، قمبر چاکر ،الیاس نظر، کامریڈ قیوم بلوچ ،سنگت ثناء شاہوانی، شیر محمد بلوچ ،ڈاکٹر اللہ نذر محمد حسنی، آغا محمود خان احمد زئی بلوچ ، میر سفیر سرپرہ ،بشیر زیب محمد حسنی ،ذاکر مجید بزنجو، رحمت اللہ شاہین، زاہد کرد ، بانک کریمہ بلوچ ،شہید علی شیر کرد اور ہزاروں دوسرے بلوچ طالب علموں بشمول خواتین کی سیاسی تربیت کی ہے لیکن اس سفر میں بھی موقع پرستی اور اختیارات کا جنگ ساتھ ساتھ چلتا رہا، میں صرف ایک جائزہ پیش کر رہا ہوں مگر اس سفر میں انہی کے ذمہ داروں کو علم ہوگا کہ کون سے موڑ پر اور کس طرح کچھ لوگ موقع پرستی کا شکار ہوگئے، “کامریڈ لینن نے کیا خوب فرمایا ہے کہ کوئی انقلابی تحریک اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک اس میں رہنماٶں کی ایک منظم جماعت نہ ہو جو تسلسل کو قائم رکھ سکے”۔
یہاں میں ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ بلوچ قوم میں طبقات ضرور ہے مگر بلوچستان کی آزادی کے سفر میں خان، نواب، سردار، میر، ٹکری، وڈیرہ، ملک بزگر، شوان ، مزدور، دینی حلقے اور عام بلوچ سب نے قربانیاں دی ہیں اور بلوچستان کی آزادی کے سفر میں کوئی کسی سے کم نہیں اور نا ہی کوئی کسی سے بالا ہے ، یہاں پر متوسط طبقہ کا نعرہ صرف اور صرف اختیارات پر کنٹرول اور اپنے آپ کو کسی پوزیشن پر پہنچانے کے لیے استمال ہوا اس کے سوا اس کا کوئی نظریاتی پہلو نہیں ہے، بقول لینن کے کہ “متوسط طبقے کے پاوں کیچڑ میں اور منہ آسمان پر ہوتا ہے”، آج کل ہم ایک اور بیماری کا شکار ہوگئے ہیں کہ کسی سے کوئی مسلہ ہو اس کو قبائلی کا طعنہ دیکر اپنے آپ کو اعلی اور قابل بلوچ سمجھ لیتے ہیں جبکہ انہی سورماؤں کے ناک کے نیچے قبائلی و علاقائی کا خمیر بڑی تیزی سے پرورش پا رہا ہے اور انہی متوسط سیاسی سرداروں کے سیاہ و سفید کرتوتوں کے داستانوں کی گواہیاں بلوچستان کے پہاڑ، وادیاں، صحرا بخوبی دے سکتے ہیں، میرے خیال میں بلوچ آزادی کی تحریک میں نا کوئی طبقے کا مسلہ ہے نا قبائلی مسلہ ہے نا ہی نظریاتی مسلہ ہے، سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں مختلف پارٹیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اور یہ سیاست کا حصہ ہے، مگر مسلہ وہی پر اٹک جاتا کہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جلد بازی کے ساتھ لیڈر بننا، معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنا اور حالات کے مطابق فیصلوں کا فقدان اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنا مقصود ہوتا ہے،
بلوچ آزادی کی تحریک میں ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ مختلف اوقات میں اچانک سے اندرون خانہ بلواسطہ یا بلاواسطہ سے سرگوشیاں سازش کے تحت شروع کرا دی جاتی ہے کہ یہ خان ہے سردار ہے نواب ہے قبائلی ہے وغیرہ وغیرہ اور کرتے کراتے اسی پارٹی کے اندر لابنگ شروع کی جاتی ہے اور متوسط طبقہ کا نعرہ لگا کر اصولی تنظیموں کو تھوڑ کر ماضی میں جن کے سربراہوں کو ساہیں ،خواجہ اور واجہ کر کے پکارا جاتا تھا جن سے کھبی روحانی پیار ہوا کرتا تھا، وہ حال میں ہمارے لیے قابل قبول سے نا قبول بن جاتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں کیا ہو گا وقت ہی بہتر فیصلہ کر پائیں گا، فرانز فینن کہتے ہیں کہ ” سیاسی پارٹیاں جان بوجھ کر صاف اور واضح موقف کا اعلان نہیں کرتیں بلکہ ہمیشہ ابہام کا سہارہ لیتی ہیں ” یہاں پر میں ذکر کرتا چلوں کہ بات نظریات کی نہیں بات موقع پرستی، مادی اختیارات، وسائل کو قبضہ کرنا اور شوق لیڈری یہ وہ ناسور ہے جس نے بلوچ قومی تحریک کو بہت نقصان پہنچایا اور دوسری سب سے بڑی وجہ اپنے آپ کو مالک کی حثیت سے کرایہ دار کی حثیت پر لا کھڑا کرنا کیا یہی انقلابی پن ہے؟ وہ اس لیے کہ شوق لیڈری کے لیے تھوڑ پھوڑ کو جائز قرار دے کر ہیرو بننا اور مخالف آزادی پسندوں کو زیرو قرار دینے کی کوشش کرنا اور اگر بات اصولوں پر اٹک جاہیں تو آنکھیں سرخ کرکے پاگل پن کے دورے ظاہر کرکے اپنے آپ کو وطن زادے اور دوسرے جو اس تحریک میں درپہ در ہے ان کے بارے میں طعنہ اور ٹوک بازی کا تسلسل کے ساتھ سلسلہ شروع کروا دیا جاتا ہے اور ساتھ میں لیڈر کا دعوی کرکے دوسرے وطن زادوں کے بارے میں اپنی نجی محفلوں میں غیبت کرنا اور ان پر ہنسنا ضروری بن جاتا ہے کیونکہ اگر موقع پرست اس طرح کی حرکتیں نہ کریں تو انھیں اپنی گدی کے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے ان حلقوں کا خوف انھیں ستاتا رہتا ہے کہ کہیں یہ عارضی بادشاہت ہاتھ سے نکل نہ جاہیں، “فیڈرل کاسترو کا قول ہے، چاپلوسی، خود غرضی، منافقت، تحریکی دوستوں کے درمیان چغل خوری، بے وقت لیڈر بننے کا شوق انسان کے تمام پوشیدہ و آشکارہ صلاحیتوں کو تباہ کر دیتا ہے اور کچھ عرصے بعد اسکی منافقت اور دو رنگی معاشرے کے سامنے خوبخود آشکار ہو جاتی ہیں”، بڑے سر کا ہونا عقل کی نشانی نہیں ہوتی، لمبے چہرے سے انسان انقلابی نہیں بنتا یا پیٹ بڑا ہونے سے غور و فکر نہیں پھیلتا، عقل کا ایک الگ پیمانہ ہوتا ہے ،عقل کا صحیح استمعال، دور اندیشی، صبر، نیک نیتی، قربانی کا جذبہ اور کردار انسان کو بڑا بناتا ہے حوصلہ و جرآت منزل کے قریب پہنچاتا ہے، مقبوضہ مشرقی بلوچستان کے شہداء ہو یا مقبوضہ مغربی بلوچستان کے شہداء ہو سب بلوچ قوم کے لیے قابل قبول اور قابل قدر ہے۔بلوچ قوم کے شہدا نے رضا کارانہ طور پر مادر وطن کے لیے جان نچھاور کی ہے، نا خان کی حیثیت سے ، نا نواب کی حیثیت سے، نا سردار کی حیثیت سے اور نا ہی بزگر و مزدور اور متوسط طبقے کی حیثیت سے بلکہ صرف اور صرف مادر وطن کے دفاع میں اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے عظیم ہستیوں کا نام موقع پرستی کے لیے ان کا سہارا نہ لیں تو بلوچ قومی تحریک کے لیے بہتر ہو گا بلکہ اپنے گریبانوں میں جانکھ کر دیکھے کہ ہم نے کیا پایا یا ہم نے کیا کھویا بلکہ ہمیں جرات کا مظاہرہ کرکے اپنے کمزوریوں اور غلطیوں کو تسلیم کر کے آنے والے دنوں میں بلوچ قومی تحریک کے لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرنا ہوگی بلکہ مزید گہرائی سے غور و فکر کر کے دیکھ لیں کہ شوق لیڈری میں اپنے عظیم ماں کے چادر کو دو لخت تو نہیں کر رہے ہیں اگر ایسا ہے تو شوق لیڈری کو اپنے پاوں کا جوتا سمجھ کر ماں کے چادر کو بچاہیں اور ایک گمنام سپاہی بن کر اپنے ماں کی چادر کی حفاظت کریں۔ “کامریڈ لینن کہتے ہیں کہ زبان بندی، کان بہرے اور آنکھیں بند کر دینے والے افراد سے کھبی بھی سماج کی تبدیلی کی امید نہ رکھیں” 1991میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا رات کو سائنس کالج کے ہاسٹل میں اس وقت کے شال کے صدر ڈاکٹر نواز بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اسٹوڈنٹس کی تربیت کیا کرتے تھے اور ہمیں سیاسی تعلیم اور دنیا کے بارے میں ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے تھے تو اکثر رات کو دیر سے گھر جانا ہوتا تھا مگر ایک دفعہ رات گئے دیر سے گھر پہنچا تو اس رات والد سے سامنا ہوا، مجھے کہنے لگے کہاں سے آرہے ہو میں نے کہا بابا سائنس کالج کے ہاسٹل سے آ رہا ہوں انھیں علم تھا کہ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ممبر ہوں، مجھے آج بھی وہ نصیت یاد ہے کہ میرے والد نے کہا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے تم خود زمہ دار ہو میں تمیں صرف اتنا کہوں گا کہ آج ہی فیصلہ کرو اگر تمیں اس تنظیم میں رہنا ہے تو اچھی بات ہے اپنے لوگوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ پڑھائی پر بھی توجہ دو ، اگر واقعی تم نے جس راستےکا انتخاب کیا ہے تو میری بات غور سے سنو ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہو گے اور کھبی بھی اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دھوکہ نہیں کرو گے، اگر میرے ان باتوں سے متفق ہو تو یہ اچھی بات ہے اور اگر میرے باتوں سے متفق نہیں ہو تو آج سے اور ابھی سے اس راستےسے پیچھے ہٹ جاو اسی میں تمھاری بھلائی ہے میں ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا اور کہا بابا میں کوشش کروں گا کہ اسی راستےپر چلوں گا اور اپنے لوگوں کے دکھ درد میں مجھ سے جو ہو سکتا ہے میں کروں گا تو بابا نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں تمھارے لیے دعا کروں گا، مگر حقیقت میں اس وقت بابا سے جو وعدہ کیا وہ صرف اور صرف وطن کے محبت میں اس وقت اس سے زیادہ میں نہ کچھ جانتا تھا اور نا سمجھتا تھا، اس واقعہ کو میں اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ میں نا قابل ہوں نا میں عاقل ہوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں، مگر مناسب سمجھا کہ یہاں اس کا ذکر کروں حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو بس صرف بلوچ وطن کا معمولی سا کردار ہوں، ڈاکٹر چی گویرا کا قول ہے کہ “انقلاب کے لیے جزباتی نہیں بلکہ سنجیدہ نظریاتی اور وفادار ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے”۔