ہمگام کالم : کل جمعرات کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ یو ایس ایس بوکسر نے دفاعی تدبیر کے تحت ایران کی ایک ڈرون کو آبنائے ہرمز کے دھانے پر اس وقت مار گرایا جب وہ امریکی نیوی کے جنگی جہاز کے قریب آرہا تھا جس سے جنگی جہاز اور اسکے عملہ کی سلامتی کو خطرہ تھا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایرانی ڈرون کو اس وقت فورا تباہ کیا گیا جب وہ ایک کیلومیٹر کے دوری پر بوکسر نیوی جہاز کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ عالمی سمندری حدود میں آبی جہازوں کے خلاف یہ نیا واقعہ ایران کی کئی اشتعال انگیز اور دشمنانہ کاروائیوں میں سے ایک تازہ ترین واقعہ ہے۔ان کے بقول امریکہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں، وسائل اور مفادات کا ہر صورت دفاع کرے۔ امریکی صدر نے تمام اقوام کو دعوت دی کہ وہ آزاد عالمی تجارت اور جہاز رانی کے خلاف ایران کی کاروائیوں کا مزاحمت کریں۔واضع رہے مشرق وسطی کے خطے کی صورتحال میں اس وقت اہک اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی جب دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ امریکہ نے ایران کی ریاستی فوج ‘سپاہِ پاسداران انقلاب’ کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا ۔ اور ایرانی پاسداران اپنی عسکری سرگرمیوں کے علاوہ ایرانی معیشت کے اہم اداروں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔امریکا کا یہ ایک اور اہم خیر مقدمی فیصلہ تھا ۔امریکی پابندیوں کے مجموعی طور پر مؤثر اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ایرانی موجودہ نظام ( ملا رجیم ) کو ان کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔
امریکا اگر مزید پابندیاں عاید کرتا ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ یہ بھی بہت موثر رہیں گی اور یہ عاید کی جانی چاہیے ۔ تاکہ مشرق وسطی کا خطہ اور عالمی طوربہت سے اقوام کو ایرانی دہشتگردی سے معفوظ رکھا جاسکے۔ اس ضمن میں ایران کے بعض بنکوں کو انفرادی طور پر بلیک لسٹ قراردینا کافی نہیں ہوگا بلکہ ایران کے پورے بنکاری نظام کو بلیک لسٹ کی لپیٹ میں لے کر مفلوج کیا جانا چاہیے اور یہ سب سے اہم اقدام ہوگا۔
امریکا کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں ایران کے جہاز رانی کے شعبے پر عاید کردہ پابندیوں کو مزید وسعت دے دے۔ اور اس کا اطلاق ایران سے آنے اور وہاں سے باہر جانے والے تمام مال بردار جہازوں پر لاگو کردے۔ امریکا مستقبل میں ایسے اقدامات کرسکتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایران کی
تخریبی سرگرمیوں سے نالاں دوسرے ممالک امریکا کی ان پابندیوں کی اپنے طور پر ٹھوس اور مضبوط اقدامات کی صورت میں حمایت کریں ۔
اب تازہ تریں رپورٹس کے مطابق ایرانی گماشتہ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے فیلڈ کمانڈروں نے کہا ہے وہ اسرائیل کے خلاف تباہ کن جنگ کی تیاری کیلئے اپنی فورسز کو اسرائیل کے بارڈر پر تعینات کر رہے ہیں۔۔ ڈیلی بیسٹ کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں نے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ اسرائیلی محاذ ہی پر ان سے نمٹ لیں۔ اسرائیلی بارڈر پر حزب اللہ کی 800 مسلح جنگجووں کی کمانڈر سمیر نے اپنا اصلی نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ
میڈیا سے بات نہ کرنے کے پابند ہیں لیکن اس دفعہ پہلا گولی وہ خود ہی چلائیں گے۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے نیویارک میں بلومبرگ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسکی ملک میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ آبنائے ہرمز کو عالمی جہاز رانی کیلئے بند کردے لیکن وہ ایسا نہیں کرینگے کیوںکہ تنگہائے ہرمز اور پرشین گلف ایران کیلئے شہرگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مڈل ایسٹ کی اس آتش فشاں صورتحال کو دیکھتے ہوئے قدرتی طور پر ہمارے زہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ہمارا قوم اس تمام صورتحال میں آج کہاں کھڑا ہے؟ قوموں کی تقدیر اور مستقبل کی تشکیل میں اگر جغرافیہ کا کوئی عمل دخل اور اہمیت ہے تو ہمارا جغرافیہ بلوچستان کا آدھا حصہ ایران کے قبضے میں ہے اور ایران پر جنگ کے بادل منڈالا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایران پر جنگ مسلط ہوا تو اس سے ہمارا سرزمین اورقوم برائے راست متاثرہوگا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے کچھ آزادی پسند حلقے اس حقیقت سے چشم پوشی اختیار کر رکھے ہیں اور ہماری تحریک اس موافق صورتحال سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطی کی اس آتش فشاں صورتحال سے ہم بلکل لاتعلق ہوکر رہ گئے ہیں، ہماری تحریک کا موجودہ تشکیل اور فارمیشن اس حال میں نہیں جو تحریک کی صحیح ڈگر پر ترجمانی کرتے ہوئے مڈل ایسٹ کے اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ بلوچ قومی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک کا بنیادی عنصر یعنی ایک اجتماعی سیاسی قومی موقف کی کمی ہے جس کی تشکیل دینے کی راہ میں ایک قوم،ایک سرزمین،ایک جغرافیہ،ایک زبان،ایک مزاج، ایک تاریخ ،غلامی کی تکالیف ایک جیسی اور ایک ہی منزل کیلئے راہی ہونے کے باوجود رائیں اور موقف کیوں جدا ؟
جبکہ دشمنوں کے بہکاوے میں آکر ہماری معروضی پالیسی اختلافات روز بروز زور پکڑ کر بد گمانیوں کی ایک وسیع خلیج بنتا جارہا ہے،جو کہ پالیسی اختلافات سے بڑھ کر بلاوجہ اب نظریاتی جیسے رکاوٹیں پہاڑ کی مانند کھڑے ہو گئے ہیں۔ تمام محب وطن آزادی پسند بلوچ سیاسی کارکنوں کی آج یہ اخلاقی و قومی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ وقت کی نبض کو اپنے طور ہی سہی عالمی و علاقائی پیرائے کے مطابق جائزہ لے کر سمجھنے کی کوشش کرے ،کہ آج بہت سے طاقتور قوموں کے آیران کے ساتھ کشمکش میں بلوچ قومی مفاد کو حاصل کرنے کیلئے خود کے داخلی سیاسی میدان کو موافق اور سازگار کیسے بناسکتے ہے؟
جس سے دنیا کے سامنے مضبوط و متفقہ شکل میں بلوچ اجتماعی قومی موقف کو سامنے لاسکے۔