تحریر: باھڑ بلوچ
ھمگام آرٹیکل
بلوچ قوم اپنی مد و جزر میں ایک تاریخ رکھتی ہے۔ ایک تاریخی ارتقاء کے حامل ہے۔ تاریخ کو مشاہدہ اور مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ بلوچ نے ہمیشہ اپنی قومی وجود اور خود کو تاریخ میں اُجاگر اور امر رکھنے کی جدوجہد کی ہے۔ غلامی اور مشکلوں کے ادوار میں اپنی بہادری اور جنگی حکمت عملی کی بناء جنگی میدانوں میں اپنے دشمنوں کو ہر بار شکست و ریخت سے دوچار کرکے تاریخ رقم کردیا ہے۔
اگر ہم تاریخ کے پنوں میں جھانکیں تو ایک حقیقت روزِ روشن کی طرح نمایاں ہوجاتا ہے کہ بلوچوں نے کم تعداد نے میں بھی دشمن کو لوہے چبوایا ہے جیسا کہ گل بی بی اور شہسوار نے قومی لشکر کی کمزور طاقت مگر اتفاق اور بلند حوصلوں کی وجہ سے قابض انگریز فوج کو مات دے کر پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ اگرچہ اس جنگ میں بلوچوں کی تعداد کم تھی لیکن اتفاق اور بلند حوصلے کامیابی کے کنجی ثابت ہوئے۔
اسی طرح بلوچوں نے کاہان میں بھی قابض فوج کو شکست دی۔ اس جنگ میں بگٹی بلوچوں نے بھی کسی حد تک ان کی مدد کی اور اتفاق کی مثال قائم کی۔ یہ کچھ ایسے واقعات ہیں جس میں بلوچوں کو اتفاق اور یک جہتی کی وجہ سے تاریخی کامیابی حاصل ہوئی۔ تاہم، اس کے برعکس، اگر دیکھا جائے تو اندرونی کمزوریوں نے جیسے کہ غیر سنجیدہ رویے، عاقبت نااندیشی، بداتفاقی اور زاتی انا و بغض نے بیرونی دشمنوں کو اس پر اور اس کی ریاست پر یلغار کرنے اور قبضہ جمانے کی ہمت فراہم کی ہے۔ آج بھی بلوچ ان رویوں کی وجہ سے ہولناک نتائج کا سامنا کررہا ہے۔
اگر بلوچ ان رویوں کے حامل نہیں ہوتے، تو دشمن کو مجال ہوتا کہ وہ 1839 کو اس کی ریاست پر حملہ کرتا اور قبضہ جماتا اور نہ آج بھی بلوچ سرزمین دو قابض قوتوں کے قبضے میں رہتا مگر شومئی قسمت کہ بلوچ قوم قابض پاکستانی فوج کی طرح تاریخ سے سبق سیکھنے سے سدا قاصر رہتا ہے۔
مزید برآں، دشمن نے کن صورتحال میں بلوچ قوم پر حملے کیئے، کس طرح بلوچ ریاست کی مرکز میں داخل ہوئے؟ اور پھر کس طرح لیپہ پوتی کا آمد ہوا؟ اگر ہم قدرے غور کریں تو ہر دور میں بلوچ کی اندرونی کمزوریوں کے سبب بیرونی قوتوں نے بلوچ قوم پر راج کیا ہے۔ آج بھی ہم غور کریں تو ہمارے تحریک آزادی کا کیا حال ہے، آپس میں کس طرح رویہ روا رکھتے ہیں اور مجموعی طور پر ہم کہاں ہیں؟ کیا ہمارے تحریک میں ان رویوں کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا؟ جس کام کو دس سال پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس کیلئے آج تگ و دود ہورہا ہے۔ بداتفاقی کی اصل وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ ہم اکثر نرگسیت اور ہیروازم کے شکار ہیں۔خود کو آگے لانے کے لیے تحریک میں شامل دوسری پارٹیوں اور تنظیموں کو توڈ کر تقسیم کرنے اور اجاراہ داری قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، تحریک ایسے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے کہ وہ دشمن کے خلاف لڑنے کو کم خود کے بھائی کے خلاف مذموم سازشوں اور ہتھکنڈوں کو زیادہ حیثیت دیتے ہیں اور قومی شیرازہ نہیں بنتا۔ اس کا واضح مثال کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر تنقید کرنا اور سنگتوں کے رازوں کو افشا کرنا، جس سے کئئ مخلص سنگتوں کو نقصان پہنچا اور سوشل میڈیا پر تنقید کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے عام عوام کو شش و پنچ میں ڈالا گیا اور تنظیموں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی اور تحریک آزادی کو کئی مخلص سنگتوں سے محروم ہونا پڑا۔
جب ہماری نظریہ ایک، منزل ایک، مقصد ایک، اس کے باوجود ہم کیوں ایک نہیں ہوسکتے؟ اپنے آپس کے مسئلوں کو بیٹھ کر دانشمندی اور رواداری سے سلجھاتے کیوں نہیں؟ آج بھی ہم ایک دوسرے سے انا اور بغض کیوں رکھتے ہیں؟ آج بھی ایک دوسرے میں اچھائی کم غلطیاں زیادہ کیوں تلاش کرتے ہیں؟ اس رویے کو ختم ہونا چائیے۔
آخر میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ خدارا! بداتفاقی کے ہولناک نتائج اور منفی اثرات سے سبق سیکھیں، ماضی کی غلطیوں کو نہ دوہرائیں، خود کو مزید کمزوری اور تباہی سے محفوظ رکھیں اور دشمن کو غالب رہنے نہ دیں، اگر ہم اس بار اتفاق اور اتحاد کی کوششوں میں ناکام ہوگئے، بداتفاقی بدستور جاری رہی، تو خاکم بدہن کہ بلوچ تحریک مزید مسائل سے دوچار ہوکر صرف نام تک رہ جائے۔ اس لیئے، ہمیں یہ سمجھنا چائیے کہ
“United we stand, Divided we fall.”