ہمگام کالم:
ایک حلقہ کہتا ہے چند ایک گمراہ آزادی پسندوں کا ایران میں پناہ اور ایران سے مدد لینا ان کی مجبوریوں کے تحت ہوئی کیونکہ ان کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں تھی، اور رات کا ایک پہر گزارنے کو چھت نہیں تھی۔
اب مجھے مجبور لوگوں کو تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں آئے گی کیونکہ میری پوری بلوچ قوم مجبور ہے، میری پوری بلوچ آبادی کے پاس بمشکل ایک وقت کا کھانا دستیاب ہے، میری قوم کی آدھی آبادی برابر بچوں کے پاوں میں جوتا نہیں، تن پر کپڑا نہیں اور پڑھنا سکول جانا تو بڑی بات ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ اپنےملک میں بندہ بھوکا بھی سو سکتا ہے، تن پر کپڑا نہ بھی ہو چلے گا سر پر چھت نہ ھو بھی کوئی بات نہیں لیکن مہاجرت کی زندگی میں اگر یہ سب دستیاب نہ ہو تو بندہ کیا کرے؟
مانتا ہوں مہاجرت کی زندگی مشکلات کی آماجگاہ ہے، بھوک ، افلاس، تنگ دستی، بیماری، پریشانیوں کا پہاڑ ہمیشہ سر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہجرت کرنے والے اپنی ذاتی غرض سے نہیں بلکہ بلوچستان کی آزادی کی خاطر مصائب جھیلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا جینا مرنا وطن کے لیے ہے، تو پھر ہمارے فیصلے صرف پارٹی اور تنظیم کے دائرے کے اندر کیوں گھومتے رہتے ہیں؟
بہت سے دوست اس بات کے گواہ ہیں کہ بھٹو اور جنرل ایوب کے ادوار میں پچاس ہزار کے لگ بھگ بلوچوں جن میں اکثریت مری بلوچ تھے نے فوجی جارحیت سےتنگ آکر ہجرت کی۔ اس وقت بھی بلوچ قیادت نے تیل کے ذخائر سے امیر ملک ایران میں پناہ لینے کی بجائے مفلس اور معاشی طور پر کمزور ملک افغانستان کا چناؤ کیوں کیا؟ اس لیے کہ ایران نے اس جنگ میں پاکستان کو میراج جنگی جہاز فراہم کرکے ہماری تحریک کو کمزور کرنے کی غرض سے دشمن کا ہاتھ بٹھایا۔
ستر کی دہائی میں بزرگ بلوچ رہنما نواب خیربخش مری (مرحوم) کی سربراہی میں بلوچوں نے افغانستان کا رخ کیا، جانے سے پہلے انہوں نے اپنے مال مویشی اور گھر میں موجود ایک ایک چیز بیچ ڈالی، عورتوں کے زیورات تک بیچے ۔راستے میں پاکستانی فوج کے کرایہ دار مجاہدین نے ان بلوچ خانہ بدوش مہاجرین کے قافلوں کو روک کر لوٹتے رہے۔ میں خود اس وقت چھوٹا تھا مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے لوگوں کے قافلے کو درجن بار لوٹا گیا، ایک ایک پائی ہم سے چھینی گئی، عورتوں کی بے عزتی ہوئی اور بوڑھے زدکوب ہوئے۔ ہم نے رات کی تاریکیوں میں سفر کیا، عورتوں نے راستے میں بچے راہ چلتے جنم دئیے لیکن پھر بھی رکنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، نومود بچے پیدا ہوتے ہی فوت ہوتے گئے اور والدین نے انہیں اسی راہ چلتے دفن کیا اور آگے بڑھے، کوئی کفن کا بندوبست نہیں، جنازہ پڑھنے کے لیے کوئی مولوی کا انتظام نہیں، انہیں اگر کچھ پتہ تھا تو ان کی منزل ۔۔۔کسی نے مڑ کر یہ سوال نہیں کیا کہ بھاڑ میں جائے تمھاری حب الوطنی، میرا بچہ مر رہا ہے، میری حاملہ بیوی پیدل چل نہیں سکتی، میری بوڑھی والدہ کی سانس پھول گئی ہے اور میرے نابینا والد اپنی ہڈیاں سمیٹ نہیں سکتا میں اسے کیسے پشت پر بٹھا کر کوہستان مری سے کندھار، ہلمند اور نیمروز تک پیدل لے جاسکتا ہوں؟ (راستے کی مشکلات کا تفصیلی ذکر اگلے مضموں میں کرونگا)
جب ہمارے قافلے ڈویورنڈ لائن کی سرحد ٹولیوں کی صورت میں پار کرتے، وہاں پہنچتے پہنچتے ان کے تن پر بس ایک جوڑا پیوند لگے، پسینے سے شرابور بدبودار کپڑے کے سوا کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ افغانستان پہنچتے ہی وہاں وبائی امراض پھوٹ پڑے۔ نہ گھر، نہ علاج معالجے کے لئے کوئی ڈھنگ کا کلینک۔ ان مشکل ترین حالات سے ہار کر اس وقت کی بلوچ قیادت نے کسی کی پراکسی بننا پسند نہیں۔
اب آتے ہیں موجوہ تحریک میں مجبور ٹولے کی ایران نواز پالیسیاں اور ان پالیسیوں کا بلوچ تحریک پر مستقبل میں اثر انداز بھیانک نتائج کا۔
ان لوگوں نے کسی بھوک افلاس، تنگ دستی اور مجبوری میں آکر تہران کو اپنی آماجگاہ نہیں بنایا بلکہ ایک سوچے سمجھے پارٹی فیصلے کے تناظر میں ایران کے خیمے میں بیٹھنے کافیصلہ کیا۔ ایران کےکیمپ میں جانے سے قبل انہوں نے دیگر آزادی پسند پارٹیوں سے کوئی مشورہ اور رابطہ نہیں کیا۔ ایران سے ان کی قربت رات کی تاریکی میں اور چور دروازے سے ہوئی۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایران ایک قبضہ گیر اور بلوچوں کا قاتل ملک ہے۔ ایران اورپاکستان بلوچ تحریک کو نقصان پہنچانے کے لیے ماضی سے زیادہ اس بارزیادہ متحرک ہیں پھر بھی اس گمراہ ٹولے نے ایران کو محسن سمجھ لیا ہے۔ یہ ٹولہ ایران سے مدد لینے کو اپنی مجبوری اور لائحہ عمل دونوں سے تعبیر کررہے ہیں۔
اب لائحہ عمل اور مجبوری میں فرق ہے، مجبور اگر کوئی ہوتا ہے تو محنت کرتا ہے، مشقت کرتا ہے، روزگار کرتا ہے، اپنے کسی ہمدرد دوست اور کسی دوسرے بلوچ پارٹی سے مدد طلب کرسکتا ہے لیکن حکمت عملی ہو تو وہ مجبوری میں نہیں بلکہ پیسہ ہونے کے باعث بھی اختیار کی جاتی ہے اب جو لوگ ایران نواز بنے ہوئے ہیں وہ سادہ لوح عوام کے سامنے کہتے ہیں کہ ان کی ایران سے مدد مجبوری ہے یہی لوگ جب کسی باشعور تعلیم یافتہ یا عالمی حالات اور تحریکوں کے نشیب فراز سے واقف کسی شخص کے ساتھ بحث کرتے ہیں تو اپنی ایران نواز پالیسی کو وقتی حکمت عملی قرار دیتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران ہمارا دشمن ہے، ہم ایران کو چونا لگا کر وقتی طور پر کچھ مدد حاصل کررہے ہیں لیکن وقت آنے پر ہم یوٹرن لیکر ایران سے بھی لڑیں گے۔ پاکستانی سیاسی اصطلاح میں ایسی سوچ رکھنے والے لوگوں کو لوٹا کہا جاتا ہے جو پارٹی بدلنے کو ہوشیاری سمجھتے ہیں، دوغلے پن کو سیاسی مہارت۔ عمران خان جیسے یوٹرن جو ہوا کے رخ دیکھ کر فیصلے بدل دینے کو کامیامی کہتے ہیں اور پاکستان جیسے کرایہ دار کہلائے جاتے ہیں جو اپنے مفادات کےلیے کبھی سی آئی اے کا آلہ کار بنتے ہیں، امریکہ پر حملے کے وقت امریکہ کا ساتھی ہونے کا تاثر دے کر ڈالر بٹورے، اپنے چار سو لوگ پکڑ کر امریکہ کو بیچ دئیے اور پردے کے پیچھے طالبان اور القائدہ کو مدد بھی فراہم کرتے رہے۔ پاکستان کے اس کرایہ دارانہ خصلت کو دیکھ کر ایران امریکہ جنگ میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپئو نے پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے بات کرنے کی بجائے سیدھا فوجی چیف جنرل قمر جاوید باجوا کو فون کیا کیونکہ امریکہ کو اچھی طرح علم ہے کہ فوج ہی اصل کرتا دھرتا ہے اور یہی کرایہ پر میسر آرمی ہے۔
پاکستان بھلا اسے اپنی چالاکی اور حکمت عملی کہے لیکن دنیا میں اس کی جگ ہنسائی ہورہی ہے، وزیر اعظم عمران خان ملیشیا میں کوالا لمپور سمٹ میں اپنے سفر کو سعودی عرب کی ایک ہی دھمکی سے کینسل کرتے ہیں اس سے زیادہ ذلت کسی ملک و قوم کو دنیا میں نصیب نہیں ہوئی۔ پاکستان کی پراکسی بننے کی پالیسیوں کی وجہ سے آج کوئی بھی ملک اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔ اب ایران امریکہ کی ممکنہ جنگ میں پاکستان امریکہ کا ساتھ دے بھی تو ایران کو بکھرنے سے نہیں روک سکتا اور ایران کے ٹوٹ جانے سے اس خطے میں کردستان و بلوچستان آزاد ہونے جارہے ہیں ایسا ہونا پاکستان کی موت ہے۔ پراکسی جنگوں میں اپنی فوج کو جھونکنے والے پنجابی جرنیل آج سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ کس طرح انہوں نے افغانستان میں پراکسی بن کر آگ کو اپنے اندر دھکیل دیا ہے اب اگر پنڈی والے ایران کا ساتھ دیں گےتب بھی ان کا اس بار بچنا مشکل ہے۔
بلوچوں کے ایک حلقے کو بھی اپنا قبلہ جلد از جلد درست کرنا پڑیگا اور ایرانی تمن لینے سے اپنا ہاتھ کھینچنا پڑیگا۔۔۔بلوچ قیادت سے فوری رابطہ بحال کرکے مستقبل کے لائحہ عمل اور قومی مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینا چاہیے، آپسی ٹانگ کھنچائی سے اجتناب کرتے ہوئے قومی مزاحمتی اور سیاسی طاقت کو یکجا کرنا چاہکیے ، ایران کو اپنا دشمن واضح الفاظ میں قرار دینا پڑیگا تب جاکر قومی جہد ایک قابل قبول خاکہ کےساتھ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں گے ورنہ جنہوں نے مادی فوائد لیے ہیں ان کے حصے میں چند ایک بلٹ پروف گاڑی ہو لیکن گولڈ سمت لائن کے دونوں جانب بلوچ عوام کی حمایت سےہمیشہ کے لیے محروم ہونگے ان کےبرعکس وہ انقلابی پارٹی جو اس وقت مشکل کےپہاڑوں سے ٹکرا رہے ہیں، تنظیمی مبجوریوں کو قومی تحریک پر حاوی نہیں ہونے دے رہے وہ ضرور قوم کو اس دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہونگے۔ اس کامیابی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تمام بلوچوں کو یکجا ہوکر ایران اور پاکستان کے خلاف اپنی طاقت کو متحد کرنا پڑیگا۔
ہمیں اپنے اندر قومی احساس جگانا ہوگا، کچھ لوگوں کا پراکسی بننے سے ہوا یہ کہ اب وہ ایران کے ہاتھوں شہید اپنے بلوچ بھائی کی شہادت پر بول بھی نہیں سکتے جیسے عمران خان چین کا کرایہ بن کر دس لاکھ یوغر مسلمان چینیوں کےہاتھوں حراستی کیمپوں میں رکھنے اور اسلام کے بنیادی ارکان پر چینی پابندی پر میڈیا میں بات نہیں کرتے اور عالمی ذرائع ابلاغ کا یوغر مسلمانوں کے بارے میں سوال پر عمران خان کہتا ہے مجھے یوغر مسلمانوں کے بارے میں کوئی علم نہیں، پاکستانی ذرائع ابلاغ ہندوستان میں مسلمانوں کا تو سفیر ہے لیکن چین میں مسلمانوں پر مظالم پر خاموش ہے اسی طرح کا رویہ ایران نواز گروہ نے بھی اختیار کیا ہوا ہے وہ ایران کے ہاتھوں مارے جانے والے بلوچوں کے بابت نہ ٹویٹ کرتے ہیں نہ ان کے ویب سائٹ اور سوشل میڈیا میں اس پر کوئی بحث ہوتی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا آقا ایران ناراض ہوتا ہے۔
یہ لوگ پراکسی بنے کیونکہ بھوکے تھے، مجبور تھے، گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ۔۔۔۔؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔
اب ایران جب ایک بلوچ کنبے کے سربراہ کو گولی مار کر یا پھندہ دے کر شہید کررہا ہے وہ بھی ایک بلوچ ہے اسی طرح ان کاگھر بھی اجاڑ دیا گیا، ان کے بچے بھی یتیم ہوگئے، ان کی ماں سے بھی بیٹا چھینا گیا اور اولاد کے سر سےباپ کا سایہ چھینا گیا۔۔۔اس مجبوری کو دیکھنے، اور محسوس کیوں نہیں کیا جارہا؟
یہی وہ بے حسی ہے جو پراکسی بننے کی صورت میں ہماری دوری کا باعث بن رہا ہے، ہمیں ایک بننے سے روک رہا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے درد سے ناآشنا کررہا ہے۔ جو کہ ہماری تحریک کے لئےمجموعی طور پر دیمک بنتا چلا جارہا ہے۔ اس کا روک تھام نا گزیر ہے۔