تحریر: فضل بلوچ

ہمگام آرٹیکل

دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں جتنی قومیں آزاد ہوئے ہیں ان سب اقوام کا عام عوام سے لیکر انکے لیڈروں نے بھی قربانیاں دی ہیں، انہوں نے انفرادی سوچ سے نکل کر عام عوام، اپنے وطن اور آنے والے نسل کی مستقبل کیلئے سوچ، غور وفکر کی ہیں کہ وہ ایک آزاد ریاست میں ایک آزاد حیثیت سے زندگی گزارے ، انکے نوجْوانوں او دوراندیش رہنماؤں کے جدوجہد کی بدولت آج دنیا میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک وجود رکھتے ہیں۔ یہ تمام کامیابیان انکی لیڈروں کی دور اندیشی، وسیع النظر ہونے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور اتفاق کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں، جنہوں نے ایک مشترکہ قومی قوت کے ساتھ اپنی قوم کو پسماندگی اور استحصال ہونے سے بچایا۔ 

ہم جب بھی اپنی قوم اور قومی رہنماؤں کے بارے میں پڑھتے ہیں جتنی قربانیاں ہماری قوم اور قومی رہنماؤں نے دی ہیں میں سمجھتا ہوں کسی اور نے شاید اتنی قربانی نہیں دی ہو۔ سیاسی رہنماؤں نے انتہائی جدوجہد کرکے قوم کی شعوری آبیاری کی ہے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران انہوں نے جیلوں اور عقوبت خانوں میں طرح طرح کی اذیتیں برداشت کی ہیں، جلا وطن زندگی گزارے ہیں انہیں غداری کا لقب بھی دیا گیا ہے، لیکن وہ اپنے قوم اور قومی مقصد سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے ـ بلکہ ان میں پختگی پیدا ہوکر انہوں نے مزید جدوجہد کی ـ

اسکے برعکس اگر ہم اپنے قومی لیڈروں کو دیکھیں جو یہ کام نہ کر پائے، وہ ہے قومی یکجہتی، جسکی وجہ سے قوم بدترین استحصالی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، متحدہ قوت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں یہ صلاحیت نہیں رہے کہ وہ ظلم و نا انصافی اور استحصالی قوت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ 

جب ہم تاریخ اٹھا کر پڑھتے ہیں تو ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں نے قربانیاں دی ہیں، جنگیں لڑی ہیں لیکن کبھی جُھکے نہیں انگریز سامراج کے سامنے بلوچ قوم وہ واحد قوم ہے جو جُھکا نہیں بلکہ اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے اس سامراج کے سامنے پہاڑ کی طرح کھڑے رہے اور انگریز سامراج کو ہر جنگ میں شکست سے دوچار کیا۔ ہمارے سیاسی رہمناؤں کی کمزوریوں اور اتفاق و اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے آج تک بلوچ اسی استحصال کا شکار ہے ظلم جبر روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں ناانصافی اپنی عروج تک جاپہنچی ہے اس وقت ہمارے سیاسی رہنما اگر ایک پارٹی کے اندر ایک ساتھ ہوکر جدوجہد کرتے تو میں سمجھتا ہوں آج بلوچستان کی اپنی شناخت ہوتی اور شاہد ہم اسطرح ظلم جبر کے پیروں تلے نہیں دب جاتے۔

جب ہم پڑھتے ہیں 1937 میں ریاست قلات کے دور میں جب پہلی پارٹی بنی جہاں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی KSNP کی بیناد رکھی گئی اس پارٹی میں ہمارے بہت بڑے رہنما بھی شامل تھے جنکے منشور میں یہ تھا جو ریاست قلات کو برٹش راج سے مکمل چھٹکارہ دلا کر ایک خودمختار بلوچستان کا قیام عمل میں لائے۔

 لیکن اس پارٹی پر پابندی عائد کی گئی، جب اس پارٹی پھر پابندی عائد کی جاتی تو ہمارے سیاسی رہنماؤں نے پھر “بلوچ لیگ” کے نام سے بھی بلوچوں کیلئے ایک اور پارٹی عمل میں لایا گیا، اسطرح پارٹیاں بنتی گئیں اور ٹوٹی گئیں، یہ سلسلہ 1937 سے لیکر آج تک جاری ہے ہمارے رہنماؤں نے سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی طلبا تنظیمیں بھی بنائیں جو آج بھی اپنے اندورونی اور سیاسی اختلافات کی وجہ تقسیم در تقسم کے شکار ہیں۔

حالانکہ اسی دوران بلوچ سیاسی رہنماؤں کو پاکستان کے پارلیمنٹ میں بھی جگہ ملی بلکہ انکو اپنے صوبے میں بڑے بڑے حکومتی عہدے ملے لیکن آج تک وہ بلوچستان کی استحصال کو ختم نہ کرسکے اور نہ ہی وہ بلوچوں کو یکجاہ کرسکے، بلوچ وہ واحد قوم ہے جو بھوک سے کبھی نہیں مرتا، گلہ بانی، کھیت باڈی اور مزدوری کرکے زندگی گزار دیتا ہے لیکن بلوچ کو اپنے نام نہاد سیاسی رہنماؤں نے اسطرح استحصال، ظلم اور جبر کے اندر دکھیل دیا کہ آج تک بلوچ نکل نہیں پا رہی ہے پھر ہم نے اپنے گزرے ہوئے غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔

آج بلوچستان میں دو چار نام نہاد سیاسی پارٹیاں جو بلوچ کے نام پہ سیاست کررہے ہیں مفادات انکے اپنے ہیں لیکن نام بلوچ قوم کا استعمال کیا جارہا ہے، بلوچستان کی معدنیات کی سودہ بازی ہو، بلوچوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ گرانے کی بات ہو، یہ تمام نام نہاد لیڈراں اپنے اپنے دور میں برابر کے شریک تھے اور ہیں، جب بھی یہ نام نہاد حکومت میں آتے ہیں تو بلوچستان اور بلوچوں کی قدرتی معدنیات کا سودا کرتے ہیں، جب بلوچ اپنے حق کی بات کرتے ہیں، سوال کرتے ہیں، حقوق کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو انکی آواز کو بزور طاقت دبانے کی خاطر مرکز کے ساتھ ملکر ظلم و جبر کے بازار کو گرم کرتے ہیں، پھر جو سیاسی پارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو نام نہاد حکومت کو بُرا بھلا کہنا شروع کرتے ہیں بلوچستان کی سودا کرنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن جب اگلی مرتبہ یہی سیاسی پارٹی اقتدار میں آتے ہیں تو پھر اس سے زیادہ بلوچ اور بلوچ سرزمین کے قدرتی معدنیات کا سودا لگاتے ہیں یہ سلسلہ اسطرح جارہی ہے، بلوچوں کو مزید ترقی کے نام پہ غلام بنایا جارہا ہے، مزید انکے اوپر ظلم جبر کے پہاڑ ٹھوٹ رہے ہیں اور اب عام عوام کا اعتماد ان نام نہاد پارٹیوں پہ ختم ہوچکا ہے۔ 

جسطرح ہم گْوادر کے ایک چھوٹی سی عام عوام کی انقلاب کو دیکھیں کس طرح لوگ نکل رہے ہیں، صرف مولانا ہدایت الرحمان کو بلوچ ہونے کے ناطے اپنا لیڈر مانا اور نکل گئے اور مولانا نے وہ باتیں کئے وہ ڈمانڈ رکھے جو حقیقت میں اس وقت گْوادر کے گراؤنڈ کے مسئلے تھے اس لئے لوگوں نے مولانا ہدایت الرحمان پہ اعتماد کرکے گھروں سے نکل گئے اپنے بنیادی حقوق کیلئے جو آج تک لوگ کو نہیں ملے اسکی ایک وجہ تھی جو کہ مولانا اور اسکے پارٹی۔

جسطرح مولانا ہدایت الرحمان سامنے آئے اور عوامی تحفظات سے فائدہ اٹھا کر عام بلوچ عوام کے دلوں میں جگہ بنا لی اور ہم سب انہیں بُرا بھلا کہنے لگے لیکن وہ اپنی مفادات کی تکمیل کیلئے دستبردار نہیں ہوئے ،انہوں نے سوچا کہ اس لاچار عوام کو انکے اپنے مفادات کے تحت یکجاہ کرکے سیاست کو ایک نئی رخ دینا ہوگا پھر یہی نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے ہوش اڑ گئے اور مولانا کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔

لیکن پھر بھی گراؤنڈ میں اسپیس خالی تھا مولانا صرف ایک ماچس کی ٹیلی کی مانند تھی، آگ کے بھڑک اٹھنے کیلئے لکڑی تو پہلے سے جمع تھے، لیکن پھر وہ جو خود کو حقیقی معنوں میں سیاسی رہنما سمجھتے ہیں انکے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتا ،گْوادر میں ایک نیا انقلاب نے سر اٹھایا، وہ عوامی انقلاب جو پڑھے لکھے عوام سے لیکر مزدور کسان سب میدان میں نکل آئے، جن میں ہمارے بلوچ ماں بہنیں بھی شامل تھے، سب اپنی حقوق کیلئے آواز اٹھا رہے تھے، بلوچستان کے ہر کونے سے لکڑی تیار تھی بس ایک ماچس کی ٹیلی کی ضرورت تھی اس ٹیلی کو لگانے کیلئے ہمارے پاس بندے دستْیاب نہیں تھے، گراؤنڈ خالی تھا اور وہ بندہ مولانا کی شکل میں سامنے آیا اور انہوں نے عوام کے جزبات کے ساتھ کھیل کھیلنا شروع کیا اور آخر کار انکے جزبات ختم ہوگئے کیونکہ مولانا ایک ایسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جس نے کبھی بھی بلوچوں کی حقوق کی دفاع نہیں کی بلکہ بلوچوں کے اوپر ظلم و جبر میں ان تمام پارٹیوں کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ اس لئے آج تک گْوادر کے عوام کو انکے بنیادی حقوق نہیں ملے آج بھی گْوادر کے عوام تھکے ہوئے حالات میں روڈوں پہ نکلتے ہیں احتجاج کرتے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں کوئی سیاسی اور نظریاتی لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز ایک نیا چہرہ آکر عوام کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کو پورا کرتا ہے اپنے ووٹ بیلنس کو برابر کرنے کیلئے عوام کی خیرخواہ بن جاتا ہے آج بھی بلوچ عوام کو ایک سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے جو عوامی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچ عوام کو یکجاہ کرکے جدوجہد کو جارہی رکھے تاکہ بلوچ قوم اس ظلم، جبر، ناانصافی اور استحصال سے نکل کر آنے والے نسل کیلئے ایک روشن مستقبل کے خواب کو سجا سکیں۔

بحیثیت ایک ادنیٰ سا سیاسی کارکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج بھی گراؤنڈ میں ایک خالی خلا ہے جو لاچار بلوچ کسان مزدوروں اور پڑھے لکھے نوجْوانون کو یکجاہ کرکے اپنے اوپر ظلم جبر ناانصافی اور استحصال کے حلاف نکل کر آواز اٹھا سکے، آج بھی عوام کو صحیح معنوں میں ایک سیاسی رہمنا کی ضرورت ہے جو قوم کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرے، گزرے ہوئے کمزوریوں، غلطیوں سے کچھ سیکھ کر اب آگے آئیں اور اس عوامی انقلاب کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے قوم کو یکجاہ کرکے انکے اوپر جو ظلم ڈھائی جارہی ہے اسکے خلاف نکلیں اور اپنے آنے والےنسل کیلئے ایک روشن مستقبل کی تعمیر کیلئے کردار ادا کریں۔