تحریر۔ ثناء بلوچ

ھمگام آرٹیکلز

مندرجہ بالا عنوان میں دو لفظوں کا استعمال ہوا ہے۔ ایک نرگسیت اور دوسرا سرمچار جو کہ ایک گوریلا جنگجو ہے۔ برائے راست موضوع پر آنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کے میرے قارئین پہلے یہ جان لیں کہ نرگسیت کیا ہے؟ نرگسیت دراصل ایک ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے اور اپنے معاشرے کے لوگوں کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں تو لگ بھگ ہرشخص نرگسیت کے مرض میں مبتلا پایا جاتا ہے۔ مگر کسی حد تک ہر کوئی اسے قابو کرنے میں مگن ہے۔ یہ زہنی کیفیت اس وقت عروج پر پہنچ جاتی ہے جب متاثرہ شخص اسے قابو کرنے میں غفلت برتتا ہو۔ چلیں نرگسیت کو مزید جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نرگسیت ایک ذہنی حالت ہے جس میں لوگوں کو اپنی اہمیت کا غیر معقول حد تک احساس ہوتا ہے۔ انہیں ذاتی پرستش کی لت لگی ہوتی ہے۔ یہ بہت زیادہ توجہ کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہر وقت ان کی شان میں تعریف کے پل باندھیں۔ اگر کوئی ان کی تعریف نہ کرے تو یہ خود اپنی تعریفیں کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خود کا دیوانہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ لوگ تعریف کے بھوکے ہوتے ہیں ان کی ہمہ وقت یہی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ لوگ انہیں دیکھیں، ان کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کریں اور ان کی تعریف کریں۔ اس مرض کو مزید سمجھنے کیلئے جب گوگل کی مدد لی تو اس کے مزید کچھ علامات سامنے آئے۔جن میں خود کی اہمیت کا اشد احساس ہونا، خود کی طاقت، خوبصورتی، اور کامیابی کے ساتھ مشغول ہونا پایا گیا۔

 مزید برآں نرگسیت کے شکار لوگ خود کو ہر چیز کا حقدار سمجھتے ہیں اور اپنے فائدے کے لیے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان میں مغروری، ہمدردی کا فقدان، خود پسندی، دوسروں سے حسد کرنا یا یقین کرنا کہ دوسرے ان سے حسد کرتے ہیں جیسے علامات شامل ہیں۔

اب یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گوریلا جنگجو (جسے اس تحریر میں آگے محض گوریلا ہی کہا جائے گا) کیا ہوتا ہے۔ اس کے خصوصیات اور اس کا کام کیا ہے۔ یہ ایک ایسی فوج یا دستہ ہوتا ہے جو بہترین حکمت عملی کے تحت کم تعداد اور کم طاقت اور وسائل میں دشمن پر کامیاب حملے کرکے اسے پسپا کر دیتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر گوریلا سپائی، لیڈر اور تنظیم کو “دی گاسٹ” یعنی “جن” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے، گوریلا جنگجو وہ ہوتے ہیں جو دکھائی اور سنائی نہ دینے کے باوجود پوشیدگی کی حالت میں ہر وقت اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں۔

اب چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف، اگر دیکھا جائے تو دونوں سرمچار (جو گوریلا ہی ہوتے ہیں) اور نرگسیت ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ نرگسیت کے شکار افراد ہمیشہ دکھاوے میں مصروف رہتے ہیں۔ جبکہ سرمچار جو گوریلا ہوتے ہیں، ان کی اولین ترجیح خود کو زیادہ سے زیادہ چھپانا ہوتا ہے۔ تاکہ دشمن کو کسی بھی طرح اُن کے کسی بھی عام یا خاص شے کے بارے میں علم نا پڑ جائے۔ خواہ وہ ان کے ہتھیار ہوں، ان کا آمدورفت، سواری، علاقہ، ان کی پہچان یا کوئی بھی دوسرے ایسے معلومات دشمن کے ہاتھوں نہ پڑ جائے۔

مگر پچھلے کئی سالوں سے بلوچ سرمچاروں میں گوریلا جنگ کے اصولوں سے ہٹ کر غیر سنجیدہ عمل دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مثلاً بلوچ گوریلا سرمچار اپنے سامان اور دوسری اشیاء سے لدھی ہوئی گدھے کے ساتھ سیلفی کھینچ کر چہرے پر ایموجی چسپا کے فیس بک اور انسٹاگرام پر اپلوڈ کرتے ہیں۔ اپنی شناخت سمیت ہتھیار، ٹرانسپورٹ کا نظام اور علاقے کے بارے دنیا کو بتاتے ہوئے گوریلا جنگی اصولوں اور ڈسپلن کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ اگر ماؤ، فیڈل کاسترو اور چی گویرا جیسے گوریلا لیڈر آج بلوچ سرمچاروں کو دیکھتے اور انہیں کسی محفل میں خود کو گوریلا کہتے ہوئے سنتے تو شاید پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنستے۔

اگر دیکھا جائے تو اس میں سرمچاروں کی کوئی غلطی نہیں۔ اصل غلطی ان زمہ داروں کی ہے جن کے وہ پابند ہیں، وہ ادارے یا پارٹی جن سے وہ وابستہ ہیں۔ ذمہ دار اتنے بھی اہل نہیں کہ وہ پہاڑوں میں لڑنے آئیں یا اپنے ساتھیوں کو گوریلا ہونے کی اصل تربیت دے سکیں۔ ان میں اتنی سوچ اور ڈسپلن نہیں کہ وہ اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کو ایسا عمل کرنے سے روک دیں۔

ویسے یہ سوشل میڈیا پر تصاویر شائع کرنے والی رجحان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسے کئیں سال ہوچکے ہیں۔ مگر درد تب ہوا جب بی ایل اے جیسے سخت اصول اور سخت ڈسپلن کا نعرہ لگانے والے تنظیمی ساتھیوں کو ایسی بچکانہ حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ سب دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ ہر کسی سے خود بات کرنا تو شاید ممکن نہ تھا اس لیے سوچا کچھ لکھ لوں، تا کہ یہ باتیں جن تک پہنچیں وہ آئندہ خیال رکھیں۔