Homeآرٹیکلزوائٹ کالر مجرم :تحریر: نود بندگ بلوچ

وائٹ کالر مجرم :تحریر: نود بندگ بلوچ

تحریک کا آغاز تو ایک بہت ہی سادہ سے خیال پر ہوا ، وطن غلام ہے جنگ لازم ہے ، جتنی کوشش ہے جتنی صلاحیت ہے جتنی تعداد ہے جمع کرکے اس جنگ کو آگے بڑھائیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں پر جمی پارلیمانیت اور پاکستانیت کی برف ٹوٹے اور لوگ ساتھ ہوتے جائیں۔ آغاز کا بنیاد محض مخلصی اور بے لوثی تھی نہ رسمی سپریم لیڈریں تھیں نا کسی کو پتہ کہ میں کس پارٹی میں اور کس کا بندہ ہوں ، مقصد عزیز تھا مقصد محور تھا لیکن یہ اتنی سادہ سی تحریک کب پیچیدہ ہونے لگی ، کب اچانک سپریم لیڈروں ، اعلیٰ قیادتوں ، مقدس پارٹیوں کا ظہور ہوا اور کب یہ تحریک سے زیادہ مقدس اور عزیز تر بن گئے اتنا مقدس کہ اسی تحریک کو لیکر ان سے پوچھ تک نہیں ہو سکے پتہ نہیں چلا۔ دنیا میں مجرموں کی ایک قسم سفید پوش مجرموں ( وائٹ کالر کرمنلز ) کے نام سے جانی جاتی ہے پہلی بار اسکی تعریف 1939 میں ایڈون سدرلینڈ نامی ماہر سماجیات نے کی ، یہ کسی چور ، ڈاکو ، سمگلر کی طرح ظاہر اور بدنام نہیں ہوتے بلکہ یہ کسی بھی نظام کے اندر گھس کر اسکے اندر کی خامیوں (لوپ ہولز) سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفادات پورے کرتے ہیں ، اس نظام کو اندر سے لوٹتے ہیں اور اسے کمزور کرتے جاتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ انکے سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رہتا ہے جیسے ایک ڈاکو کسی بینک میں بندوق لیکر ہزاروں خطرات مول لیتے ہوئے ، ڈاکو کا ٹھپہ عمر بھر لگوانے کے بعد جتنی رقم لوٹتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ایک وزیر کسی کاغذ پر دستخط کرنے کیلئے تحائف کی صورت میں وصول کرتا ہے اور معاشرہ میں باعزت بھی رہتا ہے۔ اس طرح کے وائٹ کالر مجرم ہر جگہ گھس جاتے ہیں یہ کسی نجی بینک سے لیکر کسی سرکاری ادارے تک ، فوج سے لیکر کسی ملک کے وزارت تک حتیٰ کے کسی انقلابی پارٹی یا تحریک تک میں گھس سکتے ہیں ، انکی خصوصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی بھی نظام کو لوٹنے کیلئے ڈاکو کی طرح باہر سے نہیں آتے بلکہ وہ اسی نظام کے رنگ میں رنگ کر اسے اندر سے ہی دیمک کی طرح چاٹنے لگتے ہیں اور لوٹتے رہتے ہیں تبھی انکی پہچان سب سے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔
بلوچ قومی تحریک کی حالت زار بھی مختلف نہیں اسکے اندرون سیاسی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والے آج اسی طرح انقلابی کی صورت میں اندر گھس گئے ہیں جس طرح یہ امریکہ میں ساہوکاروں اور سوویت یونین میں بیوروکریسی کی صورت میں گھس گئے ، میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے اندر ایسے وائٹ کالر کرمنلز بہت مہارت کے ساتھ اداروں کو ڈھال بناکر اپنے مفادات پورے کرتے ہیں، اگر بلوچ قومی تحریک کے ایک بڑی خامی کا ذکر کیا جائے تو وہ ہمارے اداروں کا کھلا پن ہے اس میں کوئی بھی شخص فوراً ایک اعلیٰ مقام تک آسکتا ہے ، کسی بھی پارٹی میں گھس کر لابینگ شروع کرکے ایک اعلیٰ عہدے تک آسکتا ہے پھر کسی بھی طور اس ادارے کے فیصلہ سازی میں شامل ہوکر ریشہ دوانیوں سے خود کو ایک بار مضبوط کرتا ہے پھر اسکے بعد بہت آسانی سے اپنے ہر فعل کو اس ادارے کے نام کا ٹھپہ لگواکر پایہ تکمیل تک پہچا سکتا ہے ، پھر اسکا ہر عمل اس پارٹی کے نام کے پیچھے چھپ جاتا ہے ، اسی طرح بات یہاں تک نہیں رکتی اگر ایک ادارے کے اندر بات نہیں بنتی تو بہت آسانی کے ساتھ کچھ لوگوں کو توڑ کر ایک نیا پارٹی بنا لو پھر وہی دھندہ شروع کرلو یعنی سب سے پہلے ایک باقاعدہ پروپیگنڈے سے اس پارٹی کو مقدس ثابت کرو یعنی اس پارٹی کے کسی بھی فعل پر سوال اٹھانا توہین اور غداری بن جائے اور پارٹی کے اندر ایسا لابی مضبوط کرلو کہ کسی بھی اختلافِ رائے رکھنے والے کو وہاں جگہ نا مل سکے پھر وہاں سے من چاہے فیصلے کرو اور ہر فیصلہ مقدس اور ہر بات مقدس ہوکر وہاں سے نکلے گی اور ان پر انگلی اٹھانے والے واجب القتل ٹھہریں گے ، یعنی ان پارٹیوں کی مثال پانی صاف کرنے والے ان مشینوں جیسی ہے جس میں گٹر کا پانی تک پروسس ہونے کے بعد بالکل صاف شفاف ہوکر نکلتی ہے۔ اسی لیئے اس خامی کو بھانپ کر وہ وائٹ کالر مجرم اس کے ذریعے سے اپنے مفادات پورا کرتے ہیں۔
آج کے موجودہ حالات کو دیکھیں ہم آج جب مسائل پر بحث کرتے ہیں تو بی ایل ایف ، بی این ایم ، بی ایس او کو الگ الگ کرکے اور الگ قسم کی غلطیاں اور خامیاں بیان کرتے ہیں درحقیقت ان تینوں کی جدا حیثیت محض دھوکہ ہے ، میں سمجھتا ہوں ان تینوں پارٹیوں کا اب وجود ختم ہوچکا ہے سب پر انہی عناصر کی ایک ہی لابی قابض ہے جو چہرے بدل بدل کر لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے ، ان تینوں پارٹیوں کے اعلیٰ قیادتوں کے بارے میں ایک بار تجزیہ کریں کہ وہ کیسے سربراہ بنے ، ڈاکٹر اللہ نظر کی کوئی بھی قابلِِ ذکر عسکری خدمات نہیں تھیں بی ایس او کا چیئرمین تھا اور جیسا کہ بی ایس او کے بناوٹ کا فطرت ہے وہ چیئرمینی کی حیثیت سے مشہور ہوا اور جب جیل میں بند ہوکر چھوٹتا ہے تو لوگوں کی ہمدردیاں اسکے ساتھ ہوتی ہیں، جب موصوف باقاعدہ کوہ نشین ہوجاتا ہے تو وہ پہلے سے موجود غیر معروف اور گمنام قیادت کو اپنے شہرت کے بل بوتے پر دیوار سے لگانا شروع کرتا ہے ہماری بد بختی یہ رہی ہے کہ ہم صرف ظاہری اور سطحی چیزوں پر رائے بناتے ہیں اور اس وقت ایک تو اللہ نظر کو ہمدردی حاصل تھی دوسری یہ کہ اس نے چالاکی کے ساتھ خود کو مسلح محاذ کے چہرے کی صورت میں متعارف کراکے وہ حمایت بھی کیش کی جو اس وقت بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کارروائیوں سے حاصل ہورہا تھا کیونکہ اس وقت کوئی بھی اور چہرہ سامنے نہیں تھا تو سارا کریڈٹ ڈاکٹر صاحب اپنے گود میں سمیٹنے میں کامیاب ہوگئے ، اب اتنی شہرت کے حامل کسی شخص کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اوپر سے استاد واحد قمبر کی گرفتاری نے کام اور آسان کردیا اور ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر خالد کو جذباتی ، ماسٹر ستار کو مشکوک اور ماسٹر سلیم کو غیر موزوں آسانی سے ثابت کرکے خود سر پرست اعلیٰ و مختار کل کا لقب پالیا اور روز بروز اپنا لابی مضبوط کرنے لگا ، اسی طرح بی این ایم کے اندرون کہانی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں پہلے واجہ کے حیات میں بی این ایم کے اندر ہی ڈاکٹر اللہ نظر نے لابنگ شروع کردی ، کارخیر کیلئے خاص طور پر ڈاکٹر امداد و منان کو بھیجا گیا لیکن وہ واجہ کو زیر کرنے میں تو کامیاب نہیں ہوئے مگر اچھی خاصی پوزیشن حاصل کرلی ، پھر واجہ کے شہادت تک (اس تناظر میں اس شہادت کے دوسرے پہلووں پر غور اشد ضروری ہے) اسے تنگ کرتے رہے ، بعد ازاں بی این ایم کا اس نقطے پر اختلاف کہ اسے بی ایل ایف کی ذیلی تنظیم نہیں بنائی جائے دو لخت ہوجاتا ہے اور وہی لابی جھاؤ میں بی ایل ایف کے بندوقوں کے زیر سایہ کونسل سیشن کرکے بی این ایم پر قابض ہوجاتا ہے ، اسی طرح بی ایس او پر یہ لابی کس طرح قبضہ کرتا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں بی ایس او آزاد کے چنندہ کونسلران کو نظر انداز کرکے صرف مشکے آواران سے 50 ایسے لڑکے بلاکر کونسل سیشن کا نام دیا جاتا ہے جن میں سے نوے فیصد کا تعلق بی ایل ایف سے ہوتا ہے پھر ڈاکٹر اللہ نظر کے باقاعدہ نگرانی میں کونسل سیشن کرکے اسی گروہ کے دلپسند لوگوں کو مسلط کردیا جاتا ہے ، اب یہاں یہ صورتحال بنتی ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر ، اختر ندیم ، شوکت بلیدی ، ڈاکٹر منان ، خلیل ، زاہد ، عبدالحئی باقاعدہ وہ گروہ ہے جو بی ایل ایف ، بی این ایم اور بی ایس او کے نام پر ریشہ دوانیوں اور چالاکی کے ساتھ قبضہ کرچکے ہیں اور آج اپنے عزائم کی تکمیل ان تنظیموں کو پہلے مقدس گائے بناکر پھر انکے نام سے کررہی ہے ، اسی گروہ کی معاونت کریمہ ، جواد ، غفار ساسولی ، بہلک وغیرہ جیسے کردار محض مراعات اور اختیار کی خاطر کررہے ہیں ، اور اس گروہ کو جن لوگوں سے بھی خطرے کا امکان تھا انہیں یا تو دیوار سے لگادیا گیا یا پھر خفیہ مشن پر بھیج دیا گیا اور ساتھ ساتھ بجار ، استاد واحد قمبر اور شکاری جیسے سنجیدہ لوگوں کی بے بسی اور خاموشی نے انہیں مزید تقویت پہنچادی۔
یہ خاکہ پیش کرنے کا مقصد محض یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح یہ عناصر ، یہ سفید پوش مجرم جن کی تعداد گنتی میں ہے تحریک کے کمزور پہلوؤں سے فائدہ اٹھاکر پورے تحریک کو یرغمال بنارہے ہیں اور اپنے ہر سیاہ عمل کو کسی مقدس ادارے کا نام اور اپنے اوپر اٹھائے گئے ہر سوال کو کسی مقدس ادارے اور اس مقدس ادارے کے کسی مقدس لیڈر کی توہین گردان کر پورے تحریک کا رخ بدل رہے ہیں ، اور اپنے چہروں پر اداروں و انقلاب کی ملمع سازی کرکے اس سسٹم کے اندر گھس کر اسے اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اب ذرا ان کی گٹھ جوڑ پر غور کریں کہ یہ اپنا دفاع کس طرح کررہے ہیں، بی ایل ایف ہو ، بی این ایم یا بی ایس او تینوں نے پہلے ان سب لوگوں کا صفایا کیا جہاں سے انہیں مستقبل میں اختیار ہاتھ سے جانے کا ڈر تھا ، بی این ایل ایف کا بننا ، ثناء اور اسکے ساتھیوں کا نکلنا ، حکیم ساسولی ، قمبر قاضی کچکول بہار کی مشکوک شہادتیں، بی این ایم غلام محمد گروپ کا بننا ، سعید یوسف کا نکلنا ، بی ایس او کے اندر سے بلاک کا بننا ، 10 سے زائد مرکزی ارکان کو نکالنا سب محض اپنے اختیار کو ممکنہ خطرات کا صفایا تھا۔ اب آگے دیکھیں جب اتنا سارا گندگی تحریک کے چہرے پر ملنے کے بعد ان کے کردار پر تنقید ہوتی ہے تو ردعمل کیا سامنے آتا ہے ، جیسا کے پہلے عرض کیا گیا کہ درحقیقت یہ سب محض دس بارہ لوگوں پر مشتمل ایک گروہ ہے جنہیں میں وائٹ کالر کرمنلز کہنا پسند کروں گا ہے۔ یہ گروہ اب کھل کر کہیں سامنے نہیں آرہا کیونکہ انہوں نے اپنے دفاع کی خاطر ہی نظام کے کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اداروں پر قبضہ کیا تھا اگر وہ سامنے آکر جواب دیتے جہاں ان کے پاس کوئی جواب ہی نہیں تھا سوائے اقرارِ جرم کے تو وہ بالکل عیاں ہوجاتے اس لیئے مقدس اداروں کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بعد سب سے پہلے ایک ایک کرکے ان تینوں پارٹیوں سے یہ سوشل میڈیا پر اپنے اوپر ہونے والے تنقید کو دشمن کے ایجنٹوں کی چال اور ملک دشمنی قرار دیتے ہیں ، اب آگے دیکھیں ایک مفروضہ گھڑا جاتا ہے ملٹی نیشنل کا پہلے پہل بی ایل ایف اپنے 27 مارچ 2014 کے بیان میں حیربیار کو ملٹی نیشنل کا کارندہ کہتا ہے پھر سلسلہ وار طریقے سے بی این ایم پھر بی ایس او کے ناموں کو استعمال کرکے اسے دہرایا جاتا ہے ، اسی طرح سلیمان داود کا قصہ بھی پرانا نہیں ڈاکٹر صاحب اپنے والد کے سپاہ گری یاد دلاتے ہیں تو کچھ دن بعد بی بی کریمہ تمپ میں جلسہ کرکے سلیمان داود کو ملامت کرتا ہے پھر بی این ایم کا بھی شوشہ آتا ہے، یو بی اے کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کیلئے جب بی ایل اے قدم اٹھاتی ہے تو موقع کو غنیمت جان کر تینوں ایک ایک کرکے بیان داغتے ہیں ، حال ہی میں رحمدل کے اغواء کا جھوٹا الزام سنگت حیربیار پر لگایا جاتا ہے تو پھر بی ایل ایف کی تائید میں بی این ایم اور بی ایس او کے بیانات بھی پیچھے پیچھے آتے ہیں۔
ان وائٹ کالر کرمنلز کے آگے شروع سے ہی بی ایل اے ایک رکاوٹ رہی ہے ، اب کیونکہ بی ایل اے بطورِ ادارہ ان باقیوں سے بہت مختلف ہے اسکی ساخت اور فیصلہ ساز ادارے اور چناؤکا طریقہ غیر معروف اور پوشیدہ ہیں اسلئے یہ گروہ کبھی بھی یہاں اثر انداز نہیں ہوسکا ، اسلئے اسے کمزور اور دولخت کرنے کی پوری کوشش کی گئی ، اس حوالے سے شکوک و شبہات شروع دن سے تھے کہ بی ایل اے کو کمزور کرنے کیلئے ڈاکٹر اللہ نظر سمیت یہ وائٹ کالر مجرموں کا گروہ ملوث ہے لیکن اب یہ بالکل واضح ہوچکا ہے ، بی ایل ایف ایک طرف سے رحمدل مری کو اپنا بانی رہنما خود اپنے بیان میں قرار دیتا ہے دوسری طرف تاریخ کے نظروں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اسی رحمدل مری نے مہران مری کو سردار بنانے کیلئے حمایتی بیان جاری کیا تھا اور یو بی اے کے بنانے میں سب سے زیادہ متحرک تھا اور رحمدل کے مری ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بی ایل ایف نے خاص طور پر مری علاقوں میں متحرک کیا ہوا تھا تاکہ اسکے وڈیرہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یو بی اے کو مضبوط اور بی ایل اے کو کمزور کیا جاسکے ، یعنی شواہد بالکل عیاں ہیں کہ ڈاکٹر اللہ نظر کے وائٹ کالر مجرموں کا گینگ ایک قومی تنظیم کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف رہا ہے اسکی کیا سزا و جزا ہے شاید قوم وقت پر فیصلہ کرے۔
اب ان تنظیموں کے نام روایتی قصے کے مطابق بھیڑ کے اس کھال کی طرح ہوگئی ہے جن میں بھیڑیا چھپ کر پہلے ریوڑ کے اندر جاتا ہے پھر شکار شروع کرتا ہے۔ حال ہی میں حسبِ روایت ایک بار پھر بی ایل ایف ، بی این ایم اور بی ایس او کے دوبارہ بیانات سامنے آئے جس میں سنگت حیربیار کو انتہائی بیہودہ الفاظ میں مخاطب کرکے رحمدل مری کے اغواء کا جھوٹا الزام ان پر لگایا گیا ، یہ پہلی بار نہیں کہ سنگت حیربیار پر اس گروہ کی طرف سے الزامات لگائے گئے ہیں بلکہ یہ مختلف صورت میں کافی وقت سے جاری تھے، اب ان الزامات کے نوعیت اور صحت پر ایک جائزہ ضروری بن جاتا ہے اور یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ الزامات لگائے کیوں جارہے ہیں۔
ان الزامات کا بلاواسطہ تعلق سوشل میڈیا سے ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جب وائٹ کالر مجرموں کے اس گروہ نے ہمارے نظام کے کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اداروں پر قبضہ کرلیا اور ان اداروں کے اندر موجود اختلافِ رائے رکھنے والوں کا صفایا کیا تھا تو انکے سامنے کوئی بھی رکاوٹ نہیں رہی تھی ، بی آر پی کے ساتھ یکساں مفادات رکھنے کی وجہ سے وہاں سے انہیں فالحال خطرات نہیں تھے کارآمد تنظیمیں کسی حد تک یہی بی ایس او ، بی این ایم تھے ان پر انہوں نے قبضہ کرلیا ، اب محض بی ایل اے ان کے سامنے تھا جسے وہ ہر فورم پر پہلے دن سے قبائلی وغیرہ کہہ کر متنازعہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے تھے اور یو بی اے کی حمایت کرنا بھی اسی متنازعہ کرنے کی ایک کڑی تھی تاکہ جب یہ انکے سامنے کھڑا ہوجائے تو اسے بی ایل ایف کے ہم پلہ قرار دیکر اسکے خدشات ٹھکرائے جائیں لیکن انہیں سوشل میڈیا یا تحریروں کا اندازہ نہیں تھا اسلئے ہر ممکن طریقے سے وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے رہے ، صرف تاریخی ریکارڈ کھول کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے یعنی اسی سوشل میڈیا پر لکھے گئے تحریروں کے بارے میں ببانگ دہل ڈاکٹر اللہ نظر سمیت یہ سارے مقبوضہ جماعتیں کہہ چکے ہیں کہ یہ آئی ایس آئی کے لوگ ہیں اور اب کمال ڈھٹائی سے اپنے سابقہ موقف کو رد کرکے کہتے ہیں کہ نہیں یہ حیربیار کے ساتھی ہیں ، اب یا تو وہ پہلے جھوٹ بول رہے تھے یا اب دونوں باتیں تب صحیح ہوسکتی ہیں جب یہ ثابت ہوجائے کہ حیربیار پاکستانی خفیہ اداروں کا بندہ ہے ، اب وہ بھی ثابت ایسے نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب پاکستانی جنرل راحیل شریف نے لندن میں سنگت حیربیار کے گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا تو ڈاکٹر اللہ نظر نے حیربیار کو آزادی پسند کہہ کر اسکے حوالگی کے مطالبے کی مذمت کی تھی ظاہر ہے کوئی جنرل اپنے کسی بندے کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کرے گا اور ڈاکٹر نظر کو آئی ایس آئی کے کسی بندے کیلئے کیسے ہمدردی ہوگی کہ وہ مذمت کرے۔ میں ایک دو مثالیں اور دیتا ہوں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ انکا موقف ہرگز قابلِ اعتبار نہیں ، یعنی اسی گینگ کے دوسرے رخ بی این ایم کے قابض چیئرمین خلیل بلوچ کا غالباً 2011 میں یہ بیان ریکارڈ پر ہے جس میں وہ چیئرمین بننے کے فوراً بعد کہتے ہیں کہ سنگت حیربیار فرد نہیں ہیں بلکہ ہم سب کا نمائندہ اور سفیر ہے اور اداروں کی نمائندگی کررہے ہیں ، پھر اسی سال یہی چیئرمین خلیل اپنے کونسل سیشن کے بیان میں یہ کہتے ہیں کہ جب سنگت حیربیار 2009 میں ان اختلافات پر بیان جاری کرتے ہیں مجھے اس وقت سے پتہ تھا کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ ہے اور تحریک کے رخ کو موڑنا چاہتے ہیں اب یہاں سوال یہ نہیں اٹھتا کہ اگر اس وقت آپکو پتہ تھا تو پھر آپ نے تقریباً اپنے پتہ ہونے کے ایک سال بعد کیوں حیربیار یعنی ایک سامراجی ایجنٹ کو اپنا عالمی سفیر قرار دیتے ہیں حتیٰ کو حیربیار مری کو بی این ایم کا چیئرمین بننے کی دعوت دیتے ہیں ، آپ انکی ذہنی صلاحیت اور دروغ گوئی کا اندازہ یہاں تک سے لگاسکتے ہیں لیکن ایک اور مثال دوں گا کہ بی ایل ایف کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم نے ہمیشہ یو بی اے اور بی ایل اے کے بیچ ثالثی کی کوشش کی ، دوسری طرف رحمدل مری یو بی اے بنانے میں سب سے زیادہ متحرک کردار ہیں ، اب اس ثالثی کے بیان کے بعد بی ایل ایف رحمدل کو اپنا بانی رہنما کہتی ہے یعنی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب بی ایل ایف ایک طرف سے ثالثی کررہی تھی تو دوسری طرف سے جوڑ توڑ میں بھی سب سے زیادہ آگے تھا یہ انکے منافقت کا کھلا ثبوت ہے۔
بات سوشل میڈیا سے شروع ہوئی تھی ان کے الزامات کا مزید جائزہ لینے سے پہلے سوشل میڈیا پر ذرا غور لازم ہے ، سوشل میڈیا ایک ہجوم کی طرح ہے ، ہر شخص اپنے مقاصد اور ذہنی استطاعت کے مطابق اسے استعمال کرتا رہتا ہے ، جس طرح سے اسے متنازعہ بنانے کیلئے ڈاکٹر اللہ نظر سمیت وائٹ کالر مجرموں کے بھیجے گئے لوگ جو شب و روز گالیاں اور الزامات کی بارش کیئے ہوئے ہیں ان کے علاوہ دیکھا جائے تو یہاں ایک بے ہنگم پن ضرور دِکھائی دیگا جو کسی بھی پبلک فورم چاہے وہ جلسہ ہو ، جلوس یا بڑی مجلس کا خاصہ ہوتی ہے ، ہجوم اور بے ہنگم پن ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے ، یہی باتیں کسی جلسے میں بھی کہی جاتیں تو کوئی شاباش کرتا تو کوئی گالی دیتا کوئی کچھ کرتا لیکن یہاں ردعمل کو دیکھنے کے بجائے ہمیں اپنے کام کی چیز یعنی موقف اور باتوں پر توجہ دینی چاہئے ، دوستوں کی طرف سے ان تین سالوں کے دوران بہت سے دلائل ، تاریخی واقعات ، حقائق اور موقف قلمبند ہوئے ، میں اگر صرف اس ہجوم سے سنجیدہ اور مدلل مضامین کو جمع کروں تو ان مضامین کی تعداد کم از کم 300 سے 400 کے بیچ میں ہوگی ، میں نے جب ان مضامین کو کتابی شکل دینے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا ان مضامین کی تعداد اتنی ہے کہ انکو ملاکر 200 صفحات پر مشتمل چار ضخیم کتابیں شائع کی جاسکتی ہیں ، اور یہاں بھی میں ان آرٹیکلوں کی بات کررہا ہوں جنہیں لکھنے والے گمنام نہیں بلکہ استاد اسلم بلوچ ، شبیر بلوچ ، حسن جانان بلوچ ، بشیر زیب بلوچ ، ایڈوکیٹ صادق رئیسانی جیسے جانے پہچانے لوگ ہیں یا وہ قلمی نام ہیں جن کی پوری ذمہ داری اٹھائی جاتی ہے اور یہ تحریریں بھی ہوائی نہیں بلکہ یہ دوست اپنے سارے باتوں کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں اور سارے الزامات کو ثابت کرنے پر بھی راضی ہیں یعنی تحریک کے مسائل کو لیکر چار ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں جن کی نوعیت سیاسی ہے ، جن میں کوئی گالم گلوچ نہیں اور ان میں کہے گئے ہر لفظ کی ذمہ داری اٹھائی جاتی ہے میرے خیال میں اگر ہمارے معاشرے اور سیاسی شعور کو مدنظر رکھا جائے تو اس سے زیادہ سیاسی اور علمی عمل اور کچھ نہیں ہوسکتا اب بس ایک بار غیر جانبداری سے غور کیا جائے کہ اس کے جواب میں کیا ملا ؟ میں سامنے کی طرف سے آئے سارے گالیوں اور الزامات کو نظر انداز کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن کیا وہاں سے ایک بھی سنجیدہ مضمون کبھی دیکھنے یا پڑھنے کو ملی ہے ؟ ایک بھی ؟۔
اس بات کی وجوہات جاننا کے وہ کوئی جواب کیوں نہیں دیتے مشکل نہیں ، صاف طور پر دِکھتا ہے کہ وہ کوئی جواب دے نہیں سکتے بلکہ انکے پاس کوئی جواب ہے ہی نہیں ورنہ اتنے سارے حربوں ، روز کے بیانوں صبح شام گالیوں جیسے حربے وہ خاموش کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں تو وہ ضرور کوشش کرتے کہ مضامین کی شکل میں جواب دیں لیکن ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ سفید پوش مجرمان وہ ڈھال استعمال کررہے ہیں جس کے پیچھے وہ چھپ کر ایک طرف ظاہر ہونے سے بچتے ہیں تو دوسری طرف اسے استعمال کرکے وہ کاوئنٹر اٹیک کرنا چاہتے ہیں یعنی انہی یرغمال تنظیموں کے ناموں کا استعمال ، ایک تو یہ دلیل خود ہی ان کے الزامات کو رد کرنے کیلئے کافی ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر آنے والے تحریروں سے پہلے یہ الزمات کیوں نہیں لگائے تھے ؟ حتیٰ کے آج سے ڈیڑھ سال پہلے ڈاکٹر اللہ نظر اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ زمین پر ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج وہ جو بھی الزامات لگارہے ہیں وہ محض تنظیموں کا نام استعمال کرکے اپنے کردہ گناہوں پر پردہ ڈالنا اور ان پر اٹھنے والے سوالات کو کاونٹر کرنا مقصود ہے ، قطع نظر اسکے ذرا ان لگائے گئے الزمات کے صحت پر بھی غور ضروری ہے کہ وہ حقائق سے کتنے قریب ہیں۔
بی ایل ایف ، بی این ایم اور بی ایس او کے نام سے یہ گروہ خاص طور پر سنگت حیربیار پر الزمات لگارہی ہے ، ان الزامات میں ایک قابلِ ذکر الزام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ ہونے کا ہے اور دوسرا آج کل رحمدل مری کے اغواء کا ہے ، جہاں تک بات ہے ملٹی نیشنل کمپنی کے ایجنٹ بننے کا تو ذرا غور کریں کہ کیا اس الزام کو ثابت کرنے کیلئے آج تک ڈیڑھ درجن بیانات لگانے کے باوجود وہ ایک بھی ثبوت پیش کرنے میں قابِل ہوئے ہیں؟ چلو انکے ثبوت کو چھوڑیں صرف حقیقت پسندی سے غور کریں کہ سنگت حیربیار کے فکر و عمل سے کہاں ثابت ہوتی ہے کہ وہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ایجنٹ ہے ، کیا بی ایل اے کہیں کسی ملٹی نیشنل کمپنی کو سیکورٹی دے رہی ہے ؟ چلو اور کچھ نہیں صرف یہ بتائیں کے کس ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ کہاں اور کیا معاہدہ ہوا صرف تفصیلات بتادیں ثبوت و گواہ دور کی بات ہے ؟ بالکل نہیں ان الزامات کا حقائق سے دور دور تک کا تعلق نہیں انکا مقصد محض پیچیدگیاں پیدا کرنا ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی سسٹم یا نظام کے اندر ان وائیٹ کالر مجرموں کے کردار پر غور کریں تو وہ ہمیشہ نظام کے پیچیدگیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اسلئے وہ ہمیشہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرنے کی جتن کرتے رہتے ہیں۔ صرف اتنا سوچا جائے کہ آج سنگت حیربیار کے پاس کیا پاکستان کے آرمی سے زیادہ طاقت ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستانی آرمی کو چھوڑ کر اس حیربیار سے معاہدے کریں گے جسے پاکستانی آرمی اپنا دشمن سمجھتا ہے ، پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی آرمی پیسے کیلئے اپنی ماں تک بیچ سکتی ہے تو وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں انکو چھوڑ کر اس سے کئی گنا زیادہ کمزور مسلح تنظیم کے ساتھ کیوں معاہدہ کرے گی؟۔ مطلب آپ جتنا غور کرتے جائیں اس الزام پر آپ کو محض یہ تصوراتی اور خلائی باتیں ہی لگیں گی اسی طرح رحمدل مری کے حوالے سے بی ایل ایف اور باقی دونوں مقبوضہ جماعتوں نے بیانات شروع کردیئے ، کیا وہ ایک ثبوت بھی پیش کرسکیں ہیں کہ رحمدل مری کو سنگت حیربیار نے اغواء کیا ہے ؟ میں نے اپنے گذشتہ آرٹیکل میں صاف الفاظ میں اغواء کاروں کی نشاندہی کی تھی کہ اغواء کے سارے تانے بانے چنگیز مری اور جلال ٹھینگیانی سے ملتے ہیں۔ یہ بیانات جاری کرنے سے پہلے اختر ندیم نے باقاعدہ طور پر بی ایل اے کی قیادت سے رابطہ کیا تھا جہاں
انہیں رسمی طور پر بالکل واضح الفاظ میں کہا گیا کہ رحمدل مری کے اغواء میں بی ایل اے کا کوئی ہاتھ نہیں اگر آپ کے پاس ثبوت ہے تو پیش کریں جہاں وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے تھے محض کبھی کوئی نام لیکر اس پر الزام لگاتے کبھی کسی اور کا نام چلو اگر کوئی نام لیا بھی گیا ہے تو کوئی نام لینا بھی کافی نہیں نام لینا تو کسی بھی قانون میں محض الزام ہی کہلایا جاتا ہے کیا جن کے نام لیئے گئے ان پر ثابت کیا گیا ؟ حالانکہ یہ خود کہتے ہیں کہ اٹھانے والے نقاب پوش تھے یعنی پہلے انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ واقعی جن پر وہ الزام لگارہے ہیں اغواء انہوں نے ہی کیا تھا اور پھر انہیں یہ ثابت کرنا ہے ثبوت کے ساتھ کہ ان لوگوں کا تعلق حیربیار یا بی ایل اے سے ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ، انہوں ایک ہی سرسری کال میں الزام لگایا اور اس الزام کے بابت کوئی ثبوت پیش نا کرسکے پھر اگلے ہی دن انہوں نے بیان دے دیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب آپ رابطہ کرتے ہیں تو آپ کو کہا جاتا ہے کہ بی ایل اے کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور آپ تعلق کو ثابت کرنے کیلئے کچھ بھی پیش نہیں کرسکتے پھر کس جواز کے تحت میڈیا میں آکر آپ یہ الزامات لگاتے ہیں۔ درحقیقت رابطہ کرنا محض ایک بہانہ تھا وہ خانہ پری کرکے محض ایک اور الزام لگانا چاہتے تھے تاکہ ایک نیا محاذ کھول کر لوگوں کی توجہ ان الزامات پر لگائی جائے جن کے بابت وہ جوابدہ ہیں۔ یعنی مندرجہ بالا دونوں بڑے الزامات کا ذمینی حقائق سے کوء تعلق نہیں اور نا ہی یہ کبھی ثابت ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ہم دیکھیں کہ ان تین سالوں میں ان پر کیا الزامات لگائے گئے ہیں ، پہلی یہ کہ ڈاکٹر اللہ نظر نے پہلے بی ایل ایف پھر سیاسی اداروں بی این ایم و بی ایس او پر قبضہ کیا اور اپنے مفادات کے تحت استعمال کررہے ہیں ، اس الزام کے بابت زمینی حقائق کو دیکھیں کیا یہ غلط ہیں ؟ انکے تعلق اور ڈاکٹر اللہ نظر کے احکام کی بجاآوری اور سیاسی مخالفوں کے صفائے کی روش کو تو آج ہر ایک بلوچ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ، اسی طرح ان پر منشیات کے کاروبار کا الزام ہے آج مکران کے کسی بھی غیر جانبدار بلوچ سے پوچھیں بلکہ خود جاکر دیکھیں یہ منشیات کا کاروبار ڈھکا چھپا بھی نہیں بالکل دن کی روشنی میں نظر آتا ہے ، اسی طرح بیگناہوں کے قتل کے الزام کو دیکھیں کیا روز کوئی نا کوئی فریاد کرکے انکے خلاف پریس کانفرنس کرکے ثبوت نہیں مانگ رہا ہے ؟ کیا انہوں نے آج تک کسی کو کوئی بھی ثبوت مہیا کیا ہے ؟ بالکل نہیں ، خیر انکو چھوڑیں یہ منشیات فروشی کے نام پر کتنوں کو مار چکے ہیں کیا دنیا کا کوئی بھی قانون ایسے شخص کو سزا دینے کی اجازت دیتا ہے جو خود اسی جرم میں ملوث ہو ؟ کیا ایک منشیات فروش دوسرے منشیات فروش کو منشیات فروشی کے الزام میں مار سکتا ہے جبکہ وہ خود منشیات فروشی میں ملوث ہو ؟ کیا یہ گروہیت میں ملوث نہیں؟ ، آج سے چار سال پہلے بی این ایم اور بی ایس او جس حالت میں بھی تھے کم از کم پورے بلوچستان میں تھے کیا آج وہ بی ایل ایف کے زیر کنٹرول علاقوں سے باہر کہیں نظر آتے ہیں ؟ کیا واقعی میں تحریک کا رخ نہیں موڑا جارہا؟ ، بی ایس او ایک انقلابی تنظیم سے انسانی حقوق کی تنظیم نہیں بن گئی ہے ؟ پچھلے دنوں بی ایس او آزاد نے کراچی میں ایک ریلی نکالی اور اس ریلی میں بی ایس او آزاد کے اسٹیج پر خرم اور نور مریم نامی پنجابیوں نے آکر تقریریں کی ، کیا ہم میں سے کوئی بھی چار سال پہلے یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ وہ بی ایس او آزاد جو ہر جگہ پنجابی آبادکاروں کے قتل کا دفاع کرتا تھا اسکے اسٹیج پر پنجابی آکر تقریر کریں گے ؟ تحریک کا رخ ایک دم سے نہیں موڑا جاتا اسی طرح آہستہ آہستہ موڑا جاتا ہے اور یہ صاف طور پر دِکھائی دے رہا ہے ، کیا یہ پنجابیوں کا بی ایس او پر اسٹیج پر تقریریں ، بی ایل ایف کا بیگناہ بلوچوں کی طرف بندوق کا رخ کرنا ، منشیات کو تحریک کے وسائل کا بنیاد بنانا تحریک کا رخ موڑنا نہیں ؟ اگر بی ایل ایف پر کہیں اپنے اندر قمبر
قاضی اور کچکول بہار جیسے لوگوں کو سازش کے تحت شہید کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے تو یہ کوئی تصوراتی یا خلائی بات نہیں ہے آپ زمین پر جاکر دیکھیں تو آپ کو بیٹے کے غم میں نڈھال مبارک قاضی بھی یہی الزامات لگاتے ہوئے نظر آئیگا۔ یہ جتنی باتیں ہیں یہ نا کسی خفیہ و پوشیدہ آنکھوں سے اوجھل اساطیری ملٹی نیشنل کمپنی کے بابت ہیں اور نا ہی یہ نامعلوم افراد کا رحمدل مری کو نامعلوم مقام سے اغواء کرکے ، نامعلوم مقام پر منتقل کرنے جیسی الزامات ہیں یہ وہ باتیں ہیں جنہیں ہم روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، جن کے اثرات ہم محسوس کرتے ہیں ، ہر آنے جانے والے سے ان کے بارے میں سنتے ہیں ، سب زمین پر ہورہی ہیں ، سب ثابت ہیں پھر بھی انہیں ثابت کرنے کیلئے ، سدھارنے کیلئے چار ضخیم کتابوں کے برابر لکھا گیا ہے لیکن سامنے سے کیا ہورہا ہے؟ کیا پھر بھی اب کوئی آسمان سے خلائی مخلوق آکر ہمیں سمجھائے کہ کون تحریک کا ستیاناس کرنے کے درپے ہے ؟ یا اب بھی ہمیں چند سال اور انتظار کرنا ہے تاکہ پھر ہم رو پِیٹ سکیں کہ ہم بروقت کیوں نہیں بولے ؟۔
ابتک یہ وائٹ کالر مجرمان خود کو چھپائے رکھنے کیلئے جو الزامات لگارہے ہیں ان میں سے نا کوئی ثابت ہے اور نا کسی کے ثابت ہونے کا کوئی امکان ہے کیونکہ یہ انہی مجرمانہ ذہنوں کے مجرمانہ تخلیق ہیں لیکن یہ اس سے بھی شاید آگے جائیں اور سنگین الزامات لگائیں کیونکہ انکے بقاء کو خطرہ ہے انکو ڈر ہے کہ یہ ظاہر نا ہوجائیں ، جب تک ہم اپنے نظام کے اندر چھپے ایسے وائٹ کالر مجرمان کو ظاہر نہیں کریں گے ہمارے نظام کی خرابیاں دور نہیں ہوسکیں گی اور جب تک ہم نظام کی خرابیاں دور نہیں کرسکیں گے ایسے اور مجرمان اندر چہرے بدل بدل کر گھستے رہیں گے اور نظام شفاف نہیں ہوگا اور جب تک نظام شفاف نہیں بن جاتا ہم تب تک نہیں جیت سکیں گے۔

Exit mobile version