کچھ عرصے قبل کی بات ہے میری ملاقات وڈیرہ ستار بگٹی اور اس کے کچھ ذمہ دار دوستوں سے ہوا ، کچھ وقت انکے ساتھ قیام کے دوران عجیب منظر دیکھنے کو مل رہے تھے ، ایک جگہ بیٹھتا تو وہ قبائلی بنیاد پر دوسرے کی برائیوں میں مصروف ہوتے اور دوسری جگہ جاتے تو وہ پہلے کی کھنچائی کرتا ، اس صورتحال کو دیکھنے کے بعد میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ ایک تنظیم کیلئے بالکل نیک شگون چیز نہیں ہے اگر آپ لوگ تنظیمی معاملات کو اسی طرح قبائلیت کی چھاپ لیئے چلاتے رہو گے ، خود کو تعمیر نہیں کرو گے تو تم لوگوں کیلئے آگے زیادہ دیر چلنا بہت مشکل ہوجائیگا اور تم لوگ تتر بتر ہوجاؤ گے ، خیر اس وقت بی آر اے کے دوستوں کے ساتھ اس پر کافی بحث ہوئی لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل سکا لیکن آج اس واقعے کے دو سال گذرنے کے بعد وہ خدشات بی آر اے کا شیرازہ بکھرنے کی صورت میں سچ ثابت ہورہی ہیں۔ ہم تحریک کا حصہ تو ضرور بنے لیکن اپنے تعمیر و تشکیل کے بجائے ہمیشہ فرسودہ روایات سے جڑے رہے اور آج اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ براہمدغ بگٹی کے انٹرویو کے بعد بہت سی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ وہ آزادی سے دستبردار ہورہے ہیں اور خدانخواستہ اسکے چلے جانے سے تحریک آزادی ختم ہوجائے گا۔یہ خیال سراسر غلط ہے اور محض لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے ، جب یہ تحریک شروع ہوا تو روایتی انقلابی جذبات اور ایڈوینچرازم کے اثرات کی وجہ سے بہت سے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے ، انکا تحریک سے ایک رومانوی لگاؤو جڑت تھا اور ہر عمل کو ایک رومانوی نظر سے دیکھتے رہے اور ایک آسان سے آزادی کا انتظار کرتے رہے لیکن جیسے جیسے تحریک آزادی اپنے کٹھن راستے پر رواں ہوتا گیا اور سختیاں و مصائب بڑھنے لگے تو ہمارا وہ رومانس ٹوٹ گیا اور تلخ و سخت حقیقت سے ہم آگاہ ہونے لگے ، اس رومانس کے ٹوٹنے کے بعد بہت سے حقیقتِ حال سے گھبرا کر مایوس ہوتے گئے ، کنارہ کش ہوتے گئے اور اب تک ہوتے جارہے ہیں، ہمیں ایسے کنارہ کشیوں سے ہر گز گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ یہ اس تحریک کے پختگی کی ایک علامت ہے کہ اب تحریک اس رومانس سے نکل کر حقیقت پسندی اور ریشنلزم کے رستے پر رواں ہورہا ہے ، یہاں سختیاں بہت ہونگی اور بہت سے کمزور اعصاب والے اشخاص ٹوٹتے بھی نظر آئیں گے ، لیکن یقین کریں اگر تحریک کے مستقبل کو ملحوظِ خاطر رکھ کر دیکھیں تو یہ ایک اچھا ہی عمل ثابت ہوگا ، کیونکہ اس تحریک کو ایک لمبے عرصے تک زندہ رکھنے اور جیتنے کیلئے ہمیں ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو اس تحریک کو رومانوی نظر سے نہیں بلکہ حقیقی حساب سے سمجھتے ہیں اور ان سارے مسائل و مصائب کو سمجھنے کے باوجود اسکے ساتھ ہیں ، معاملات کو حقیقت پسندی کے نگاہ سے دیکھتے ہوئے فیصلے لیتے ہیں اور اس تحریک کی کامیابی کیلئے ایسے لوگوں کی ہی ضرورت ہے ، اب ایک طرف کمزور اعصاب والے افراد ایک ایک کرکے تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہے ہیں لیکن دوسری طرف جو بچ رہے ہیں وہ وہی پختگی ہے جسکی ہمیں اور اس تحریک کو ضرورت ہے اور یاد رہے تحریکوں کا کامیاب بھِیڑ نہیں بلکہ یہی پختگی اور حقیقت پسندی ہی کرتی ہے۔ جہاں تک براہمدغ کی بات ہے وہ اس تحریک کا حصہ تو ضرور بنے لیکن اس نے خود کو اپنے نوابی اور قبائلی سوچ سے کبھی آزاد نہیں کیا ،میں اسکے نوابانہ طرز فکر پر ایک دو مثالیں دینا چاہوں گا کہ جب بی آر اے نے کھڈکوچہ میں شہید سنگت ثناء کے خاندان کو بلا قصور اغواء کیا تو ہم نے خاص طور پر اس سے اپیل کی کہ ان بیگناہوں کو چھوڑا جائے اور بہت کوشش کی کہ وہ کسی طور بات مان لے لیکن وہ اپنے نوابی کے زعم میں ایسے مبتلا رہے کہ کسی کی بات و لاج نہیں رکھی اور بالآخر ان بلوچوں سے تاوان کی خطیر رقم لیکر ہی انہیں آزاد کیا ، اسی طرح مجھے یاد ہے کہ جب یو بی اے نے مستونگ میں معصوم افغانوں کا قتل عام کیا تھا تو میں نے ایک سیاسی کارکن کے حیثیت سے سماجی ویب سائٹ پر براہمدغ سے سوال کیا تھا کہ وہ اپنا موقف اس مسئلے پر واضح کرے لیکن بجائے جواب دینے کے اس نے مجھے بلاک کردیا۔ اتنے سال گذرنے کے باوجود وہ اب تک خود کو ایک سیاسی لیڈر کجا ایک سیاسی کارکن تک خیال نہیں کرتے بلکہ اب تک نواب ہی ہیں ، ورنہ ایک سیاسی لیڈر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سنے انہیں جواب دے انہیں مطمئن کرے، لیکن براہمدغ کا طرز فکر ہمیشہ ایک نواب کا سا ہی رہا ہے کہ وہ جو کچھ کہے یا کرے وہی حرفِ آخر اور اس پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا ، ان باتوں کا ذکر اسلئے کررہا ہوں تاکہ پتہ چلے کہ اگر آج براہمدغ اپنے آزادی کے موقف سے پسپا ہورہے ہیں یا مذاکرات پر تیار ہیں یہ کوئی حادثہ یا چونکہ دینے والی چیز نہیں بلکہ یہ شروع سے جاری انکے طرز عمل کا حاصل ہے اور جس ڈگر پر وہ چل رہے تھے اسکا منطقی انجام یہی ہونا تھا۔ آج نا صرف براہمدغ بگٹی کی قبائلی و روایتی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اسی طرح بی ایل ایف بھی ایک روایتی گروہ پرست و انفرادی پہچان کے طرز عمل پر عمل پیرا ہے جس کا انجام بھی براہمدغ سے مختلف نہیں ہوگا ، اگر ہمیں واقعی اس تحریک سے دلچسپی ہے تو ہمیں اب خود کو فرسودہ سیاسی روایات ، گروہ پرستی اور انفرادیت سے پاک کرتے ہوئے ، رومانوی سوچ سے نکل کر جدید اور حقیقت پسندانہ طریقوں سے اپنی تعمیر و تشکیل کرنی ہوگی، لیکن آج ہمیں حیربیار مری کے سوا کوئی بھی خود کو بدلنے پر راضی نظر نہیں آتا ، میں نہیں کہتا کہ حیربیار و اسکے دوست مکمل پاک صاف اور پارسا ہیں بلکہ کچھ مسائل ضرور وہاں بھی وجود رکھتے ہیں،لیکن ایک چیز سنگت حیربیار کو ان باقی سب سے مختلف کرتا ہے وہ یہ کہ وہ ایک نواب نہیں بلکہ حقیقی سیاسی کارکن ہیں ، وہ دوسروں کو سنتے ہیں اور ہمیشہ بدلنے اور بہتری لانے کیلئے تیار رہتے ہیں ، اس حوالے سے اسکے تاریخی بیانات ریکارڈ میں موجود ہیں وہ نا صرف خود کو وقت کے ساتھ جدت کی طرف لیجارہے تھے بلکہ وہ قوم کو بھی اس صورتحال سے آگاہ کرتے رہے اور باقی تنظیموں اور سربراہوں کے بارے میں بھی کوشش کرتے رہے کہ وہ اس فرسودہ سیاسی سوچ سے نکل کر صرف حقیقی قومی سوچ کو اپنائیں لیکن ہمیشہ باقی تنظیموں کی طرف سے مایوسی ہی ملی۔ آج حیربیار جس سوچ کو لیکر کھڑا ہے وہ بھی واضح ہے اور اسکے نتائج دِکھ رہے ہیں اور باقی ماندہ لیڈران و تنظیمیں جس سوچ کے سائبان میں کھڑے ہیں وہ بھی اپنے منفی نتائج کے ساتھ عیاں ہیں اب وقت کی ضرورت یہ ہے پوری قوم اور خاص طور پر سیاسی کارکنان اس حقیقی قومی سوچ کو مضبوط کریں جو حیربیار مری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔