دوشنبه, اکتوبر 14, 2024
Homeآرٹیکلزوہ لاپتہ ہے ان کا فکر لاپتہ نہیں ہے : تحریر سنگت...

وہ لاپتہ ہے ان کا فکر لاپتہ نہیں ہے : تحریر سنگت شاہ وش بلوچ

ہمگام کالم : بلوچستان سے ہزاروں بلوچ نوجوان غائب ہے یہ ایک دیو مالائی کہانی یا افسانہ نہیں ہے یہ ایک زندہ حقیقت ہے جبری طور پر گم کئے جانے والے افراد باشعور زمہ دار سنجیدہ سیاسی اور نظریاتی لوگ ہیں ان کا تعلق بد قسمتی سے اس سیاست یا اس جدوجہد سے ہے جس کے مقدر میں تکلیف اور اذیت کا ہونا کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں قوموں کے جدوجہد اس طرح کے قربانیوں سے بھری پڑی ہے تکلیف دکھ اور اذیتیوں کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا یہ ہمارے لئے نہ تو کوئی نیا تجربہ ہے نہ ہی یہ پہلا ہوگا اور نہ ہی آخری اس طرح کے امتحانات اور آزمائشیں اور بھی آتے رہینگے لیکن ان کا مقابلہ سازشی مفاہمت تذبذب یا خوف کے ساتھ بلکل بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مصلحت یاپیچھے ہٹنے کی صورت میں یہ اذیتیں ختم ہوجائیں گے ازیتیوں کا احساس تو ہم جیل سے یا گمشدگیوں سے ہٹ کر بھی کرسکتے ہیں ہم حراستی تکلیفوں سے ہٹ کر بھی غلامی کی کرب جھیل رہے ہیں غلامی سے زیادہ کوئی زلت اور تکلیف شاید ہی کوئی اور شے ہو ! آزادی کے لئے اس پل صراط کو عبور کرنا ہمارے ہی حصہ میں آنا ناگزیر تھا۔ ہر سرگرم باشعور انسان جس کو اپنے قوم کے مستقبل آزادی اور شناخت کا احساس ہے وہ بے چین ہوگا اس کی بے چینی اس وقت ختم ہوسکتی ہے جب وہ اپنی وطن کو آزاد کرے گا پیچھے ہٹنا مطالبات کو کمزور بنانا جرائت میں کمزوری لانا پارلیمانی فریبوں میں آنا یا نیم پسپائی اختیار کرنا یہ حکمت عملی نہیں بزدلی ہوگی ہم براہ راست یا بلواسطہ ان لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کررہے ہونگے جو ہمارے درمیان نہیں ہے جنہیں ہمارے بیچ سے اٹھاکر غائب کیا جائیگا یا جو شہید کئے گئے ان کے سوچ ان کے نظریات ان کے حوصلہ اور ان کے تناظرات کا اس صورت میں ہم منصف نہیں رہ سکتے وہ لوگ جو اٹھائے گئے ہیں وہ نظریاتی تھے ان کا ایک کمٹمنٹ ہے وہ باشعور تھے وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے ان کے سامنے دنیا کے ڈھیر سارے تحریکوں کے تجربات تھے مثالیں تھیں وہ ذہنی طور پر آگاہ تھے سر پند تھے کہ اگر وہ بلوچ قوم کی آزادی کی بات نہیں کریں گے تو طاقتور کا یہ خوف طاقتور کے یہ ہتکھنڈے بلوچ قومی غلامی کے عمر کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگی ان کی خاموشی اور لاتعلقی سے اس قوم کے عذاب میں اضافہ ہوگاان کی بھی زندگیاں تھیں ان کی تمنائیں تھیں ان کے بھی خاندان تھیں ان کے بھی رشتہ تھیں وہ بھی ایک لگژری لائف زندگی گزار سکتے تھے ان پر بھی خاندان کی زمہ دار یا ں تھیں وہ چاہتے تو ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ اس عمل سے ان کی زاتی زندگی میں کچھ آرام سکون یا معاشی خوشحالی تو آسکتی تھی لیکن پوری قوم کے دکھ درد کا ازالہ ناممکن تھا قوم تکلیف میں رہتی زبوں حالی میں رہتی اور وہ غلام رہتے اگر وہ سمجھوتہ کرتے تو سمجھوتہ کی اس صورت میں پوری قوم غلامی کے اس خودکشی کے عمل سے صدیوں گزر جانے کا عمل جاری رہتا جس طرح غلامی کا تسلسل تھا یہ تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے اور تیزی کے ساتھ جاری رہتا نہ تاریخ رہتا نہ پہچان نہ شناخت بس ہمارا جنم تاریخ میں ایک اور ریڈ انڈین کی طرح ہوتاوہ جانتے تھے کہ
جتنی زیادہ سکوت ہوگی غلامی اسی شدت کے ساتھ ابھرے گی ۔ ایک ایسا وقت آئیگا کہ لوگ غلامی اور آزادی میں فرق کو ہی نہ پہچانیں گے۔ وہ غلامی میں اس طرح سے فخر محسوس کرینگے کہ وہ آزاد ہے ان کی تاریخ کا نام و نشان نہ ہووہ طاقتور کے مسلط کردہ تاریخ اور شناخت کو اپنی شناخت سمجھیں یہی ایک فکر
جن کے شعورمیں ایک ابھار پیدا کی آج وہ گم ہے لیکن ان کا سوچ گم نہیں ہے ان کا نظریہ گم نہیں یہ بیداری یہ آگائی یہ حاصلات کیا ان کی
انتھک قربانیوں کاثمر نہیں ہے کہ آج بلوچ سماج سے ہر خاندان کسی نہ کسی طرح تحریک کا حصہ ہے ہماری مائیں ،بہنیں بیٹیاں زندگی اور سماج کے ہر رشتہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ٹھٹرتے سردی اور یخ بستگی میں مائوں اور بیٹیوں اور بچیوں کا احتجاج کیا ایک فتح مند ابھار نہیں ہے ؟ سماج کے ہر ایک اکائی اس راستے سے آشنا ہے یہ لمحات تکلیف دہ بھی ہے اور ازیت ناک بھی لیکن یہ غیر معمولی حالات ہے بلوچ سماج تو اپنے روٹین پر چل رہاتھا پالیمانی پارٹیوں اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر تھیسز دینے والے کل بھی تھے اور آج بھی ان کا جوش خطابت دیدنی ہے لیکن بلوچ سماج میں ان کی تقریروں سے کوئی طوفان یا بھونچال کیوں نہیں آیا ؟ ان کے سیاست نے معمولی لمحات کوکیوں غیر معمولی لمحات میں تبدیل نہیں کرسکے؟ اصل میں وہ غلامی پر بیعت کرچکے ہیں ۔وہ بلوچ قوم کے پیشانیوں سے داغ غلامی مٹانے کے بجائے غلامی کے اس نشان کودائرہ لگاکر مضبوط کررہے تھے تحریک اور جدوجہد کے نام پر عوام کو صرف ووٹ کارڈ کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن اس کے برعکس انہی چند نوجوانوں اور نظریاتی کیڈروں نے حالات کا رخ تبدیل کیا ان کی ناقابل تسخیر ردعمل اور سخت گیر جدوجہدنے بلوچ سماج کو ایک مرکز اور سمت دی ان کی عبوری کوششیں آج فیصلہ کن عہد کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں آج ایک مرکز کی حیثیت سے بلوچ قوم کا کردار بڑھ گیا ہے جب کہ الیکشن سیاست کے دلداہ نام نہاد قوم پرستوں نے قوم اور سماج کو سیاسی زہنی اور تاریخ طور پر تقسیم کرچکے تھے ان کا مقصد ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ تھی ۔ انہوں نے بلوچ جدوجہد کا مورال گرایا تھا انہوں نے قوم کو ایک مرکز اور جتھے میں جمع کرنے کے بجائے علاقوں اور ڈویژنوں میں تقسیم کرچکے تھے۔ آج ان کی جانب سے جبری طور پر گمشدہ بلوچ فرزندوں کے لے احتجاج کا راستہ اختیار کرنے والے ماں بہنوں سے اپیل کیا جاتا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھے رہے کیا بلوچ عورت کا کردار صرف گھر تک محدود کیا جائے؟ ان سے احتجاج کا حق چھین لیا جائے؟ کیا وہ بلوچ سیاست کا حصہ نہیں بن سکتے؟ کیا اسے آج بھی گھریلو عورت کے روپ میں دکھنا ضروری ہے؟ بلوچ جدوجہد نے ان کی زمہ داریاں بڑھادی ہے یہ ایک خام دلیل ہوگی کہ بلوچ عوام اس تاریخی عمل سے دور رہیں حالات اور جدوجہد آج ہر ایک اکائی کو دوسرے اکائی سے جوڑ رہی ہے کیا یہ تاریخی کامیابی نہیں آج ان کی طاقت اور احتجاجی عمل سے ریاست خوف زدہ ہے ان کی طاقت کے مظاہرہ نے ریاست کے لئے پریشانی اور بے گمانی پیدا کی ہے ان کی احتجاج اور دھرنوں کو روکنے کے لئے مذاکرات کئے جانے تک ریاست پہل کررہی ہے ہزاروں سے چند ایک کو بازیاب کرنے اور دکھانے سے کیا ہمیں مطمئن کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہماری احتجاج آنسو چیخ اور کرب کا جواب یہی ہوگا لیکن کیا ہماری جوابی ردعمل ہزاروں گمشدہ افراد کی بازیابی کی موقف میں ترمیم لفظ مرحلہ وار کا استعمال اور ایک سو ایک لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ اور احتجاج کو معطل کرنے کا عمل وہ بھی اقوام متحدہ کی صدرکے دورہ کے عین موقع پر کیا یہ درست موقف ہوگی؟ یا ان بیٹیوں بہنوں کو جنہوں نے اپنے سماجی بندھنوں اور اپنے خونی رشتوں سے بے پرواہ ہوکر مسلسل احتجاجی عمل میں شریک رہے ہیں یا جو اپنے گھر خاندان اور رشتہ داروں سے الگ ہوکر جدوجہد کا راستہ چنا ہے انہیں گھر بیٹھنے کی آراہ دینا یا انہیں واپس گھروں میں چلے جانے کے لئے دبائو ڈالنا کیا یہ ان کی قربانیوں کا صلہ ہے کیا وائس فار مسنگ پرسنز کی تنظیم چند اجارہ داروں کے ہاتھ میں نہیں ہے کیا وہ اسے اپنے پراپرٹی سمجھ چکے ہیں ؟کیا لاپتہ افرد کا مسئلہ صرف علاقائی ہے ؟ میرے خیال میں یہ علاقائی سے زیادہ بین الاقوامی ہے ۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کاحل اس ریاست سے زیادہ اقوام متحدہ کے پاس ہے یہ خالص انسانی مسئلہ ہے یہ کسی مخصوص تنظیم کا ایجنڈا نہیں ہے اگرچہ
شدید عوامی دبائو کے بعد مسنگ پرسنز کے نمائندہ تنظیم نے ایک دفعہ پھر کیمپ جاری رکھنے کی اعلان کیا ہے لیکن ایک مستقل طریقہ کار پالیسی ، لائحہ عمل اور ٹھوس حکمت عملی یا پروگرام کی تشنگی ابھی باقی ہے دوسری جانب مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لئے احتجاج کرنے والے خواتین جو مسلسل احتجاجی عمل کا حصہ ہے تنظیم کی جانب سے انہیں گھر بیٹھنے کے لئے دبائو ڈالا جارہاہے ہم نہیں چاہتے اور نہ ہماری نیت یا ارادہ ہے کہ ہم بار بار ایک دوسرے کے خلاف صف آراہ ہو اور سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جو بہن اس جدوجہد میں شریک ہے اور تسلسل کے ساتھ اس احتجاجی عمل کا حصہ ہے انہیں تنظیم اور جدوجہد کا حصہ سمجھنا چاہیے ان کی آراہ اور مشورہ صلاح اور رائے کو اہمیت دینا چاہیے ان کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے اور انہیں دیوار سے لگانے کی نیت غلط حکمت عملی ہوگی یا ان سے کہنا کہ وہ تنظیم کا ممبر نہیں ہے یا تنظیم کا حصہ نہیں ہے یہ درجہ بندی اور فرق کیوں کئی سالوں سے وہ بہن اور بیٹیاں جو اس تحریک کا اہم بازو رہے ہیں آج ان سے یہ کہنا کہ کیمپ میں بیٹھنے کے بجائے وہ گھر جائے کیا ان کا جمہوری حق نہیں بنتاکہ وہ غلط فیصلوں پر سوال اٹھائے ؟غلط پالیسیوں پر اپنی آراہ دیں یہ رویہ بلوچ رضاکار کارکنوں کے کردار سے بلکل متصادم ہے ایسے رویوں سے پرہیز کرنا چاہئے بلوچ قوم کے ہر سیاسی باسک کو انتہائی اہم اور تکلیف دہ تجربات کا سامنا ہے ایسے میں مایوسی اور بددلی پیدا کرنے کے لئے سازگار ماحول بنا نا درست قدم نہیں ہے ہم ایک دوسرے کا تسلسل ہے یہاں کوئی ریس یا کریڈٹ کی بات نہیں ہے ہم کسی دوڑ یا مقابلہ میں شریک نہیں ہے یہ جدوجہد ہے یہ کوئی کھیل نہیں ہے یہاں احتیاط، صبر، مہر، تنقید ،سوال اختلاف رائے ، مشاورت مباحثہ اور جدوجہد ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن کسی کی تذلیل نا قابل برداشت عمل ہوگایہ رویہ قومی یکجہتی کے لئے نقصان دہ ہے دوسری طرف لاپتہ افراد جو ہزاروں کی تعداد میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے ہیں دوچار بازیاب ہونا خوشی کی بات ہے لیکن یہ ہزاروں کے حساب سے بلکل معمولی انتہائی معمولی پیش رفت ہے مسنگ پرسنز کی تنظیم کی طریقہ اور لائحہ عمل میں ہم آہنگی ہونی چاہے طریقہ کار اور لمبے عرصے کے لئے حکمت عملی میں تعلق کے ساتھ جدت اور سنجیدگی ہونی چاہئے طریقہ کارکا قومی جدوجہد اور قومی مقصد سے مطابقت ہوناچاہیے یہ کہنا کہ ہم غیر سیاسی ہے یہ ایک روایتی سوچ ہوگی کیا مسنگ پرسنز جو لاپتہ ہوئے وہ سیاسی نہیں تھے یا ان کا بلوچ سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا کیا سیاست یا جدوجہد کسی انسان کا حق نہیں کیا سیاست یا سیاسی عمل شجر ممنوعہ ہے ہر احتجاج کرنے والا سیاسی ہے ہر آواز اٹھانے والا سیاسی ہے سیاست ایماندارانہ جو منافقت سے پاک ہو وہ راہ نجات کا ایک شاہراہ ہے وہ ایک سنگ میل ہے ہر وہ عمل سیاسی ہے جو ہماری نجات کے لئے ہو یا کسی کی بازیابی کے لئے مسنگ پرسنز کے جدوجہد کے ساتھ انصاف کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ ہم قسطوں میں فہرست اٹھاکے دیں گے کہ پہلے ان کو بازیاب کرو ہزاروں کا قسط میں کتنے سال اور بیتے گے وہ لاپتہ افراد جو ہماری نظر میں لاپتہ ہے کیا وہ ازیتوں کا راستہ اس لئے چنا کہ آج ہم انہیں صرف لاپتہ سمجھیں وہ لاپتہ نہیں وہ ایک فکرکے علمبردار ہے وہ جنہوں نے بلوچ سماج کو اپنے خون اور پسینہ سے توانائی طاقت اور تراوٹ دی آج وہ زندان میں ہیں تکلیف سہہ رہے ہیں۔ کیا وہ پاگل تھے وہ جذباتی تھے وہ اوباش تھے یا وہ حقائق اور انجام سے بے خبر تھے؟ نہیں تاریخ بار بار کہہ رہاہے ان کی زہنی اور علمی صلاحیت کا سطح بلند ہے وہ عالم ہے دانشور ہے آگاہ ہے وہ ہمارے کیڈر ہمارے رہنمائ اور لیڈر ہے ان کا کردار ان کا جدوجہد تاریخی عمل میں بروقت اور بر محل ہے ان کی احساسات ان کی سوچ ان کی جذبات باشعور تھے وہ ایک تاریخ بنانے جارہے ہیں وہ ایک
مستقبل کی تعمیر کررہے ہیں وہ ایک روشن
مستقبل کے خواب لئے تاریخ کے اس آتش دان میں کھود پڑیں وہ پارلیمنٹ کے فریبوں سے واقف لوگ تھے یہ لاپتہ لوگ لاپتہ نہیں ہے میری گلزمین کے دیس وادی جو بھی اپنی آزادی شناخت اور سرزمین کی بات کرتےہیں تو وہ گم کیا جاتاہے بس یہی ان کا گناہ یہی ایک قصور یہی ایک جرم ہے جس کی سزا کے طور پر انہیں لاپتہ کیا جاتا ہے لیکن یہ لاپتہ نہیں یہ گم نہیں لاپتہ وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں معلومات نہ ہو شوائد نہ ہو ثبوت نہ ہو حقائق نہ ہو ان کے بارے میں معلوم ہے کہ کس کے تحویل میں کس نیت سے اٹھا یا گیا ہے وہ کونسے ارادے اور پالیساں اور طاقت ہیں جو سالوں ہمارے بھائیوں کو سورج کی کرنوں سے بھی چھپایا جارہاہے کالی اور تنگ حراست گاہوں میں انہیں کیوں پابہ زنجیر کیا گیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز