شال (ہمگام نیوز ) فری بلوچستان موومنٹ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ جس طرح کچھ دن قبل پاکستانی عدالت نے کھٹ پتلی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو بلوچ لاپتہ طلبہ کے حوالے سے سمن جاری کرکے عدالت بلایا اور وہاں جس طرح حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی تعداد محض 50 بتائی گئی یہ بذات خود ایک مذاق ہے ۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پچھلے دو دہائیوں میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندان وطن کو غائب کرکے پاکستانی فوج کی ٹارچر سیلوں میں اذیت دیی جا رہی ہے، ایسے میں حقائق کو مسخ کرکے عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نہ صرف لاپتہ افراد کی تعداد کو مضحکہ خیز حد تک کم بتایا گیا بلکہ مقبوضہ بلوچستان میں اپنی جبر و استبداد کو چھپانے اور فیس سیونگ کے لئے بلوچ نوجوانوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ افغانستان چلے گئے ہیں یا ٹی ٹی پی میں شامل ہوچکے ہیں ۔

یاد رہے کہ سن 2000 کے اوائل سے لیکر اب تک بلوچ تحریک آزادی کی جد و جہد کو ختم کرنے کے لیے پاکستانی قابض فوج اور اسکے خفیہ اداروں نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا ہے، ان لاپتہ افراد میں بوڑھے بچے جوان اور خواتین سب شامل ہیں ۔

 پاکستانی فوج، عدالتیں اور عسکری حمایت سے آئے ہوئے کٹ پتھلی وزیراعظم بلوچ کی نسل کشی اور بلوچستان پر اپنی قبضے کو دوام دینے کے لئے ایک ہی طریقے سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں ۔

پاکستانی فوج بلوچستان میں بلوچ نسل کشی میں شامل چند ضمیر فروش بلوچوں کو انکی بلوچ دشمنی کے عوض مختلف طریقوں سے نوازتی رہتی ہے کسی کو نام نہاد نگران وزیراعظم کی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے اور کسی کو الیکشن انجینئرڈ کرکے پارلیمنٹ میں پہنچایا جاتا ہے تاکہ وہ بلوچ کی نسل کشی اور بلوچ سرزمین پر موجود قومی وسائل کی لوٹ مار کے عمل آسان بنا سکیں ۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ فوج بلوچستان کے اندر اپنی جبر و استبدادی سرگرمیوں کو دنیا کے نظروں سے اوجھل رکھنے کیلئے ایسے کرائے کے لوگوں آگے لاتی ہے تاکہ وہ حقائق کو مسخ کرکے دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستانی بدترین ٹریک ریکارڈ کو قدرے صاف رکھ سکیں ۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچ قوم پاکستان کے تمام اداروں بشمول عدلیہ پارلیمنٹ اور فوج کو بلوچ قومی غلامی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ سمجھتی ہے، اور ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستانی ادارے کبھی بھی بلوچ کی فلاح کے بارے میں پالیسی مرتب نہیں کرتے بلکہ وہ ہمیشہ پاکستان کی سالمیت و بقا کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں، دیگر غیرجانبدار قوتوں کی جانب سے کوئی بات اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے کہ وہ بلوچستان میں آکر اپنی رپورٹس مرتب کریں کہ بلوچستان میں پاکستانی جبر و بربریت کا حجم اور پیمانہ کس حد تک شدید ہے ۔ پاکستانی اداروں کے برعکس دنیا کے غیر جانبدار ادارے بلوچستان میں آئیں تو ان پر یقیناً یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ کس طرح دنیا سے بھیک کے نام پر حاصل کئے ہوئے پیسہ و اسلحہ بلوچوں کی قومی جد و جہدِ آزادی کو دبانے اور ختم کرنے کے لئے استعمال ہورہے ہیں، بلوچ اور پاکستان کا رشتہ محض جبری قبضے کا ہے اور اس جبری قبضے کے دوران پاکستان بلوچوں پر اپنی جبر و استبداد کو بلوچ قومی آزادی کے حصول تک جاری رکھے گا ۔