منظور پشتین کے پشتون تحفظ مومنٹ کے لانگ مارچ پشتون مظلوموں کی آواز بن کر ابھر رہی ہے وہ اپنے اندر بے پناہ جوہر رکھتا ہے اور سیاسی قوت و حمایت اسکو قوم کی طرف سے بھرپور مل رہی ہے اور اخلاقی قوت کے حوالے سے اسکا اخلاص اور مشن کے حوالے سے واضح پروگرام ہی اسکے تحریک میں ہر دلعزیزی کا سبب ہیں ، زمان و مکان کے اعتبار سے مخصوص ایجنڈوں میں کامیابی کے امکانات کافی روشن ہیں اس امر کا امکان ہے کہ منظور پشتین اپنے اس ایجنڈے میں کامیاب ہوجائیں، کیونکہ اس کا ایک سیاسی پس منظر موجود ہے، ریاستی مظالم ایک عرصے سے پشتون قوم کے خلاف تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور فوج کی طرف سے قبائلی مشران کی قتل اور دستار کی بے عزتی غم و غصے کی اس تمام لہر میں مزید اضافہ کرچکا ہے، پشتون قوم کی ساخت اور اس مخصوص اعتبار سے پاکستانی بندوبست میں پنجاب کے بعد اگر کوئی اور ریاستی مشینری پر دباؤ بڑھا کر اپنی مطالبات منوا سکتا ہے تو بلاشبہ وہ پشتون قوم ہی ہے، کیونکہ بیوروکریسی، فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ سمیت انٹلی جنس اداروں میں انکی افرادی قوت موجود ہے، وہ اس قوت کی موجودگی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی میں یا اب تک کیوں آزاد پشتونستان کی نعرے کی طرف نہیں بڑھے اسکی اپنی ایک الگ کہانی ہے اور سیاسی مصلحتوں کا ایک بالکل ہی الگ انبار ہے، جس طرح سے بلوچ حلقے جذبات کے سے مغلوب ہوکر پرجوش انداز میں منظور پشتین کی جد و جہد کو اپنے ہی انداز میں پیش کرنے اور کیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ محض وقت گزاری و اخباری حاشیوں میں زندہ رہنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے، پہلے منظور پشتین نے وزیرستان میں طالبان کی آمد اور وہاں کی بگڑتی صورتحال کو لے کر میدان میں نکلنے کی کوششیں کی تھیں لیکن اس طرح اسے پذیرائی نہیں ملی تھی وہ مہم اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب یا ناکام ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی، کیونکہ پشتون قوم کی اکثریت یا خود ان لوگوں کو سمجھنے میں وقت لگی کہ اصل میں یہ جنگ کس کی ہے اور کس کے خلاف وزیرستان کے گراؤنڈ میں لڑی جارہی ہے، لیکن کراچی میں ہونے والے اس واقع اور اس سے پہلے ہونے والے یکساں نوعیت کے ہزارہ ایسے واقعات نے حالات کو سازگار بنا دیا تو منظور پشتین کی تحریک نے وقت کے ساتھ ساتھ ابھار شروع کردی اسلام آباد دھرنے سے نکل کر اور نقیب محسود و انوار راؤ کے سنگل ایجنڈے کو جب پھیلا کر اسنے وزیرستان و فاٹا میں لگائے ہوئے چیک پوسٹوں اور ان چیک پوسٹوں پر کی جانے والی تذلیل اور ملک کے طول و عرض میں گمشدہ پشتونوں کی بات چھیڑ دی تو عسکری بھیٹکوں میں پشتون ایشو کو لے کر کھلبلی مچنے کا احساس پہلی بار ہوا، ایک بیان بھی دیا گیا کہ “پشتون نوجوانوں کو ورغلانے کا یہ بیرونی ایجنڈا ہے” فی الحال یہ کھیل کی شروعات ہے اس میں پشتون تحفظ مومنٹ کے لوگ کافی حد تک محتاط روئیے اختیار کئیے ہوئے ہیں، اس میں ابھی تک عسکری اداروں، ان کے کاسہ لیسوں، اور انٹلی جنس اداروں کی کارستانیاں اور کھیل باقی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پشتون لانگ مارچ اپنے مقاصد کا پرچار کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ جائے یہ بات بھی ابھی دیکھنی باقی ہے۔ ویسے تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پشتوں لانگ مارچ کا اصل رخ کیا سے کیا ہوجائے گا، جو دبی چنگاری کراچی میں پولیس افیسر راو انوار کے ہاتھوں مارے جانے والے نقیب محسود کے قتل کے بعد شعلہ بن کر سامنے آچکی ہے اس نے ابھی تک ہزار منزلیں طے کرنی ہیں، البتہ اس تمام منظر نامے میں ایک چیز واضح ہے کہ بلوچ کا کیس پشتون کیس سے سرے سے الگ ہے دونوں کا آپس میں سیاسی بیانیے کی بنیاد پر کوئی رشتہ نہیں ہے، جو بلوچستان، سندھ، پنجاب اور دیگر علاقوں سے اٹھا کر غائب کردئیے گئے ہیں ان کے پیچھے ایک ایسی بنیادی داستان ہے جو کہ پاکستانی بند و بست کے کسی بھی علاقے سے اساسی طور پر مختلف ہے، بلوچ کے غائب ہوجانے کے پیچھے ایک مطالبہ ہے آزادی کا، اور اس آزادی کے حصول کے خاطر ہونے والے مسلح جد و جہد کا اور کم از کم ایسی کوئی نظیر پاکستان کے، صوبہ سندھ میں کسی حدتک کے علاوہ، کسی اور صوبے یا علاقے میں نہیں ملتی، لوگوں کا غائب ہوجانا ضروری نہیں کہ یکساں بنیادیں رکھتا ہو، پشتون صوبے میں اور ان سے ملحق قبائلی علاقوں میں شاید بلوچوں سے بھی زیادہ لوگ اغوا کرکے جبری طور پر غائب کردئیے گئے ہیں، مگر حقائق سے آنکھیں چرا کر اور ہر مجمع میں شامل ہونے کو بے تاب رہنے سے نہ اپنا بھلا ہوگا نہ ہی انکا جو ایک پروگرام سے جڑ کر اپنی مقصد کو پانے کی خاطر ایک صبر آزما جد و جہد کررہے ہیں، پشتون اور بلوچ ہم یہ مانتے ہیں کہ دونوں غلام ہیں پاکستانی بندوست کے زیر اثر سندھیوں کا بھی ایک حلقہ ہے جو سائیں جی ایم سید کے افکار و خیالات سے اثر پاکر خود کو مابعد جی ایم سید غلام ہی تصور کرتے ہیں لیکن تعداد میں اور عملی اعتبار سے نہ صرف کافی حد تک مجہولیت کا شکار ہیں بلکہ مستقبل میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ وہ عمل کی جانب مائل ہوکر ریاست کی بنیادوں کو چیلنج کریں، لیکن بات یہ ہے کہ کیا خود سندھی اکثریت اور پشتون حلقے خود اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ غلام ہیں، سندھ میں سیاسی بنیادوں پر گمشدگیوں اور مارو پھینکو کا ایک ریاستی پالیسی کارفرما ضرور ہے جو کہ قلیل تعداد میں سرگرم آزادی پسندوں یا پھر ترقی پسندوں کے خلاف موجود ہے، ترقی پسندوں، آزادی پسند قوتوں اور ساتھ ہی ساتھ اصلاح پسندوں کے درمیان بنیادی و نظریاتی نقطوں پر اختلافات موجود ہیں وہ ایک دوسرے کے نعروں کے ساتھ باہم آوازیں چاہتے ہوئے بھی نہیں ملا سکتے، وقت گزاری، اخباری حاشیوں میں جگہ پانے اور بیانات کے حد تک اپنی موجودگی کا احساس دلانے جیسی پالیسوں کے لیے تو شاید یہ دخل در معقولات کسی حد تک بر محل ہوں کہ ” بلوچ قوم سے پشتون لانگ مارچ میں شرکت کی خاص الخاص اپیل کی جائے” مگر مقصدیت اور اسکی حصول کے اعتبار سے نتیجہ آوری میں مدد دینے کے حوالے سے اس طرح کی بچکانہ حرکتیں کسی شمار میں قطعی طور پر نہیں آتیں، مظلوم ہیں واقعی ہیں پشتون مظلوم مگر آپ اپنی مظلومیت کو کہاں بھول گئے، اپنے گمشدہ لوگوں کے حوالے سے کیا پروگرام ہے، ماما قدیر کی لانگ مارچ اور اسکی ستنیاس کرنے کی پارٹی و تنظمی پالیسی کے حوالے آگے بات کریں گے۔ ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ کا کیس پاکستانی بندو بست میں موجود دیگر اقوام و برادری سے الگ ہے، کیوں کہ جو ہم مانگتے ہیں یہ باقی لوگ نہیں مانگ رہے، بلوچ کا پاکستان کے خلاف خونی مزاحمت کا ایک تاریخ ہے جو کہ دوسرے برادریوں یا قوموں میں ناپید ہے، ہم انسانی حقوق و قومی حقوق کو الگ الگ زاویوں سے دیکھتے ہیں، ہمارے لیے بلوچ قوم کے اندر یہ پیدا شدہ انسانی بحران آزادی کی مانگ کا ضمنی تحفہ ہے پشتون لانگ مارچ اور پشتون مسنگ پرسنز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ہمارے لیے محض یہ مسنگ پرسنز ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ آزادی بنیادی نقطہ ہے اسکے لیئے چاہے اتنے ہی مزید بلوچ غائب کردئیے جائیں، لیکن پشتون لانگ مارچ کی مطالبات ان مظالم کا خاتمہ ہے ناں کہ اپنی سرزمین سے پاکستانی وجود کا خاتمہ، اسی طرح امن کی آشا، سیفما اور آغاز دوستی جیسے مہموں کے لیے کام کرنے اور انہی جیسے دیگر بہت سارے کاموں کے پاداش میں گرفتار ہونے، اغوا ہوجانے اور مارے جانے کے برخلاف آزادی کے مانگ کی خاطر تشدد سہنے گرفتار ہونے اور لاشوں کے مسخ کیے جانے میں فرق کیا ہے، جس طرح کوئی پنجابی، سندھی، پشتون، سرائیکی یا ہزارہ یا پھر کوئی بلتی غائن ہے اسی طرح کوئی بلوچ بھی پس زندان ہے اور غائب ہے، جس طرح صحافی شہزادی زینیت غائب تھے اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں بلوچ مرد و خواتین بھی غائب ہیں، جیے سلیم شہزاد کو مار کر پھینکا گیا بالکل اسی طرح ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں اور طالب علموں و صحافیوں کو مار گرایا گیا، جس طرح اوکاڑہ کے مزارعین پر ملٹری ٹینکوں سے حملہ کیا گیا اور کیا جاتا رہا ہے بالکل اسی طرح بلوچ آبادیوں پر بھی ٹینک اور گن شپ جہازوں سے حملے کیے جارہے ہیں جس طرح آغاز دوستی کے رضا محمود خان کو غائب کیا گیا ہے بالکل اسی طرح کئی ہزار بلوچوں کو سالہا سال عقوبت خانوں میں رکھا گیا ہے، جذباتیت کے حوالے سے تو سب کے دکھ درد، سب کے زخم اور نفسیات میں پیوست گھاو، ان پر ہونے والے تشدد اور انکے خاندانوں پر گراں گزرتے لمحات سب یکساں ہیں، سب روتے ہیں سب اپنے پیاروں کی خاطر چیختے چلاتے ہیں، مگر جذباتیت کے علاوہ ان تمام چیزوں کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے اور وہی پہلو ہی بنیادی طور پر جد و جہد میں ہونے والے طریقہ کار اور مقصدیت کو متعین کرتا ہے، بلوچ قومی آزادی کے حوالے ہم نے اپنی عزت نفس کی مجروحیت، بڑے بوڑھوں کی پگڑی کو اچھال دینے، نفسیات میں پیوست دشمن کے لگائے ہوئے گھاو اور جسمانی تشدد سمیت موت و زیست کو سیاسی بنیادوں پر تو صرف اور صرف آزاد وطن کی حصول سے جوڑکر رکھا ہے، اگر غور کریں تو بات واضح ہوجاتی ہے، کل کو اگر اوکاڑہ مزارعین کی زمینوں پر انکے مالکانہ حقوق کو تسلیم کیا جائے، انہیں انکی زمینیں عسکری حکام کے بجائے خود انہی کو الاٹ کئیے جائیں، اگر رضا محمود خان کے آغاز دوستی، سیفما کے بہت سارے چوٹی کے صحافیوں کی مطالبات مان کر انڈیا کے ساتھ انتظامی بنیادوں پر بغیر عسکری دخل اندازی کے ڈائیلاگ کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے، عسکری ادارے و خفیہ ایجنسیاں اگر ملکی آئین کو بالا دست مان کر اپنی من مانیوں سے باز آجائیں اور امن کی آشہ کو پیسوں کی تماشہ سے جوڑ کر ان سے جڑے کارکنوں کو تنگ کرنا اور انہیں حراساں کرنا چھوڑ دیں تو کیا وہاں کوئی مسئلہ رہے گا، ہر گز نہیں، اسی طرح اگر پشتون لانگ مارچ کی مطالبات مان کر انکی مسنگ پرسنز کو بازیاب کیا جائے اور انکو چیک پوسٹوں پر تنگ کرنا چھوڑ دیا جائے تو وہاں مسئلہ ہی ختم ہوجائیگا مگر بلوچ کے ہاں بنیاد ہی مختلف ہے، اور وہ بنیاد ہے ریاست سے کلی طور پر آزادی، پنجاب میں اگر کوئی لاپتہ ہوجاتا ہے تو اسکی سیاسی نوعیت بلوچ کے لاپتہ ہونے والے فرد سے بالکل مختلف ہے یوں کہئیے کہ ایک سو اسی زاویے کا فرق دونوں گمشدگیوں میں ہے، جذباتیت کے اعتبار سے واقعات کا ایک دوسرے سے میل کھانا ایک بالکل الگ چیز ہے اور سیاسی اعتبار سے واقعات کا جڑنا بالکل الگ، فوج کی مجرمانہ و انسان کش کاروائیوں میں انسان ہی نشانہ بن رہے ہیں چاہے وہ بلوچ ہو، پشتون ہو سندھی، سرائیکی یا پنجابی ہو مگر انسانیت کی حد تک یہ بات ٹھیک ہے لیکن سب کے سب الگ الگ نظریات، مطالبات اور الگ الگ سیاسی پس منظر کی وجہ سے جبر کا شکار ہیں نہ کہ محض انسان ہونے کی بنیاد پر اور بی این ایم، بی ایس او آزاد، بی آر پی یا پھر کوئی بھی بلوچ آذادی پسند پارٹی یا تنظیم ان میں سے کوئی انسانی حقوق کی تنظیم تو ہے نہیں اور نہ ہماری یہ جد و جہد انسانی حقوق کے حوالے سے ہے انسانی حقوق اور قومی حقوق کی اپنی ہئیت، جوہر اور روح میں کافی نمایاں فرق ہے، پشتون لانگ مارچ ایک بہتر عمل ہے محض پشتون قوم کے لیئے اسکی حقوق کے تحفظ کا یہ تحریک خدا کرے کے اپنی مطالبات منوانے میں کامیاب و کامران ہو مگر اس میں بلوچ قوم کے لیئے کوئی خیر کی خبر نہیں ہے، بیگانی شادی میں عبداللہ بننے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ خود کی قوت کو یکجا کرنے اور اسے صحیح اور سیاسی معنوں میں اخلاص کی بنیاد پر ایک قومی وحدت کی تشکیل کی طرف لے جانے کی کوششیں کی جائیں،نہ کہ قوم کو اپنی حیلہ بازیوں سے بانٹنے کی کوششیں کی جائیں جس طرح سے انکا شیوہ رہا ہے۔ ویسے اگر مزاج گرامی پر گراں نہ گزرے تو یہ بھی یاد دلاتا چلوں کا ایک لانگ مارچ، انسانی حقوق کے حق میں ایک پیدل مہم بلوچ گمشدہ افراد کے واسطے کوئٹہ کی یخ بستہ گلیوں سے نکل کر کراچی اور کراچی سے نکل کر پھر رخت سفر اسلام آباد کے لیے باندھی گئی تھی اسکا کیا ہوا، کیا کوئی بلوچ اس مہم یا لانگ مارچ کی وجہ سے بازیاب ہوا یا پھر ماما قدیر نے وہی کیا جو منظور پشتین کررہے ہیں یا بلوچوں کے گمشدہ افراد کی بازیابی کے حوالے ہونے والی لانگ مارچ کو اتنی ہی پذیرائی ملی جتنا کہ ابھی پشتون لانگ مارچ کو مل رہا ہے، پاکستانی میڈیا کی کوریج اور بلیک آؤٹ کی کہانی کو نظرانداز کرتے ہوئے اگر بات کریں تو کیا دونوں میں پذیرائی کے حوالے سے نوعیت یکساں تھی، اگر نہیں تھی تو کیوں نہیں تھی، اسکے حوالے سے زمینی حقائق کا اپنا ایک کردار ہے جسے نہ نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے، اور تاریخی حقائق کا بھی ایک انمٹ ابنار ہے اور اس میں ایک یہ حقیقت بھی شامل حال رہی ہے وہ ہے نام نہاد قومی پارٹیوں کا مکروہ کردار جس طرح بلوچ لانگ مارچ کو اپنے اپنے حق میں کیش کرنے کی کوششیں ہوئیں اسے ایک سیاسی کیمپین یا انسانی حقوق کے حوالے جد و جہد سے ہٹا کر الگ رنگ میں رنگ دیا گیا، رستے میں جس طرح اس عمل کو معروضیات کی حقیقت سے نکال کر موضوعیت کی سیاسی رنگ چڑھانے کی کوششیں ہوئیں وہ اپنے آپ میں ایک غلیظ ترین سیاسی ہائی جیکنگ کا عمل تھا جو تاریخ کے پنوں میں آج بھی درخشندہ ستارے کی مانند ہمیں بحیثیت قوم شرم دلا رہی ہے، ہر کوئی منزلوں کے قریب ڈھیرا ڈال کر بیٹھا رہا اور لانگ مارچ قریب آنے پر اپنے جھنڈا بردار جھتے کے ساتھ لانگ مارچ میں شامل ہوکر پارٹی کے حق میں اور لیڈروں کے نام پر نعرہ بازی کرتا رہا، وہی لانگ مارچ اپنی ہئیت و مقاصد کے اعتبار سے بنیادی طور پر اور کامل انداز میں غیر سیاسی ہونا چاہئے تھا اس میں بی این ایم اور بی ایس او آزاد کے جھنڈا بردار و نعرے باز جھتوں نے رعب دارانہ انداز میں مداخلت کی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ اسکو کافی حد ہائی جیک بھی کرلیا اور آج پتہ نہیں کیوں اور کس بنیاد پر بی این ایم کہ جس کا زمین پر کوئی نام ہے نہ نشان لوگوں کو اپیل کررہا ہے کہ وہ پشتون لانگ مارچ میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کریں، خود بلوچ سرزمین سے سینکڑوں بے کفن لاشوں کی اجتماعی قبروں کی حقیقت کو جب ہم دنیا پر واضح کرنے میں ناکام رہے تو پشتون لانگ مارچ میں جاکر کیا تیر ماریں گے سوائے اپنی نالائقیوں کو چھپانے کے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچ اسیران کی اگر تصویریں ہی اٹھانی ہیں تو اپنا ایک لانگ مارچ ہوا تھا ماما قدیر اور انکے ساتھی ہزاروں میل کا فاصلہ لانگ کر اسلام آباد پہنچ گئے لیکن نتیجہ کیا ہوا اور اسی ماما قدیر کو اسی پارٹی بازی میں کس بری طرح استعمال کرکے اسکی کردار کو محدود کرکے منفی بناکر صفر پر لایا گیا اور کیوں بلوچ مسنگ پرسنز کی اس مہم یا تنظیم کو سیاست میں گھسیٹ کر ایک کونہ پکڑنے پر مجبور کیا گیا، آج وہ بلوچ سیاست کے کار زار میں باقاعدہ ایک پارٹی بن چکی ہے، کبھی وہ ایک کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی ہے تو کبھی کسی اور کی تعریف میں بیان داغ دیتا ہے ، گو کہ نصراللہ بلوچ نے اس تنظیم کو اس طرح کی پارٹی بازی سے نکالنے کی کوششیں کیں مگر بہت دیر ہوچکی تھی اور اب اس پر ایک ٹیگ لگ چکی ہے اور وہ اپنی مہم اور مقصد کے حصول میں اسی سیاسی کشمکش کی وجہ سے آج نہ تین میں ہے نہ ہی تیرہ میں، منظور پشتین کی لانگ مارچ اور جلوس حجم کے اعتبار سے تو ہم سے بڑے ہوسکتے ہیں مگر جن بنیادوں پر وہ کھڑے ہیں اور جن بنیادوں پر بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کھڑے تھے ان کا کوئی آپس موازنہ نہیں، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، دنوں کی نوعیت، ہئیت اور مقصدیت میں کوئی موازنہ، کوئی تقابل اور کوئی مماثلت نہیں، ان دونوں مہموں کامیابی اور ناکامی میں اگر فرق ہے تو بس نیتوں کا، پشتون لانگ مارچ میں پارٹی بازی نہیں، سیاسی شہرت کی بھوک سے للچاتی ہوئی آنکھیں نہیں، اور رال ٹپکاتے لوگ نہیں جو کہ بلوچ لانگ مارچ کے دوران ہمارے نام نہاد پارٹیوں کے شکل میں موجود رہے ہیں اور ہر کوئی کریڈٹ لینے کی خاطر اس مارچ کے عین درمیان اپنا پارٹی جھنڈا گاڑنا چاہتا تھا، پشتون اور بلوچ کا کیس یکساں صرف اور صرف غلامی کی حد تک ہے اور ان پر ہونے والے یہ جبر بھی اسی کا ہی شاخسانہ ہیں، گوکہ آج اگر دباؤ میں آکر ریاست پاکستان پشتونوں کو کچھ ریلیف دے یا پھر ماضی کی طرح علاقے میں پھر طالبانائزیشن اور دوسرے القاعدہ وعالمی دہشت گرد نیٹ ورکس سے جڑے لوگوں لاکر آباد کردے، یہ آپشن ابھی تک ختم نہیں ہوئی اس عفریت کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں ریاست نے منظور پشتین کا یہ بیان کہ ” فضائی بمباری میں دہشت گرد نہیں بلکہ عام شہری مرے ہیں” کوئی شک نہیں ہے اور یہ بہت ہی پہلے زمہ دار حلقوں بات چھڑی تھی کہ وہاں سے جنگجوؤں کے مکمل انخلا کے بعد ہی بمباری اور آپریشنز کیے گئے ہیں، لیکن جب تک پشتون کو اپنی غلامی کا بھرپور احساس نہیں ہوتا اور اسکے خلاف سینہ سپر نہیں ہوتا وہ اسی طرح ٹکڑوں بھٹے گا اور مرتا رہے گا، ہر کوئی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے ہم اسکے حامی ہیں، چاہے وہ پشتون ہو، پنجابی ہو یا کوئی بھی ہو مگر یہ حمایت اخلاقی حد ٹھیک ہے جب تک پشتون پاکستانی بندوبست سے نکلنے اور اپنی الگ قومی شناخت کے مطالبے کے ساتھ سامنے نہیں آتے اس وقت تک کوئی کچھ بھی کرلے انکے اور بلوچ کے مفادات آپس میں کسی بھی طرح سے جڑ نہیں سکتے، وہ الگ بات ہے کہ اخبارات کی زینت بن جانے اور اپنی وجود کو محسوس کروانے کے واسطے اس طرح کی سیاسی بیانات دئیے جاتے ہیں۔ پشتون قوم کو یہ باور کروانا کہ بلوچ اور پشتون دونوں غلام ہیں اور غلامی کے خلاف جد و جہد ہی بنیادی مرکز بن سکتی ہے دونوں اقوام کے مابین اور انہیں یہ کہنا اور اپنے ہی تجربات سے ان تک یہ بات پہچانا کہ یہ مسنگ پرسنز، یہ پگڑیاں اچھالنے کا کھیل اور یہ چیک پوسٹ اور مظالم سب کے سب غلامی کے دئیے ہوئے سوگات ہیں، غلامی ہی بنیادی نقظہ ہے، اسی نقطے کو لے کر علم بغاوت بلند کرنا ہوگا، اور انہیں یہ بتانا ہوگا کہ اشتراک عمل کی بنیادیں محض غلامی کے خلاف جد و جد کی صورت ہی نکل سکتی ہیں، لیکن ان سب باتوں کے لیئے جلسہ گاہوں میں جانے کی ضرورت نہیں، میڈیا کی زینت بن جانے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی ضرورت نہیں بلکہ اخلاص، نیک نیتی اور سیاسی بردباری کی ضرورت ہے، اور اپنے اندر سیاسی رویوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جوکہ اخباری حاشیوں پر پل کر زندہ رہنے والوں کے پاس نہیں اور جن کے پاس یہ صلاحیتیں موجود ہیں وہ اپنا کام تندہی اور تسلسل کے ساتھ سیاسی سوجھ بوجھ سے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔