ہمگام کالم : ایرانی گجر کہتے ہیں کہ ہم عالمی تیل و تجارت کی آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز کوبند کرکے دنیا کو معاشی فاقہ کشی پر مجبورکردینگے ۔
پاکستان کے پنجابی بھی کہتا ہے کہ ہم چائنا کی مدد سے سی پیک کوریڈور بنا کے دنیا کے لئے بلوچستان کو معاشی جنت نظیر بنائیں گے بھلے ہی اس منصوبے کی تکمیل میں انہیں ہزاروں بلوچوں کو مارنا پڑے وہ اس سے گریز نہیں کرینگے۔
لیکن چاہ بہار اور گوادر کے مالک بلوچ قوم عالمی برادری کو یہ سمجھانے اور اپنی قومی اجتماعی طاقت کو سمیٹ کر یہ کہنے میں کامیاب نہیں رہا کہ چاہ بہار کے سنگم پر واقع آبنائے ہرمز سے لیکر گوادر کے گہرے پانیوں کا پورٹ کسی پنجابی یا گجر کی جاگیر وملکیت نہیں بلکہ یہ بحربلوچ ہے جو عالمی برادری کے لئے معاشی خوشحالی اور سلامتی کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ بلوچ گلزمین پر بلوچ قوم کی ملکیت کے حق کو تسلیم کرکے ہی روشن مستقبل کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان اور ایران اپنی حیثیت کھودیں گے جب بلوچ قوم اپنی قومی اجتماعی مفادات کے لئے یکجا ہو ۔ آج ہزاروں بلوچ شہدا کی لہو تقاضا کررہی ہیں کہ بلوچ، گجر و پنجابی کی غلامی سے چٹکارے کے لئے اپنی چھوٹی سی دنیا سے نکل کر بلوچ و بلوچستان کے لئے اپنی توانیاں صرف کریں تاکہ ہماری آنے والی نسل گجر کے پھندے اور پنجابی کی گولی سے لقمہ اجل نہ بن سکے۔
معزوری کی تعریف یہ نہیں کہ آپ کا ہاتھ جسم سے الگ ہے، آپ کا پاوں کٹا ہوا ہے، آپ کی آنکھ ضائع ہوئی، یا آپ کانوں سے سن نہیں پاتے،
معزوری وہ ہے جب قابض طاقتور آپ کے آنکھوں کے سامنے آپ کی ہم وطنوں کی نسل کشی کررہی ہے آپ اسے دیکھ کر خاموش رہتے ہو، گو کہ آپ کی آنکھیں سلامت ہیں لیکن پھر بھی آپ اندھا کہلاوں گے۔
آپ کے ہاتھ سے قلم اور نوالہ چھین کر آپ کے ہم وطنوں کو غربت، مفلسی اور غلامی کی تاریکی میں دھکیل دے اور آپ حکمت عملی کی ڈگڈگی بجاکر اس ظلم سے سرف نظر کرتے ہو اصل معزوری تو یہی ہے۔
آپ کے ہم وطن اپنی غلامی سے چٹکارا پانے کےلئے آپ کو ساتھ چلنے کا کہیں تو آپ دشمن سے اپنی قومی غلامی کے خلاف دو قدم چلنے سے قاصر تو اسے کہتے ہیں معزوری، دوسرے لفظوں میں آپ کو اپاہج اور لنگڑا لولا ہی پکارا جاتا ہے۔
آپ کو بار بار پکارا جاتا ہے کہ جس قابض دشمن کو آپ محسن سمجھ رہے ہو وہ تمھارے بھائیوں، بہنوں اور بیٹیوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد تمھارے گلے میں بھی رسی ڈال کر سولی پر چڑھادے گی آپ پھر بھی اس قومی پکار پر کانوں میں روئی ٹھونس دیتے ہو یہ معزوری ہے۔ ایسے لوگوں کو عرف عام میں اندھا پن کے شکار لوگوں کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
آج اگر دیکھا جائے تو ایران کے قابض گجر کی جیلیں بھی بلوچوں سے بھرے پڑے ہیں، اور پاکستان کے پنجابی غاصب حکمرانوں کی زندان بھی بلوچ بہادر سپوتوں سے اٹی پڑی ہیں۔
آئیں ہم سب مل کر ایران اور پاکستان میں پابند سلاسل اپنی بھائیوں، بہنوں ، بیٹیوں کے لئے یک زبان ہوکر آواز بلند کریں تاکہ گجر اور پنجابی کو جرت نہ ہو کہ وہ ہمارے ہم وطن ، ہم لہو بلوچوں پر ہاتھ ڈالے۔
آئیے اپنی ڈیڈھ انچ مساجد کو مسمار کرکے بلوچستان کو تعمیر کریں۔
فری بلوچستان موومنٹ سترہ ستمبر کو بیک وقت جرمنی، لندن اور امریکہ کے دارلحکومتوں میں قابض ایران کے خلاف مظاہرے کرنے جارہا ہے، بلوچستان کے غیور، باوقار اور محب وطن بلوچوں کا فرض ہے کہ وہ گجر کے زیر قبضہ بلوچستان کے اپنے بلوچ ماوں بہنوں اور بیٹیوں کے خلاف ریاستی مظالم ، جبر و استبداد، ریاستی ننگی جارحیت، گھروں کے چار دیواریوں کی پائمالی، آئے روز بلوچ عزت مند ماوں بہنوں کی عصمت دریاں، بزرگوں، کمسن بچوں، بچیوں کی شہادت ، گھروں کو جلائے جانے، بلوچ ثقافت، زبان اور تاریخ پر ضرب لگائے جانے اور بلوچ شناخت و سرزمین کو لاحق بڑھتے خطرات سے دنیا کو آگاہ کرنے کےلئے آئیے مل کر آواز اٹھائیں کیونکہ بلوچستان ہے تو ہم ہیں، اور بلوچستان کے لئے ہم مل کر جدوجہد نہیں کریں گے تو کیا ایران کے گجر اور پاکستان کے پنجابی ہمارا ہمدرد بن کر ہمیں آزادی بخوشی سونپ دےگی؟
آیئے اپنی ڈیڈھ انچ مساجد کو مسمار کرکے بلوچستان کو تعمیر کریں، آئے اپنی تنظیمی اور پارٹی مجبوریوں کے سامنے بلوچ تحریک کو گروی بنانے سے بچائیں۔
ہمیں اپنی جداگانہ تاریخ، سرزمین ، رسم و رواج ، زبان اور تہذیب و تمدن و بلوچیت پر فخر ہے اور اس کا اظہار کرنے میں لیت و لال سے کام نہیں لیتے لیکن کچھ جمہ خان بھی ہیں جو پنجابی کو گالیاں دینے میں اپنی بیٹری فل چارچ پر رکھتے ہیں لیکن جب گجر کی بلوچ نسل کشی اور بلوچ دشمنی کی بات آئے تو ان کا بیٹری یک دم خلاس ختم شد ہوجاتا ہے، وہ اپنی اس مردہ بیٹری کو حکمت عملی کا نام دے کر اپنے کارکنوں کو بھی حکمت عملی کا لولی پاپ چوسنے کو دے کر سلادیتے ہیں۔