تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ
ھمگام آرٹیکل
ہر انسان اپنے رویے اور اخلاق سے دوسروں کے دلوں پر قبضہ جما کر اپنے لئے ایک مضبوط قدر اور عزّت کا مکان تعمیر کرتا ہے۔ انسانی دل ودماغ میں ہر ایک دوسرے انسان کے لئے جگہ خالی ہے کہ وہ اپنے لئے کونسی مقام تعمیر کرتا ہے۔ مستقل یا مختصر؟ مضبوط یا کمزور؟
دراصل انسانی دل ودماغ میں یہ مکان لفظوں اور رویوں سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس مکان کی تعمیر کا مرکزی کردار دو اہم چیزوں پر منحصر ہوتا ہے پہلا رویہ اور دوسرا اچھے الفاظ.
اس مکان کی تعمیر کیلئے رویے ایک اچھے اور ہنرمند کاریگری کا کردار ادا کرتی ہے اور اچھے الفاظ (خوش اخلاق) اینٹ کی مانند ہوتی ہے۔
جسطرح ایک مضبوط عمارت کی تعمیر کیلئے اینٹ اور کاریگر یا مستری دونوں اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر اینٹ مضبوط ہوں اور نابلد کاریگر ہو تو اینٹوں کے ترتیب اچھی طرح نہیں ہو پائے گی اور عمارت کی بنیاد ٹیڑھا پیڑھا ہوکر غیر مستحکم ہوجاتی ہے اور بلآخر نتیجتاََ عمارت کو گرنا ہی پڑتا ہے عمارت کی اینٹیں جتنی ہی مضبوط کیوں ہی نہ ہو۔ اور اسکے برعکس اگر ہنرمند کاریگر ہو اور اینٹ ناپید ہوں تو تب بھی عمارت کو گر کر منحدم ہونا پڑتاہے۔
اسطرح اگر ایک انسان دوسرے انسان کے زہن میں، ایک لیڈر اپنے کارکنوں، اور ایک دوست اپنے دوسرے دوست کے دل ودماغ پر قبضہ جمانا اور عزت و قدر کی مکان تعمیر کرنا چاہتا ہے تو ان کو اپنا رویہ بہتر کرنا پڑتا ہے اور ایسے موثر اور مضبوط الفاظ ڈھونڈ کر لانا پڑتا ہے تاکہ مستقبل میں اس عمارت کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔
مضبوط کردار اور اچھے الفاظ قدر اور عزت کے مکان کی تعمیر کرنے کی ضامن ہوتی ہیں۔
اپنے باتوں میں الفاظ کو چُن چُن کر اسطرح ترتیب سے ادا کرنا چاہیئے کہ انکے درمیان کوئی ایسی شگاف پیدا نہ ہو جائے تاکہ سامنے والے شخص کے زہن میں آپکے لئے عزت اور قدر کی عمارت دیرپا اور مستحکم ہو۔
دنیا میں ہمیشہ خوش اخلاق اور اچھے کردار کے لوگوں نے دوسروں کے دلوں میں حکمرانی کی ہے۔ سرداریت، قبائلیت اور عہدواں نے نہیں۔ اچھے اخلاق اور رویوں کے بغیر عہدے ریت کے پہاڑ کی مانند ہوتی ہے جو زرا سی ہوا چلنے سے بکھر جاتی ہے۔ اچھے رویے اور اخلاق ہی بندے کو عہدوں پر لے جاکر بلندیوں پر پہنچا دیتی ہیں۔ اور الفاظ ہی بلندیوں سے گرا کر بربادی اور تباہی کے زمہ دار ہوتے ہیں۔ اسطرح کسی بھی ادارے کے سربراہ کو اپنے کارکنوں اور دوستوں سے اچھے تعلقات قائم کرنی چاہیئے۔
نچلے درجے کے بندوں کے الفاظ کو سننے کے لئے ہمیشہ کان کا دروازہ کھولنا ہے ورنہ ہر وقت صرف اپنے ہی منہ سے باتوں کا فائر کھول کر الفاظ برسانے سے دوسرے کے زہن میں آپکے اقدار کی عمارت کو دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔
قابلیت اور خوبیاں انسان کے عملی کردار کے پیھچے چُھپے ہوتے ہیں باتونی، چڑچڑاپن اور انکے چالاق منہ سے نہیں۔ اکثر چپقلش، باتونی اور چالاق لوگ اپنی قابلیت کو ظاہر کرنے کیلئے منہ کا فائر کھولتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں کہ خاموش شخص کے اندر قابلیت اور صلاحیت نہیں ہے.
سمجھدار ہمیشہ ماحول اور حالات کا تجزیہ کرکے بغور جائزہ لیتا ہے اور مستند الفاظ کو دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے اور خود کہنے سے زیادہ سننے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور ہمیشہ سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔
ایک خاموش، خوش لسان اور دوسروں کا قدر کرنے والا ہر گز ناقابل اور نالائق نہیں ہوسکتا کیونکہ قابلیت کے تعلق چالاقی سے نہیں۔ مگر بد بختی سے ناسمجھ اور غیر شعور یافتہ سماج میں چالاق کو قابل اور لائق سمجھا جاتا ہے۔
ایک پارٹی، تنظیم کے سرکردہ رہنما
پہو یا ادارے کا سربراہ ہو وہ تب تک مستقل حکمرانی نہیں کرسکتا جب تک انکا رویہ اپنے نچلے درجے کے کارکنان کے ساتھ دوستانہ نہ ہو۔
اگر کسی ادارے کے سربراہ اپنے رویے اور بہترین تعلقات کو پس پشت ڈالکر اپنی زمہ داری اور عہدے کے اقدار کوصحیح معنوں میں نہ سمجھ سکتا ہے اور ادھر اُدھر چھلانگ لگانے کی کوشش کرتا ہے تو مستقبل قریب میں اسے اپنے ادارے اور عہدے دونوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔