کل رات خبر آئی کہ بلوچستان کے سابقہ دارالحکومت قلات کے قصبے منگوچھر میں مسلح افراد بڑی تعداد میں داخل ہوئے ہیں اور فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوئی ہیں۔
چونکہ یہ ابتدائی معلومات تھیں تو یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہاں پر ہو کیا رہا ہے۔ اتنا تو پتہ تھا کہ یہ بلوچستان کی آزادی اور قومی غلامی سے چُھٹکارہ پانے کے لئے برسرپیکار زمین زادوں اور وطن کے سرفروشوں کی جانب سے ہی حملہ ہے مگر حملے کی نوعیت ،ہدف واضح نہیں تھے مگر رفتہ رفتہ اطلاعات آتی رہیں کہ وہاں پر پاکستانی قابض فوج کے ایک کیمپ پر حملہ ہوا ہے۔
خبریں آنے لگیں کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو کنٹرول میں لے لیا گیا ہے اور دونوں اطراف ٹریفک کو معطل کیا گیا ہے، اس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ مسافروں اور معصوم لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جائے اور ان کو کسی جانی و مالی نُقصان سے بچایا جائے۔ یہی وہ فرق ہے کہ زمین کے فرزند اپنے لوگوں کو کس طرح عزیز رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت یقینی بنانا ان سرفروشوں کے لئے کتنا اہم ہے کہ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر سب سے پہلے وہ عام لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بناتے ہیں۔
حالانکہ اس پیشگی حفاظتی اقدامات سے دشمن فوج الرٹ ہوگی اور شاید سرمچاروں پر حملہ بھی ہومگر ترجیح چونکہ اپنی جان سے زیادہ اپنی عوام کی زندگیوں کی حفاظت ہے تو وہ یہ خطرہ بھی مول لیتے ہیں۔ بعد میں آنے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصل ہد ف پاکستانی قابض فوج کا منگوچھر میں قائم کیمپ تھا۔ یہ بھی کیا جاسکتا تھا کہ کیمپ پر اچانک حملہ آور ہوا جاتا مگر اس اچانک ہونے والے حملے میں معصوم لوگوں اور بلوچ عوام کو بھی نقصان ہوسکتا تھا لہٰذا انہوں نے بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے عام لوگوں کو محفوظ بنایا اور پھر اپنے حدف کی جانب بڑھے۔
ہدف تک پہنچے، ہدف پر ایک بڑی حد تک قبضہ بھی کیا اور 32 دشمن اہلکاروں کے ناپاک قدموں سے اپنے پیارے وطن کو بھی پاک کیا۔ اس حملے میں دشمن خود اپنے 18 اہلکاروں کی ہلاکت کا اعتراف کررہا ہے جبکہ علاقائی ذرائع اور آزاد ذرائع ابلاگ کے اداروں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 32 ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تعداد قابض فوج کے ہلاک شُدگان کی ہے بلوچ سرمچار یہ کامیاب حملہ سرانجام دینے کے بعد بحفاظت وہاں سے نکل کر اپنے محفوظ ٹھکانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں حالانکہ دُشمن نے اپنی پوری توانائی استعمال کی مگر ناکامی سے دوچار ہوئی ۔
اس حملے میں دشمن فوج کو فضائی مدد بھی حاصل تھی مگر اس کو بھی بلوچ سرمچاروں نے ناکام بنایا ۔
یہ حملہ ایک چیز ضرور واضح کرتا ہے کہ دشمن پر حملہ آور ہوکر اس کو زیادہ سے زیادہ نقصان بغیر کسی مہم جوئی سے بھی ممکن ہے مگر اس کے لئے بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے اور سنجیدہ و حکمت سے بھر پور قیادت کی بھی ضرورت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ 14 وطن زادے قربان کرکے ہی ایسے نتائج حاصل کئے جائیں، بغیر نُقصان کے بھی ایسے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں یہ بی ایل اے نے اپنی جنگی حکمت عملی سے ثابت کردیا ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ دُشمن پر مہلک سے مہلک ترین حملے ہورہے ہیں۔ دشمن کو بھاری اور شدید نقصان ہورہا ہے اور دشمن نفسیاتی شکست سے دوچار ہے مگر یہ خوشی دوبالا ہوگی اور خوشی کے ساتھ اطمینان بھی میسر ہوگی اگر یہ نتائج سرمچاروں کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر حاصل کئے جائیں کیونکہ ہمارے ہیرے اور انمول نگینے کسی صورت بھی سوات کے کسی نسوار خور اور شیخوپورہ کے کسی دال خور کے برابر نہیں اور ان کی دیکھ بھال اور حفاظت جنگی قیادت کی سب سے پہلی اور بڑی ذمہ داری ہے۔