ھمگام رپورٹ

بلوچستان میں سال 1970 کے بعد پہلی بار بلوچ عوام نے 8 فروری 2024 کوپاکستان کی بارہویں نام نہاد عام انتخابات کا بھرپور بائیکاٹ کرکے دنیا پر افشاں کردیا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کی آزادی نواز حلقوں نے پہلی بار سال 2008 پاکستان کی عام انتخابات کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ چونکہ اس وقت آزادی کی تحریک اپنے ابتدائی دور میں تھی اس لئے اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

پھر 2013 اور 2018 میں بھی الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا ۔لیکن ریاست اور اس کے بہی خواہوں کی سبز باغ، روزگار وسرکاری نوکری و دیگرمراعات کے جھوٹے وعدوں سے غریب و مفلس اور دو وقت کی روٹی کیلئے سرگرداں عوام کی ایک تہائی نے ووٹ دیا۔

اس بات سے سب بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان مکمل طور پر ایک نوگو ایریا ہے جو مکمل طور پر پاکستانی فوج کے زیر کنٹرول ہے جہاں شفاف الیکشن کا تصور سرے سے وجود نہیں رکھتا۔اگرچہ 2013 اور 2018 کے الیکشن میں عوام کی ایک تہائی نے حصہ لیا ، لیکن قابض پاکستانی فوج کی من منشا سے اور امیدواروں نے کروڑوں روپے دیکر منتخب ہوکر اسمبلیوں تک پہنچے ۔

اس زمانے میں باپ پارٹی کے قدوس بزنجو آواران سے محض 400 ووٹ لیکر اسمبلی پہنچے جو پوری دنیا کیلئے باعث ایک حیرانی تھی لیکن پاکستان میں کسی کے لئے حیر ت انگیز نہیں تھا کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں عسکری اسٹیبلشمنٹ کچھ بھی کرتاہے اس کو روکنے والا دنیا میں کوئی نہیں۔جو دنیا کے سامنےانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتاہے ، اپنی اوربین الااقوامی قوانین کو روندتا ہے،لوگوں کودن دہاڑے سی سی ٹی وی کیمروں کے سامنے جبری گمشدگی کا نشانہ بناتا ہے اور پھر انہیں ماورائے عدالت قتل کرکے جوابدہ بھی نہیں ٹھہرتا۔

 لیکن اب کے 8 فروری 2024 کے الیکشن سے بلوچ عوام کی بھر پور بائیکاٹ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کیخلاف ایک موثر عوامی ریفرنڈم ہے جو پاکستان کی بدمست و بے لگام فوج کی حکمرانی کو بھی نخیل ڈالنے کے مترادف ہے ۔ کیونکہ حالیہ الیکشن میں بھر پور عوامی بائیکاٹ کا محرک یہی پاکستانی فوج کی ظلم وبربریت ،جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل سمیت دیگر سنگین انسانی حقوق خلاف ورزیوں ، انسانی بستیوں کو تاراج کرنا،لوگوں کو نقل پر مجبور کرنا ، ذرائع معاش کا خاتمہ اور زندگیوں کواجیرن بنانا بنی ہے ۔

الیکشن میں جس طرح مکران میں عوامی بائیکاٹ کا ایک مثال سامنے آیا ہے کہ کس طرح مند، زمران اور ہیرونک میں خواتین و بچوں نے بندوقوں کے سامنے پولنگ اسٹیشنز کو تاراج کیا بالکل اسی طرح دیگر علاقوں کے لوگوں نے پولنگ اسٹیشن کا رخ نہ کرکے اپنی وطن دوستی کا ثبوت اور پاکستان سے نفرت کا اظہار کیا ہے لیکن ان سب سے جدا ایک ایسا علاقہ بھی وجود رکھتا ہے جہاں ایک ووٹ بھی نہیں گرا۔جو اب بھی اپنے آبائواجداد اور تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔

آج کے الیکشن سے ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ ضلع کوہلو کے علاقہ کاہان جہاں ایک ووٹ بھی نہیں گرا۔اگرچہ ووٹ کا نہ گرنا وہاں کی عوام کی رائے ہے لیکن بلوچ سرمچاروں نے وہاں ایسی حکمت عملی اپنائی کہ دشمن کو انتخابات کے انعقاد میں مکمل ناکام رہا ۔سرمچاروں نے ریاستی فورسز اوراس کے مشینریز کو یہ باور کرایاکہ وہ اور اس کوجنم دینے والا برطانیہ بھی یہاں کی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ناکام و نامراد لوٹا ہے ۔

کہتے ہیں کہ برطانوی ادوار میں جب انگریز وں کا راج تھااس زمانے سے لیکر آج تک اس سرزمین کے وسائل و معدنیات کو سرمچاروں نے اپنی سریں قربان کرکے تحفظ فراہم کی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔