کرد اور بلوچ دونوں قدیم اور مضبوط ثقافتی شناخت رکھنے والی قومیں ہیں جنہوں نے اپنی بقاء، حقوق، اور آزادی کے لیے صدیوں سے جدو جہد کی ہے۔ ان دونوں قوموں کی مزاحمتی تاریخ میں طاقتور سلطنتوں، داخلی و بیرونی دشمنوں، اور سیاسی چالوں کا سامنا رہا ہے، لیکن ان کی مزاحمت اور قربانیاں انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

کرد مزاحمت

کرد قوم کی تاریخ ایران، ترکی، عراق، اور شام کے علاقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ کرد لوگ ہزاروں سالوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کی اپنی زبان، ثقافت اور رسوم و رواج ہیں۔ 20ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد کرد قوم کی آزادی اور خود مختاری کی خواہش نے ایک نئے جوش و ولولے کو جنم دیا۔

سن 1920 میں سیورے کے معاہدے نے کردوں کو ایک خودمختار ریاست دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن لوزان معاہدے (1923) میں یہ حق منسوخ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں کردوں کی مزاحمت میں شدت آئی۔ کرد قوم نے 20ویں اور 21ویں صدی میں کئی مسلح اور غیر مسلح مزاحمتی تحریکیں شروع کیں۔ عراق میں 1961 میں ملا مصطفی بارزانی کی قیادت میں کردوں نے اپنی آزادی کے لیے ایک منظم جدو جہد کی۔ ترکی میں کردوں کی جدوجہد میں کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نمایاں رہی، جس نے 1984 سے ترک حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔

بلوچ مزاحمت

بلوچ قوم کی تاریخ بھی مزاحمت اور آزادی کی جدو جہد سے بھری ہوئی ہے۔ بلوچ خطے میں قدیم ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کی بھی بہتات ہے۔ بلوچ علاقے میں ایران، افغانستان، اور پاکستان میں تقسیم ہونے کے بعد بلوچ قوم کو اپنی آزادی اور خود مختاری کے حق کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

سن1839 میں برطانوی سامراج کے خلاف بلوچوں نے سخت مزاحمت کی، جس کی قیادت خان آف قلات میر محراب خان کر رہے تھے۔ اس جنگ میں بلوچوں نے برطانوی سامراج کے خلاف اپنی خودمختاری کی حفاظت کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔ بعد ازاں پاکستان کے قیام کے بعد بھی بلوچ قوم نے اپنے حقوق اور آزادی کے لیے آواز اٹھائی۔ خاص کر 1973 میں جب بلوچستان میں ایک بڑی شورش اٹھی جسے پاکستانی حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔

ایران میں بلوچوں کی مزاحمت کو بھی صدیوں سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایرانی حکومت کی جانب سے بلوچوں کو ان کے مذہبی اور ثقافتی حقوق سے محروم کیا گیا اور ان کی مزاحمتی تحریک کو جبر سے دبایا گیا۔

مزاحمتی تحریکوں میں مماثلتیں

کرد اور بلوچ دونوں کی مزاحمتی تحریکیں مختلف خطوں میں ہونے کے باوجود کئی مماثلتیں رکھتی ہیں۔ دونوں قومیں جغرافیائی طور پر معدنی وسائل سے مالا مال علاقوں میں بستی ہیں، اور انہیں ان وسائل کے استحصال اور ریاستی جبر کا سامنا رہا ہے۔ دونوں نے اپنی شناخت، ثقافت، اور زبان کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح اور غیر مسلح جدو جہد کی ہے۔

کرد اور بلوچ قوموں کی مزاحمت نہ صرف ان کی شناخت کو برقرار رکھنے کی جنگ ہے بلکہ یہ انسانی حقوق، خود ارادیت، اور انصاف کی جدوجہد بھی ہے۔ تاریخی طور پر یہ قومیں اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے ہمیشہ قربانیاں دیتی آئی ہیں، اور ان کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ ان کی تاریخ کو یاد رکھنا اور اس کی حمایت کرنا عالمی برادری کا اخلاقی فرض ہے تاکہ انہیں ان کے حقوق مل سکیں اور ان کی ثقافتیں زندہ رہ سکیں۔