جب میں نے ہوش سمبھالے بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک اور بلوچ جنگی محاذ شروع ہو چکا تھا.
دھماکوں اور فاہرنگ کی آوازیں روز کانوں میں گونج رہے تھے جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ سکول جاتا تو راستے میں اکثر و بیشتر دو مسلح لوگ موٹر سائیکلوں میں گھومتے پھرتے نظر آتے تھے اور ہم روز خوف کے مارے خود کو دیوار کے کونے میں چھپانے کی کوشش کرتے تھے.
خاران شہر بلوچستان کے دوسرے شہروں سے حالات کے تناظر میں مختلف نہیں ہے بلکہ موجودہ وقت میں خاران ڈسٹرکٹ دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ شورش زدہ قرار دیا جاچکا ہے
شورش کی وجہ سے خاران سے کئی نوجوان پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا کئے جا چکے ہیں.
جن میں بعض نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی خاران کے بد نصیب لوگوں کو دیکھنے کو ملے ہیں. بلوچستان کے حالات کے آگہی اور سوشل میڈیا سے نزدیکی اور ہمراز دوستوں سے روز گفتگو اور بحث سے کچھ انفارمیشن جو میں نے اکٹھے کیے ہیں.
میرے انفارمیشن کے مطابق خاران ڈسٹرکٹ سے 2006 سے اب تک مسنگ پرسنز کے تعداد 83 سے زیادہ ہیں.
جن میں سے کچھ کے نام میں نے بڑی مشکل سے معلوم کئے ہیں جو کہ درجہ ذیل ہیں:
1.خالد تگاپی
2.آصف سہیل بختیارزی
3.محمود شاہ
4.بابو محمد حسن
5.اسلم شوہاز
6.غلام فرید
7.محمد عارف
8.رحیم الدین
9.اسماعیل
10.اعجاز مینگل
11.صدام چشتی
12.محمد عارف
اور کچھ ایسے بھی گم شدہ افراد ہیں جن کے نام فیملیز کو ڈرا دھمکا کر اور نفسیاتی دباؤ ڈال کر چھپائی گئی ہیں اور چھپانے پر زور دیا گیا ہے.
لہذا اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو دھمکیاں موصول ہوتے ہیں جن میں گھر کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اُٹھانے اور تذلیل کرنے کی دھمکیاں شامل ہیں.
حتیٰ کہ پاکستانی فوج و خفیہ ایجنسیز لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے پروگرامز میں خود سمیت کم از کم دس افراد کے ساتھ آنے کو کہتے ہیں اور نہ آنے کہ صورت میں دھمکیاں دیتے ہیں.
کیونکہ اگر کوئی اپنے ساتھ دس لوگ نہیں لاتا ہے تو اسکے فرزند پر تشدد کیا جاتا ہے اور اگر دس لوگ اپنے ساتھ لائے تو ہوسکتا ہے اسکے فرزند یا بھائی کو ریائی ملے.
اسی بات کو لیکر پاکستانی فوج بے بس فیملیز کے مجبوری سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوا ہے.
کیونکہ ہم ایک غلام قوم ہیں. ہمارا اُٹھنا، بیٹنا، سوچنا، سمجھنا غلامانہ، فرسودہ اور ناکارہ سوچ کے زمرے میں آتا ہے.
قابض پاکستانی آرمی جن میں پٹھان اور پنجابی شامل ہیں ہمارے گھروں میں گھس کر ہمارے عورتوں کے عزت کو پامال کرکے انہیں گھر سے گھر کے گیٹ تک گھسیٹتے لے جاتے ہیں.
اور ہمارے اپنے سادہ بلوچوں کو آپس میں لڑانے اور چند زرخرید ملاؤں کے ذریعے انہیں پیسے اور مراعات کے لالچ دے کر مسلمان مسلمان بھائی بھائی کے رٹ سے دھوکہ دیے جارہے ہیں.
لہذا میں کچھ لکھنے اور کہنے میں حق بجانب ہونگا.
پلوچستان میں انصاف کے ترازو میں تولنے والے حق و صداقت کی راہ پر گامزن بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کا تعلق بد قسمتی سے خاران سے ہیں.
اور بد قسمتی سے کچھ نوجوان اسیروں کا تعلق انہی کے اپنے گاؤں سے ہیں.
جناب محمد نور مسکانزی میں آپ سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں آپ اپنے آپ کو انصاف کا سکندر مانتے ہیں.
میرا آپ سے کچھ سوالات ہیں جو مجھے من ہی من میں دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں.
کہاں گیا آپ کا انصاف جب خضدار کے تحصیل توتک میں چار اجتماحی قبروں سے سینکڑوں افراد کی لاشیں نکالی گئیں ــــــــ؟
کہاں گیا آپ کا انصاف جو روز بلوچستان کے کونے کونے سے نوجوان، پیرمرد، عورتوں اور بچوں کو اٹھا کر پہلے غاہب اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جاتی ہیں ـــــــــــ؟
کہاں گیا آپکا انصاف جب آپکے اپنے شہر خاران میں 83 افراد غاہب ہیں جن کی ماں بہنوں کی سسکیاں روز کانوں میں گونجتی رہتی ہے.
جن کا باپ روز اسی امید سے اُٹھتا ہے کہ شاید آج اسکے آنکھوں کا نور بڑھاپے کا سہارا گھر واپس لوٹے گاــــــــ
جس کا بھائی ہر لمحہ اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتا ہے کہ اسکا لاڈلا بھائی گھر کا کام بٹھانے اسکا (کوپگ) یعنی کندہ بنکر آئیگاـــــــــ
پر افسوس آپ کے آنکھوں کو سلائی……
آپ کی زبان کاٹ دی گئی ہے…….
دماغ کو کھوکھلا کرکے صرف اور صرف پاکستان کی غلامی کو درج کیا گیا ہے.
خاران میں مقامی فورسز ــــــــ!!!
پولیس اور لیویز..!!
ہولیس اور لیویز ریاست پاکستان کے جابر فوج کی پالسیوں پر عمل پیرا ہیں.
بلاوجہ لوگوں کو تنگ کرکے ذہنی پریشانی میں مبتلا کرنے کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے.
آزادی پسندوں کے فیملیز کو تنگ کرکے ان پر نفسیاتی دباو ڈالا جا رہا ہے.
مقامی فورسز معاون کار کے طور پر اپنا کام بلوچ نسل کشی کیلئے ریاست پاکستان کے ساتھ اپنے وفاداری کا بھرپور حق ادا کر رہا ہے. ـــــــــ
ریاستی ایجنٹس..ــــــــــ
سادہ لباس میں فوجی کردار ادا کرنے والے اور سرکاری بھتہ خور جو لوگوں کو بے وقوف بنائے ہوئے ہیں. سی پیک بنا کر لوگوں کو یہ کہہ کر خوش کر رہے ہیں کہ یہ روڈ آپ لوگوں کے ترقی کا ضامن ہوگا یہاں لوگ کاروبار کرینگے.
میں ڈسٹرک کمشنر خاران قادر بخش پرکانی اور ایکسین بی اینڈ آر شہاب مگسی کی بات کر رہا ہوں. ـــــــ
بلوچستان کے مالک کو آپ یہ کہہ کر بے وقوف بنارہے ہو کہ اسکے بدلے آپکو روڈ کے کنارے ایک دکان ملے گا جس میں آپ کارو بار کرینگے، اپنے لئے پیسے کماؤں گے جس سے آپ کی اور. آپکے بچوں کی زندگی خوشحال ہوگی.
سی پیک کے لنک روڈ کی تعمیر میں ریاستی فورسز کے شانہ بشانہ ڈپٹی کمشنر خاران قادر بخش پرکانی اور ایکسین بی اینڈ آر شہاب مگسی جو کہ پاکستان اور چین کی جانب سے بلوچ قومی بقاء اور قومی وجود کو صفہ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں.
جہاں بلوچ عوام کو دھمکی اور دہشت کے ذریعے ایسے بلوچ دشمن منصوبوں میں شراکت دار اور تعاون کرنے کیلے بزور طاقت مجبور کر رہے ہیں جس کا واضح ثبوت خاران کے عوام ہیں جو کافی عرصے سے ان ریاستی ایجنٹوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں.