کوئٹہ (ہمگام نیوز) جبری بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ جاری آج 5207 دن ہوگئے ہیں۔ کیمپ میں مختلف سیاسی اور سماجی کارکنان نے شرکت اور اظہار یکجہتی کا اظہار کیا جن میں نوشکی سے عبدالوحید بلوچ، نوروز بلوچ اور دیگر شامل تھے –
وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں قوم دوست اور محب وطن بلوچ فرزندوں کو جبری طور لاپتہ کرنے اور ان میں سے بعض کو دوران حراست شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی ظالمانہ ریاستی کاروائیاں تسلسل سے جاری ہیں،
انہوں نے کہا کہ عاقبت اندیشن پاکستانی فوج اور اس کے ذیلی ادارے ایف سی خفیہ ادارے سی ٹی ڈی وغیرہ اس یذیدی حکمت عملی کے ذریعے قوم دوست محب وطن بلوچ افرادی قوت کو ختم کرنے اور بلوچ قوم کے اندر خوف و ہراس پھیلانے کی احمقانہ منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اس وحشیانہ حکمت عملی کے ذریعے بلوچ قومی جدجہد کو کچل سکیں مگر ان کی اس بے رحم حکمت عملی کے نتائج و اثرات ان کی بے رحم منصوبے کے برعکس مرتب ہو رہے ہیں۔ اس بدترین ریاستی دہشتگردی نے ایک جانب بلوچ عوام میں قومی جدجہد کے جذبے شعور اور عملی شرکت کو تیز کردیا ہے
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دوسری جانب بین الاقوامی اداروں اور رائے عامہ کو تیزی سے بلوچ مسلہ کی جانب متوجہ کردیا ہے۔ پاکستانی فوج ایف سی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں اور شہدا کے مسخ شدہ لاشوں کے باعث بلوچ قومی مسئلہ اور جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر ایک سنگین انسانی مسلہ اور حل طلب بین الاقوامی تنازعہ بن گئے ہیں. اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر سالانہ رپورٹ کے اقتبات شائع ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں صرف 2001 سے اب تک ہزاروں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی تصدیق کرتے ہوئے
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ 2001 سے اب تک پاکستانی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کا ایک بیان ہے جس میں اس نے پاکستانی ریاست کے سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور تشدد سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگیوں کو سنگین مسلہ قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں قومی اور بین الاقوامی موضوع بحث بن گیا ہے۔