*۔تضاد ۔ایک مختصر افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ \” تنقید کرنے والوں کا منہ ہر حال میں بند کرنا ہے ، ان کو غدار یا کسی غیرملکی کا ایجنٹ قرار دے دو خود ہی بلوچ عوام کے نظروں میں گر جائیں گے اور منہ بند ہوجائے گا\” ڈاکٹر اللہ نظر ماتھے پر تیوریاں چڑھائے سینٹرل کمانڈ کے میٹنگ کے اختتام کے وقت دوسرے شرکاء سے مخاطب ہوا۔ اس کے بعد ایک سکوت طاری ہوگیا ، اجلاس کے رسمی اختتام پر زیادہ تر نے جیب سے سگریٹ نکال کے ہونٹوں کے بیچ دبادیا اور ماچس کے تیلیوں سے اسے سلگانے لگے۔ ڈاکٹر اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور ایک بار پھرسے اپنے روائتی دھیمے لہجے میں بولنے لگا \”آج مجھے ایک صحافی کو انٹرویو دینا ہے آنے والے بلوچستان کے بارے میں کہ وہ کیسا ہوگا ، بلوچستان کے نظام میں ایک عام آدمی کی حیثیت کیا ہوگی \” اپنا چادر جھاڑتے ہوئے کندھے پر رکھ دیا اور پہلو میں رکھے بندوق کو اٹھاتے ہوئے بیٹھے باقی دوستوں سے ایک توقف کے بعد دوبارہ سے مخاطب ہوئے ، \” ہاں ثناء اور اسکے ساتھی آج کل تنظیم کے خلاف بہت بولتے ہیں ان کا اسلحہ لے لو ، اور بی بی کریمہ سے کہہ دو کے سوال کرنے والے کسی انتشاری کو سینٹرل کمیٹی میں رکھنے کا کوئی ضرورت نہیں ، سب کو فارغ کردو \” پھر زیرلب بڑبڑاتے ہوئے بولے ، 6 بج گئے ہیں بس وہ صحافی فون کرنے ہی والا ہوگا ، اپنے جیب سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر اس پر نظر دوڑانے لگا، جس پر کل رات ڈاکٹر نے آزاد بلوچستان کے بنیادی اقدار تحریر کیئے تھے ، اتنے میں صحافی کا کال آیا اور کچھ سوالوں کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر بولنے لگے \” دیکھیں جی، آزاد بلوچستان ایک آزاد سماج ہوگا ، کسی پر جبر نہیں ہوگا، جہاں اختلافِ رائے رکھنے کی مکمل آزادی ہوگی \”۔

*۔نئے خیالات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے کہتا ہے کہ کیا ڈاکٹر اللہ نظر، براہمداغ ، مھران ، جاوید مینگل ، کریمہ ، خلیل غلط بی ایل ایف ، بی آر اے ، لشکرے بلوچستان ، یو بی اے غلط بی آر پی ، بی این ایم ، بی ایس او آزاد غلط اور صرف تم صحیح ؟ پھر بھی تم تنقید کرتے ہو ؟ میں اسے کہتا ہوں کیا ڈاکٹر مالک ، اختر مینگل ، طلال بگٹی اور تمام سردار غلط نیشنل پارٹی ، بی این پی ، جے ڈبلیو پی وغیرہ غلط یہ پاکستان کا نام لیوا ہر شخص ، لشکر اور پارٹی غلط اور صرف تم صحیح ؟ پھر بھی تم نے آزادی کا نام لیا ؟ سنگت اہمیت تعداد کا نہیں خیال کا ہوتا ہے تاریخ تعداد نہیں خیال بناتے ہیں اور یاد رکھو ہر نئے خیال کے سفر کا آغاز اقلیت سے ہوتا ہے *۔سیاسی کوتاہ بینی ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید ہم میں سیاسی بلوغت اور سمجھ کی مہلک کمی ہے ، جو بھی آکر ہمارے منہ میں کوئی بھی میٹھا نعرہ ڈال دے بس ہم اسے طوطے کی طرح رٹتے رہتے ہیں ، اتنا نہیں سوچتے کہ وہ نعرہ یا موقف واقعی ہمارا متعارف کردہ ہے یا دشمن نے اڑاتے اڑاتے ہمارے منہ میں ڈلوادیا ہے ، مدعا بالکل صاف ہے دشمن چہرے بدل کر ہمیں مار رہا ہے تاکہ اسکا نام نہیں لیا جائے ہم بھی مکمل تعمیل کررہے ہیں ، دشمن کا نام لینے کے بجائے کبھی اسے ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیں ، کبھی قبائلی سردار اور کبھی ملا، دشمن بھی اس آسانی کو پاکر کافی محضوظ ہورہا ہے ، آج کل ہر جگہ یہ خبر پڑھنے کو مل رہی ہے کہ \” ملاوں اور آئی ایس آئی ایس نے آواران میں 7 ذکریوں کو مار دیا \” ، او بھائی ! ہوش کے ناخن لو یہی تو دشمن تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہے ، حالانکہ جملہ صرف یہ ہونا چاہئے کہ \” پاکستانی فوج اور اسکے دلالوں نے 7 بلوچوں کو شہید کردیا \”۔ ہم خود ہی اعتراف کررہے ہیں کہ پاکستان ہمیں نہیں مار رہا بلکہ یہاں فرقہ وارانہ جنگ ہے سنی انتہاء پسند ، ذکری مسلک کے لوگوں کو مار رہے ہیں ، اس سے بڑی بد نصیبی ؟ میرے خیال میں اس سے زیادہ آسانی اور فرحت شاید دنیا میں کسی نے اپنے دشمن کو نہیں بخشا ہوگا ، واقعی ہم بلوچ بڑے دل والے ہیں دوست تو دوست ہم سے تو دشمن بھی فیضیاب ہورہا ہے۔ ہم میں نقل کرنے کی بیماری اتنی سرایت کرچکی ہے کہ شاید نقل کرتے کرتے ہم بھول ہی گئے ہیں کہ اصل میں ہم کیا ہیں ، ابھی تک سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں اور پارٹیوں کے چربے سے جان نہیں چھوٹا تھا کہ اب کامریڈوں کو پتہ نہیں کہاں سے کردوں کی بھنک پڑ گئی، سعودی عرب اور پاکستانی فوج کے بنائے چار دلالوں اتفاق سے جن کے منہ پر داڑھی تھی ہمارے خلاف استعمال ہوئے تو سوچنے کے بجائے ہماری باچھیں کھل گئیں اور کہنے لگے دیکھو جس طرح عراق میں کرد آئی ایس آئی ایس سے لڑ رہے ہیں ہم بھی اسی طرح لڑرہے ہیں ، دشمن کو یہ سن کر کافی مسرت کا احساس ہوا ہوگا اس لیئے اس کو بڑھاوا دینے کیلئے کسی چھوٹے سے دیوار پر چار سیاہ لکیریں کھینچ کر اپنا نام آئی ایس آئی سے آئی ایس آئی ایس کرلیا ، یہ دیکھتے ہی ہمارے اندر کے چربہ ساز کی عید ہوگئی اور ہر طرف ہم یہی ڈھنڈورا پیٹنے لگے اور واویلا کرنے لگے کہ داعش آگیا ، داعش آگیا، ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بھی چلا دی کہISISinBalochistan# ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ بھائی پاکستان یہاں سے جہازیں بھر بھر کہ ترکی کی مدد سے اپنے ملا آئی ایس آئی ایس کے خلاف لڑنے کیلئے بھیجتا رہا اور یہی آئی ایس آئی ایس بشارالاسد کے ساتھ ایک خفیہ جنگ بندی کے بعد پاکستان کے ہمدرد القاعدہ اور طالبان سے جڑے شدت پسندوں سے لڑتا رہا ، اب وہی پاکستان بلوچستان میں آئی ایس آئی ایس کی مدد کیسے کررہا ہے؟۔ دشمن چاہتا تھا کہ ہمارا موقف بدل جائے اور اسے ریلیکسیشن ملے اور ہم نے بھی دشمن کے معاونت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی شرف ہم نے پاکستان کے بنائے چور لٹیروں اور دلالوں کو بھی ڈیتھ اسکواڈ کہہ کر بخشا ، حبیب جالب کے قتل کے بعد جب بی این پی کے ثناء بلوچ نے یہ نرم اصطلاح متعارف کی تو ہم نے یہ نہیں سوچا کہ وہ تو چاہتا ہے کہ دشمن کے خلاف ایک ایسا نرم اصطلاح استعمال ہو جس سے انکے مفادات کو پاکستان میں نقصان نہیں پہنچے لیکن چربے کے ماہرین کامریڈوں نے ان دلال ، لٹیرے اور ضمیر فروشوں کو شرف دیکر ڈیتھ اسکواڈ کہنے لگے ، اب حالت یہ ہے کہ یہی دلال اس نام سے اتنا خوش ہیں کہ وہ ہر جگہ خود ہی خود کو ڈیتھ اسکواڈ کہہ کر پکارتے ہیں، دنیا ایسے دلالوں کو اپنے سماج میں جوتے کی حیثیت دیتے ہیں اور ہم تو انہیں فلمی نام دیکر اپنے سماج میں آئیڈیلائز کرواتے ہیں۔ او بھائی! خدارا ہوش کے ناخن لو، یہ نا ڈیتھ اسکواڈ ہیں ، نا قبائلی ہیں ، نا ملا ہیں اور نا ہی آئی ایس آئی ایس ہے یہ صرف اور صرف پاکستانی آرمی اور اسکے دلال ہیں ، یہی انکا نام ہے یہی انکی پہچان ہے اور یہی انکا شناخت ہے ، دانستہ یا نا دانستہ انکا شناخت نہیں چھپائیں انہیں انکے نام سے ہی پکاریں۔ ہمدردی حاصل کرنے کے شارٹ کٹ رستے کو چھوڑیں اپنا مسئلہ صحیح بیان کریں ہمارے خلاف ملا نہیں لڑرہے بلکہ ملا تو مولوی عبدالحق ، ملا عبدالخالق کلمتی اور احتشام الحق کی صورت میں ، بلوچ علماء کونسل کی صورت میں ہمارے تحریک کی حمایت کرچکے ہیں ، ہمارے خلاف پاکستان اور اسکے بنائے ہوئے دلال لڑرہے ہیں جو مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں تاکہ انکے چہرے پر پردہ پڑا رہے۔ *۔اپنا اپنا ۔۔۔۔ بی ایل اے کیہاتھوں بیسمہ میں قتل ہونے والے مشہور زمانہ مخبر سیف الدین کو بلوچ قومی انقلابی ماس پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنا شہید قرار دے دیا۔ پہلے اپنا اپنا پارٹی پھر اپنا اپنا چارٹر اب اپنااپنا شہید آگے اپنااپنا بلوچستان تو نہیں؟ انقلابی تحریکیں قوموں کو گروہیت سے اجتماعیت کی طرف لیجاتے ہیں اگر قوم اجتماعیت سے گروہیت کی طرف جانے لگے تو ؟ *۔سنگت حیربیار اور ہم فکروں کی سیاسی ناکامیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سنگت حیربیار اور اسکے ہم فکر جسطرح گالیاں سن رہے ہیں یہ انکی سیاسی ناکامی ہے اگر وہ آزمودہ سیاسی ٹوٹکے استعمال کرتے تو وہ ناصرف کامیاب ہوتے بلکہ بلوچ سماج میں لیڈر اور ہیرو کی حیثیت سے جانے جاتے۔ \” حل انتہائی آسان تھا کہ \” *بی ایس او آزاد کچھ لوگ اندر بھیج کر 2 سال انتظار کرتے لابینگ کرتے دو سال بعد کونسل سیشن میں جھپٹ کر اسے اپنا لیتے۔ بی ایس او قبضے میں آجاتا ہم بدستور راجی راہشون رہتے اور گر کوئی اس \” قبضہ گیریت \” پر انگلی اٹھاتا تو اسے غدار کہہ کر خاموش کرادیتے۔ *بی این ایم کچھ لوگ اندر اعلیٰ عہدوں تک بھیجتے پھر اسلم بلوچ خلیل کو فون پر دھمکی دیکر کہتا کہ \” عہدہ چھوڑ دو ورنہ ہمارا ایک بھی بندوق بردار زندہ رہا تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے\” وہ عصا ظفر کی طرح خاموش اور اپنا بندہ چیئرمین ہم ماس پارٹی کے غیر رسمی سربراہ بن جاتے اور گر کوئی \” آمر \” کہہ کر انگلی اٹھاتا تو اسے سامراجی ایجنٹ کہہ کر خاموش کراتے۔ *بی آر پی جب ان کے ساتھ ہوتے تو ہاتھوں کی زنجیر بناتے اور جیسے ہی وہ نظروں سے ہٹتے تو پیٹھ پیچھے کہتے کہ \” یہ قبائلی ، نواب و سردار ڈنگ جنوکے سیاہ مار\” ان سے دوستی بھی بنی رہتی اور عوام کے ذہن میں ان کے خلاف زھر بھر کر اپنی ممبر شپ بڑھتی اور گر کوئی \” منافق \” کہہ کر انگلی اٹھاتا تو اسے بلوچ اتحاد کے خلاف سازشی کہہ کر خاموش کراتے *مسلح تنظیمیں جس سے فائدہ کی امید ہوتا اسے سر پر بٹھاتے جس سے امید نہیں ہوتا اسے بیچ راستے پر چھوڑ کر یہ کہتے کہ وہ ختم ہوچکا ہے نمائیندے ہم ہیں۔ اس طرح سب کو نچوڑ کر ان سے فائدہ حاصل کرتے اور اپنی جداگانہ حیثیت روز بروز مضبوط ہوجاتی گر کوئی \” موقع پرست \” کہہ کر انگلی اٹھاتا تو اسے \” وار سائیکو \” کہہ کر خاموش کراتے *وی بی ایم پی ماما قدیر کو سرخ سلام پیش کرتے لیکن اپنا بھوک ہڑتالی کیمپ الگ لگا کر سیاسی پوائینٹ اسکور سے دستبرار نا ہوتے۔ لوگوں کے جذبات ہمارے ساتھ ہوتے لیکن سستی شہرت بھی ہاتھوں سے جانے نا دیتے گر کوئی \” انفرادیت پسند \” کہہ کر انگلی اٹھاتا تواسے \” ریاستی ایجنٹ \” کہہ کر خاموش کراتے *کاروائیاں اس سارے دوران ایک مار کر بیس قبول کرتے تو لوگوں کی توجہ تمہارے \” مقدس سیاست\” کی طرف کبھی پڑتی ہی نہیں اور لوگ تم سے ڈرے بھی رہتے *مرکزی پالیسی ہر اتحاد قبول ہے، جب تک کہ میری جدا شناخت سلامت ہو سب ہمارے دوست ہیں، جب تک کہ پیسہ و مڈی مل رہا ہو سب بلوچ کی پارٹیاں ہیں ،جب تک کہ انکے فیصلے میں کررہا ہو جھوٹ تب تک جائز ہے، جب تک پکڑا نا جائے عوام کو سب کچھ بول دو، سوائے سچ کے احتساب کا نعرہ لگاو، صرف اخباروں کی حد تک لوگوں کو ڈراو گے تو تمہارے ساتھ چلیں گے سیاسی آزادی ہے ،جب تک کے میرے خلاف نا بولو سربراہ بننے کیلئے بھائیوں کے سروں پر کھڑا ہونا جائز ہے اپنی آنکھیں کھلی اور عوام کی آنکھوں پر جذبات کی پٹی چڑھاو سیاسی مخالفوں کو کچلنے کیلئے زبان ، رنگ ، نسل ، پارٹی ، تنظیم ہر چیز کا استعمال جائز ہے۔ لیکن سائبر گروپ ، بھگوڑا آرمی ، اردو ٹولہ ، زربیار گینگ بالکل پاگل ہیں ، فائدہ کچھ بھی نہیں ملے گا اور اپنے روائتی احترام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے بڑے آئے ہیں سچ بولنے والے تمہیں کیا لگا تم اس گٹر سے نکلو گے اور دوسروں کو بھی نکالو گے نہیں یہاں بستر کو چھوڑ دو تو وہ تمہیں نہیں چھوڑتا میں ان سب سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ اپنی یہ سیاسی حماقتیں چھوڑ کر واپس روائتی سیاست کی طرف آجائیں اور مندرجہ بالا \” سیاسی حکمتوں \” کے استعمال پر اپنی پوری قوت مجتمع کرکے زور لگائیں۔ پھر دیکھیں کامیابی کیسے قدم چومتی ہے ابھی تک کچھ نہیں بگڑا یہ قوم جلدی بھول جاتی ہے تم دوبارہ \” جیئے بی ایل اے جوان \” بن سکتے ہو اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے والے سوداگر ناکام تھے ناکام ہیں اور ناکام ہی رہیں گے۔ (منجانب قدیم ترین دانشور ) *۔آزادی ۔۔۔۔ وہ موقع پرستی ، اجارہ داریت ، شخصیت پرستی ، من مانی ، چالبازی ، چاپلوسی ، گروہیت کی سوچ جو پہلے پاکستانی پارلیمانی طرز سیاست میں ملتی تھی وہی من و عن آزادی کے نعرے کے تڑکے کے ساتھ اس انقلابی عمل میں کیوں موجود ہے ؟ آزادی کیا ایک ذمینی چیز ہے کہ قابض فوج کے نکلنے کے بعد ہمیں نئی سیمائیں کھینچنے سے مل جائے گی ؟ یا آزادی نئے سرحدیں بنانے کے ساتھ ساتھ اس غلامانہ نفسیات سے چھٹکارے کا بھی نام ہے ؟ اگر آزادی قابض سے مستعار لئے نفسیات سے بھی آزادی کا نام ہے تو پھر اس آزادی کیلئے کوشاں انقلابی ابتک خود اس سے آزاد کیوں نہیں ؟ اگر ذرا غور کریں تو یہی بنیادی تضاد ہے۔ *۔چپ ہوں لیکن سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سوشل میڈیا پر باتیں ہونے لگی آپ نے کہا یہ غدار ہیں ، مخبر ہیں انکی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں جب بی این ایم غلام محمد بنا ، سعید یوسف نے پارٹی چھوڑ دیا آپ نے کہا یہ چند شر پسند ہیں ، آزاد خیال ہیں جب آپ سے ناراض ہوکر سینئر دوستوں نے بی این ایل ایف بنائی آپ نے کہا یہ نظم و ضبط کے خلاف تھے یہ چور تھے جب بیبگر ، سمیر ، صہیب نے ساتھ چھوڑ دیا لندن زون ختم ہوگیا آپ نے کہا بی ایس او ایک ہے یہ سب صرف بھگوڑے ہیں جب بی ایس او کے ترجمان نے استعفیٰ دیا اور پھر کئی زون باغی بن گئے آپ نے کہا یہ بیرونی قوتیں ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں یہ ان کے ایجنٹ ہیں جب ثناء آپ کے کردار سے مطمئن نا ہوکر آپ کو کئی ساتھیوں سمیت چھوڑ دیا آپ نے کہا یہ ردِ انقلابی ہیں ، یہ مجرم ہیں ، یہ ڈاکو ہیں آپ کہتے رہے میں سنتا گیا چپ رہا لیکن اب میں سوچ رہاہوں اور پوچھنا چاہتا ہوں یہ سب جو آپ کے ساتھ رہے اور آپ کو سب سے زیادہ جانتے ہیں کیا یہ سب آپ کے بارے میں غلط ہیں؟ کیا آپ غلط نہیں ہوسکتے ؟ کیوں، جو آپ کے ساتھ ہے وہ انقلابی اور جو چھوڑ کر چلا جائے وہ ایجنٹ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب سچ بول رہے ہوں اور میں آپکے عقیدت میں اندھا ؟ پھر میں نے سوچا کہ یہ سوال آپ سے پوچھوں لیکن پتہ چلا کہ ثناء نکلنے سے پہلے کئی بار آپ کے پاس سوالوں کے ساتھ آیا تھا بی ایس او کے انفارمیشن سیکریٹری کئی زون اور بیبگر ، سمیر ، صہیب بھی نکلنے سے پہلے اپنے ادارے میں خوب گڑگڑائے تھے بی این ایم سے نکلنے سے پہلے غلام محمد گروپ و سعید فیض نے بھی بہت چیخ و پکار کی تھی بی این ایل ایف بنانے سے پہلے اس کے قائد اپنی فریاد واحد قمبر تک پہنچاتے رہے یہ سب بولنے ، رونے اور گڑ گڑانے کے بعد بھی غدار اور ان سب کا قصور صرف سوال پوچھنا پھر اگر مجھے بھی سوال پوچھنے پر بھی غدار کہا گیا تو ؟ نہیں میں خود کو غدار نہیں کہلاوا سکتا میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوکر باقیوں کو ہی غدار کہنے پر اکتفاء کروں گا۔ اس لیئے اب میں پھر چپ ہوں لیکن سوچ رہا ہوں۔ *۔چلو راہ بدل کر سوچتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وسعتِ سوچ کو مزید کشادہ کرنے کیلئے کبھی کبھی روائتی سوچ سے نکل کر دوسرے رخ سے سوچنا نئی اور پوشیدہ حقائق آشکار کرسکتا ہے ، کیا پتہ یہ کسی مسئلے کے بابت ہمارا نظریہ ہی بدل دے۔ نا حق خونِ انسانی کا ضیاع شاید کسی صورت اپنا دفاع نہیں پاسکے لیکن کبھی اسرائیل بن کر سوچو تو چیزیں بہت مختلف اور دلچسپ نظر آنے لگیں گی ، \”صدیوں سے بابلیوں ، رومنوں ، مملوکوں ،بازنطینیوں، عربوں اور ترکوں کے ہاتھوں اپنے ہی زمین پر قتل ہونے کے بعد ، نازیوں اور رومنوں کے ہاتھوں دو بڑے نسل کشیوں سے گذرنے کے بعد ، ہزاروں سال دیارِ غیر میں دربدر بھٹکنے کے بعد ، جرمنی ، پولینڈ اور ویانا کے کونسنٹریشن کیمپوں میں جانوروں کی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرنے کے بعد، ہم اپنے ذہانت ، محنت اور قابلیت سے اپنے آبائی زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، صدیوں کے بعد پہچان ، آزادی اور امن سے جینے کا ہمیں موقع ملتا ہے، اور ہم اس موقع کو باقی دنیا کی طرح ضائع بھی نہیں کرتے مختصر عرصے میں ہم ان خشک صحراوں کو جنت بنادیتے ہیں لیکن ہم سے یہ موقع چھیننے کیلئے چاروں طرف عرب بس اس تاک میں ہیں کب ہم تھوڑے بھی کمزور پڑجائیں اور یہ سب ہم پر جھپٹ کر ایک بار پھر ہماری بوٹیاں نوچ لیں۔ ایسے حالت میں اگر آپ کے روزانہ کے راکٹ باری کا جواب نہیں دوں تو کیا پھر سے ایک رومن یلغار اور جرمن ہولو کاسٹ کا انتظار کرتا پھروں۔ حماس اپنے دستیاب قوت سے اسرائیل کو کچلنا چاہتا ہے اور اسرائیل اپنے دستیاب قوت سے انہیں ختم کرنا چاہتا ہے یقیناً دستیاب قوت کے توازن میں واضح فرق ہے لیکن زور تو دونوں طرف سے ایڑی چوٹی کا لگ رہا ہے اب آپ کے کوتاہی اور میرے ذہانت سے ہمارے چوٹیوں میں واضح فرق ہے تو پھر ہم اپنے اس چوٹی پر کیوں ملامت محسوس کریں؟ آخر کیوں ہم سیدروت کے پہاڑوں پر بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے طاقت کے نظاروں پر فخر محسوس نا کریں۔اب اگر میرے بقا کی جنگ اور تاریخی تسلسل سے نا واقف دنیا اس بات پر نوحہ کناں ہو اور مجھے ملامت کرے کہ کیوں ہم بچوں کے پیچھے چھپے حماسیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو کیا پھر میں اپنے آنے والے نسلوں کے بقا کو بھول کر انہیں سنوں یا یہ کہوں کہ اسرائیل اپنے میزائلوں کو استعمال کرکے اپنے بچوں کی حفاظت کررہا ہے اور حماس اپنے بچوں کو استعمال کرکے اپنے میزائلوں کی حفاظت کررہا ہے؟\”۔ ہم نے ہمیشہ عربوں کے مخصوص مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کی کوشش کی ، ایک بار اہل اسرائیل کے مفادات کو مد نظر رکھ کر سوچنے سے یقیناً نئی جہتیں کھل سکتی ہیں، اب ان دونوں پہلووں کو ملا کر سوچنے سے ہی اصل سچائی سامنے آسکتی ہے یہی سادہ الفاظ میں تحقیق کہلاتی ہے۔ اگر بلوچ سیاسی کارکنان اپنے سوچ کو وسیع کرتے ہوئے بلوچ سیاست میں موجود تضادات کو روائتی سوچ سے ہٹ کر ، پرانے بت کدوں سے نکل کر دوسرے رخ سے جانچنا شروع کردیں تو بعید نہیں کہ انہیں کڑکتے دھوپ میں اندھیری رات اور سیاہ راتوں میں چمکتی روشنی نظر آنے لگے۔ پھر بقول شاعر شاید کعبے سے بھی بت نکل آئے۔\”خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اْٹھا ظالم، کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے\”۔