تحریر: ثناء بلوچ

           ہمگام آرٹیکل          

 

کچھ دنوں قبل یوں ہی دوست کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف تھا کہ دوست نے ایک شہید سنگت کے بارے میں بات چھیڑ دی، سنگت نے باتوں ہی باتوں میں کہا “یار درد ہوتا ہے جب کوئی سنگت شہید ہو اور اس سے بھی زیادہ درد تب ہوتا ہے جب شہادت کہ بعد کچھ وجوہات کی بناء پر سنگت کا نام پارٹی سامنے نہ لا پائے، شہید اختر کی جب یاد آتھی ہے تو دل میں کافی دکھ ہوتا ہے” ـ

 

سنگت کے اس بات سے میرے دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی، دل میں ایسی کیفیت جاگ اٹھی مان لیجیئے اچانک سے ایک اونچی پہاڑ سے گھڑے میں جاگری ہو اور خود کو سنبھل نہ پا رہا ہو۔ سنگت کی ان باتوں سے میرے دل میں جستجو جاگ اٹھی کہ ہم تو صرف ایک اختر کو جانتے ہیں، اس جنگ میں نہ جانے اور کتنے اختر ہوں گے، جو آزادی کی راہ میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر چکے ہیں مگر نجانے کتنے وجوہات کی بناء پر انہیں پارٹیاں قبول نہیں کر پاتے ہیں ـ اور وہ آج تک گمنام ہو کر “گمنام شہید سرمچار” بن گئے ہیں، سوچا ان شہداء کو پارٹیاں تو مجبوریوں کی بناء پر تو سامنے نہیں لا سکتی مگر کیوں نا میں اپنی طرف سے کوشش کر کے ان شہداء پر کچھ لکھ دوں جو گمنام ہوچکے ہیں اور کوشش کروں انہیں زندہ رکھنے کی اپنے لوگوں کے دلوں میں اپنے تحریروں کے ذریعے، اور اسی سوچ میں آج میں نے قلم اٹا کر اس کی پہلی بنیاد رکھی اسی مہروان دوست کے نام سے جس کے ذکر سے یہ خیال میرے ذہن میں اٹھا، گمنام سرمچار شہید اختر کے نام۔

 

ویسے ایک ہی پارٹی میں ہونے کے باوجود میری ملاقات شہید اختر سے بحیثیت سرمچار کبھی ممکن نہ ہوسکا، مگر مجھے بخوبی یاد ہے وہ دن جب شہر میں سرگرم پارٹی کے ایک دستے کے ذمہ دار سے میری بات ہوئی اور باتوں ہی باتوں میں سنگت نے مجھے اطلاع دی ایک نئے سنگت نے پارٹی جوائن کیا ہے جو ماشاءاللہ کافی ہوشیار، محنتی اور جفاکش ہے سنگت کی باتوں سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ اس نئے سنگت کے کردار سے کافی حد تک متاثر ہے اور اس سے کافی امیدیں بھی لگائے بیٹھا ہے، سنگت کی باتوں سے میری دل میں بھی ایک اُنسیت جاگ اٹھی کہ میں بھی سنگت سے ملوں مگر پارٹی کی پابندیوں کے باعث ممکن نظر نہیں آرہا تھا، مگر سنگت نے یہ بات کہہ کر میری خواہشات پر پھول برسا دیا کہ سنگت کو کچھ چیزوں کی ٹریننگ دینی ہے جو مکران میں ممکن نہیں ہے میں اسے بھیج رہا ہوں آپ کے ہاں سنگت کی اچھی طرح سے تربیت کرکے اسے کسی اور شہر میں کام پر لگا دو کافی اچھا اور ذمہ دار ساتھی ہے بخوبی چیزوں کو سنبھال لے گا، سنگت کی باتیں سننے کے بعد میں نے فوراً ہی کہہ دیا کہ ٹھیک ہے میں ترتیب تیار رکھتا ہوں آپ سنگت کو بھیج دو، سنگت نے حامی بھرتے ہوئے کہا کہ کچھ مہینے انتظار کرو مجھے کچھ کام ہے یہ نپٹا کے سنگت کو بھیج دوں گا۔

 

ایسے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ مہینے گزر گئے میں نے تیاریاں مکمل کرلی تھی اور انتظار میں تھا کہ کب سنگت آجائے کہ ایک دن اسی دستے کے ایک اور سنگت کا فون آیا، فون اٹینڈ کرنے کے بعد سنگت نے بتایا کہ ایک واقع پیش آیا ہے ایک کاروائی کے دوران 2 سنگت زخمی ہوئے تھے جن میں سے ایک کی حالت کافی تشویشناک تھی جب کہ دوسرا سنگت کافی حد تک نارمل تھا، سنگت نے مزید بتایا کہ ہم نے ساتھیوں کو حادثے کی جگہ سے نکال لائے تھے مگر جس سنگت کی حالت تشویشناک تھی اس کو ہم نے نکالنے اور علاج کرنے کی کوشش کی مگر دو گولیاں لگی ہوئی تھیں سنگت کو جسے ہم بچا نہ پائے اور دشمن کی زیادہ سختی کے باعث ہم سنگت کے لاش کو بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاسکے باقی دوسرے ساتھیوں کو لے کر میں اس جگہ سے نکل چکا ہوں۔

 سنگت کی باتیں سن نے کے بعد میں نے انہیں پوچھا کہ کون شہید ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ سنگت اختر شہید ہوچکا ہے، سنگت نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ شہید اختر کے حوصلے اپنی عمر سے کئیں زیادہ بڑے تھے وہ آخری سانس تک مسکراتا رہا اور ہم جو شہید کی یہ حالت دیکھ کر پریشانی میں مبتلا تھے ہمیں بار بار یہ کہہ کر حوصلہ دیتا رہا کہ سنگت خود کو پریشان نہ کریں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور اسی مسکراتے چہرے کہ ساتھ آخری سانس بھر کر ہمیں جسمانی طور پر چھوڑ کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا، یہ سن کر مجھے کافی دکھ ہوا مگر بس یہ کہہ کر میں نے سنگتوں کو اجازت کردیا کہ سنگت کی شہادت قبول ہو اور آپ زیادہ فون استعمال نہ کریں اور اپنا کا خیال رکھیں۔

 

شہید اختر نے خلوص کے ساتھ اس وطن کی حفاظت میں جہد کرتے ہوئے اپنی آخری سانس تک اس مادر وطن کی خاطر صرف کردیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنا نام ان “گمنام شہید” سرمچاروں کی قطار میں درج کرکے امر ہوگیا۔