گوریلا جنگ کا تصور دنیا کی تاریخ میں بہت پرانا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگی حکمت عملی ہے جس میں معمولی وسائل کے ساتھ طاقتور دشمن کو شکست دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گوریلا جنگ کا ایک اہم اصول ہے گمنامی۔ ایک گوریلا جنگجو کے لئے گمنامی، ناپیدگی، اور پس پردہ رہنا ہی اصل طاقت ہے۔ یہ گمنامی ہی ہے جو ایک گوریلا کو طاقتور بناتی ہے اور اسے اپنے دشمن کے لئے ایک پہچان میں نہ آنے والا خطرہ بناتی ہے۔گوریلا جنگ کی بنیاد ایسی حکمت عملیوں پر رکھی گئی ہے جو محدود وسائل اور محدود افراد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کا ہنر رکھتی ہیں۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں بڑے فوجی دستے اور ساز و سامان کے بجائے تھوڑے سے لوگ، جو شدید جذبہ اور مہارت رکھتے ہوں، دشمن کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ گوریلا جنگ میں گمنامی کی اہمیت بنیادی ہے۔ ایک گوریلا سپاہی عوام کے بیچ چھپتا ہے اور اس کی شناخت ہمیشہ ایک راز ہوتی ہے۔ وہ عوام کے لئے ایک محافظ کی حیثیت سے ہوتا ہے، لیکن دشمن کے لئے ایک نا قابل تسخیر خطرہ، جبکہ گوریلا جنگ کی اصل طاقت اس کی حکمت عملی ہے، جس میں ناپیدگی اور حملے کی غیر متوقع نوعیت شامل ہے۔

انفارمیشن اور گمنامی : گوریلا جنگ میں کامیاب ہونے کے لئے انفارمیشن اور گمنامی دو ایسی چیزیں ہیں جو انتہائی ضروری ہیں۔ گوریلا جنگجو دشمن کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور اپنا کام خاموشی سے انجام دیتے ہیں۔ گوریلا کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ حملہ کرے، نقصان پہنچائے، اور دوبارہ غائب ہو جائے۔ اسی طرح بلوچستان کی گوریلا جدوجہد میں بھی گوریلا جنگ کی روایت بہت پرانی ہے۔ بلوچ قوم نے اپنی آزادی اور حقوق کے لئے ہمیشہ سے ہی گوریلا جنگ کو ایک ذریعہ بنایا ہے۔

بلوچ قوم کے ایسے کئی گمنام ہیرو ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو بلوچ قوم کی آزادی کے لئے قربان کیا، لیکن ان کی گمنامی نے انہیں ایک افسانوی مقام دے دیا۔ وہ اپنی شناخت چھپاتے ہوئے اور گمنامی کی چادر اوڑھے ہوئے بلوچ قومی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ بلوچ قوم کے یہ گمنام ہیروز نہ صرف بہادری کی عظیم مثال ہیں، بلکہ گوریلا جنگ کے اس اصول کی بھی عملی تشریح ہیں کہ ایک سچا گوریلا اپنی شناخت کو چھپاتے ہوئے اپنی جنگ کو جاری رکھتا ہے۔

ان میں سے چند عظیم گمنام ہیرو یہ ہیں، شہید امیر بخش سگار بلوچ قوم کے ایک ایسے ٔعظیم سپوت تھے جنہوں نے گمنامی میں رہ کر اپنی قوم کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ انہوں نے بلوچ قومی جدوجہد میں اس یقین کے ساتھ حصہ لیا کہ ان کی قربانی سے آنے والی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ امیر بخش سگار کی گمنامی ان کے عظیم کردار کی نشان دہی کرتی ہے، اور ان کی قربانی نے بلوچ قومی جدوجہد کو مضبوط بنایا۔شہید امیر بخش سگار کی کہانی ان کی قیادت اور گوریلا جنگ کی حکمت عملی میں ان کی مہارت کی عمدہ مثال ہے۔ وہ ایک باصلاحیت گوریلا لیڈر تھے جنہوں نے نہ صرف خود اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھا بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی گوریلا جنگ کی باریکیاں اور اصول سکھائے۔

ان کے نزدیک گوریلا جنگ کا ہر قدم نہایت اہمیت رکھتا تھا، اور ان کا عزم ہمیشہ یہی رہا کہ ہر گولی اپنے ہدف پر لگے اور کوئی بھی عمل زوال کا شکار نہ ہو۔ امیر بخش سگار کی قیادت کا انداز اور ان کا نظم و ضبط اس واقعے سے واضح ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کی غلطی پر انہیں ڈانٹ پلائی کہ گولیاں ضائع نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہر گولی کو صحیح مقام پر لگنا چاہئے۔ ان کی یہ سختی اور اصول پسندی ان کی شخصیت کا حصہ تھی اور انہوں نے کبھی بھی اپنی قیادت میں کمزوری یا غفلت برداشت نہیں کی۔ ایک اہم واقعے میں، جب ان کے ساتھیوں نے تجویز دی کہ ایک وی آئی پی اہلکار کو یرغمال بنا کر بلوچ قوم کی آواز دنیا تک پہنچائی جائے، تو امیر بخش نے اس تجویز پر جلدی اور خفیہ طور پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ کچھ دنوں بعد میڈیا میں خبر آئی کہ کوئٹہ کے ہائی سیکورٹی زون سے یو این اے کے رکن، جان سولیکی کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔

اس واقعے نے پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو ہلا کر رکھ دیا، اور انہوں نے انہیں بازیاب کرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ بعد میں جب جان سولیکی کو رہا کیا گیا، تو انہوں نے اپنے اغوا کنندگان کے بارے میں کہا کہ وہ ان سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے ان گوریلا جنگجوؤں کو اعلی تعلیم یافتہ، بااخلاق، اور انتہائی باشعور پایا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ افراد نہ صرف تاریخ اور سیاست سے واقف تھے بلکہ عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہ بیان امیر بخش سگار اور ان کی ٹیم کے اخلاقی اصولوں، علم، اور حکمت عملی کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔

شہید امیر بخش سگار کے چھوٹے بھائی شہید مجید بلوچ نے اپنی گوریلا جدوجہد میں بھی غیر معمولی مہارت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ان کی زندگی شہری گوریلا جنگ کی بہترین مثال ہے، جہاں انہوں نے ہر بار نئی حکمت عملی اور مختلف بھیس بدل کر دشمن کو حیران کر دیا۔ وہ کوئٹہ کی گلیوں میں ہمیشہ ایک نئی شناخت میں نظر آتے تھے اور اپنے دشمن کے قریب پہنچ کر اس کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔ مجید بلوچ کا شہری گوریلا جنگ میں روپ بدلنے کا فن بہت مشہور تھا۔

ان کے ساتھیوں کے مطابق، انہوں نے ایک مرتبہ ٹریفک پولیس کی وردی پہن کر دشمن کے ٹارگٹ کو ہدف بنایا۔ جب ان کا ہدف قریب آیا تو مجید نے اس پر حملہ کر کے کامیابی سے اپنا مقصد حاصل کیا اور دوبارہ منظر سے غائب ہو گئے۔ یہ واقعہ ان کی جرات، ذہانت اور بہادری کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دشمن کے خلاف کارروائی کی اور بغیر کسی شناخت کے محفوظ مقام پر واپس پہنچ گئے۔ ایک اور واقعہ میں، مجید بلوچ نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لئے مختلف بھیس اپنائے۔ کبھی وہ سائیکل رکشہ والے کے بھیس میں ہوتے، کبھی خواتین کے لباس میں برکع اوڑھے پیدل چلتے ہوئے دکھائی دیتے، اور کبھی عام شہری بن کر گلیوں میں گھومتے نظر آتے۔

ان کا مقصد ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ دشمن ان کی شناخت نہ کر سکے اور وہ بلا رکاوٹ اپنی کاروائیاں جاری رکھ سکیں۔ مجید بلوچ کا یہ منفرد انداز انہیں ایک ماہر شہری گوریلا جنگجو بناتا ہے۔ ان کی گوریلا جنگ کی حکمت عملی میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ دشمن کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کس بھیس میں، کس جگہ اور کس وقت ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کا ثبوت ہے کہ وہ گمنامی کی چادر میں لپٹے ہوئے، دشمن کو ہمیشہ دھوکہ دیتے رہے اور اپنے قوم کے لئے لازوال قربانی دی۔

شہید مجید کے شہری نیٹ ورک کے ایک اور گوریلا شہید زبیر بلوچ ایک ماہر شہری گوریلا جنگجو تھے جنہوں نے پہاڑوں میں تربیت حاصل کی اور شہروں میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ـ وہ بندوقوں کے ماہر تھے اور ہر ہدف کو کامیابی سے نشانہ بناتے تھے۔ایک موقع پر، کوئٹہ میں انہوں نے سڑک کے دوسری جانب سے ہدف کو سر میں گولی مار کر ہلاک کیا۔ان کی شہادت کے بعد، کوئٹہ میں ایک کارروائی کے دوران گولیاں ادھر ادھر لگیں تو دکانداروں نے کہا کہ پہلے والے کو لے آؤ جو سر پر مارتا تھا۔

یہ زبیر ہی تھے جو ہمیشہ سر پر نشانہ لگاتے تھے اور ان کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا تھا۔ وہ پستول کے بھی ماہر تھے۔ بلوچ قوم کے یہ گمنام ہیروز بلوچستان کے آزادی کے خواب کی تعبیر ہیں۔ ان کی گمنامی، ان کی قربانیاں، اور ان کا عزم بلوچ قومی جدوجہد کو ایک نئے مقام پر لے گئے ہیں۔ وہ خاموشی اور گمنامی میں رہتے ہوئے بلوچ قوم کے لئے ہر وہ قدم اٹھاتے رہے جو آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ ان کی مثالیں آنے والی نسلوں کے لئے سبق آموز ہیں۔ جبکہ گوریلا جنگ اور گمنامی کا فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی کامیابی صرف ظاہری فتح میں نہیں بلکہ مقصد کے لئے خلوص اور جدوجہد میں ہے۔ بلوچ قوم کے یہ گمنام ہیروز ہمیشہ کے لئے امر ہو چکے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے مقصد کو اپنی ذات پر فوقیت دی اور گمنامی میں رہتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

ان کی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ عظیم لوگ اپنی شناخت اور نمود کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ اپنی قوم کے عظیم مقصد کے لئے ہر چیز کو قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آج اگر بلوچ قوم کو آزادی کی منزل حاصل کرنی ہے، تو اسے ان گمنام ہیروز کی مثال پر چلنا ہوگا۔ وہی اصل بلوچ مارکوس ہیں جنہوں نے ثابت کر دیا کہ ایک گوریلا جنگجو کے لئے گمنامی ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ بلوچ قوم کے لئے یہ گمنام ہیرو ایک نشانِ راہ ہیں، جو ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ اپنی جدوجہد کو صرف خلوص، عزم اور گمنامی کے ساتھ جاری رکھنا ہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔