تحریر ۔ سلام سنجر

 انسانی وجود سے لیکر موجود دور تک انسانوں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں لڑائیاں لڑی ہیں کہیں کامیابی ملی ہے کہیں ناکامی کا سامنا کرکے ایسے بہت سے ریاستیں اور اقوام جو کہ دیر تک جم نہ سکے وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے یا قابضین نے انہیں اپنے اندر ہضم کر لیا ۔ لیکن جنگ آزادی کا سلسلہ رکا نہیں بلکیں اکیسویں صدی تک کئی اقوام اور ریاستیں اپنی جنگ آزادی کو جاری رکھے ہوئے جو کہ ہر جنگ آزادی میں ان حکمت عملی اور تدابیر شامل ہیں ہر قوم اپنی جغرافیائی مزاج کے مطابق قابضین سے نبردآزما ہیں ۔ جنگ آزادی کے ہزاروں حمکت علمی اور ہر دور کے نئے نئے طریقہ کار ہوتے ہیں ، ضروری نہیں کہ جس طرح ہندوستانیوں نے جنگ آزادی کے وہ حکمت علمی اور تدابیر استعمال کرکے برطانیہ سے آزادی حاصل کرکے اپنا وجود برقرار رکھ کر دنیا کے سامنے سر اٹھا کر جی رہے ہیں ، موجودہ دور کے غلام ریاستوں کے باشندے ایسا کریں وہ ایک زمانہ تھا ، دشمن کا مزاج اور اس کا قبضہ کرنے کا طریقہ الگ تھا ،لیکن ضروری ہے ہر غلام قوم اپنی جغرافیائی مزاج ، قوم سوچ ، دستیاب وسائل ، نئے دور کے نئے تجربات اور دشمن کی چالوں کو سمجھ کر اپنی کھوئی ہوئی آزادی کے لیے لڑ سکتا ہے ۔

ضرورت یہ ہے آزادی کی لڑائی میں، روایتی جنگوں کے اصول اکثر تحلیل ہو جاتے ہیں، جس کی جگہ گوریلا کی غیر متوقع حکمت عملیاں لے لیتی ہیں ۔ جبکہ ایک باقاعدہ فوج کے برعکس، گوریلا موافقت، وسائل اور درستگی پر پروان چڑھتے ہیں۔ ان کا مقصد بڑے پیمانے پر لڑائیوں میں مشغول ہونا نہیں ہے بلکہ حسابی تاثیر کے ساتھ حملہ کرنا ہوتا ہے، قابضین اور ظالموں کو غیر مستحکم اور غیر یقینی کا شکار بنا کر ان کو ما کر نکلتا ہے، بجائے کو وہ خود مارا جائے ۔

 ایک گوریلا خاص کر بلوچ سرمچار کے لیے، بقا ایک ہتھیار ہے، اور ہر دن زندہ رہنا دشمن کو کمزور کرنے کا ایک اور موقع ہے۔ ہر حملہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے، ہر تحریک آزادی کی الگ اسٹریٹجک ہوتی ہے۔ گوریلا کم سے کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ اثر میں تبدیل کرنے کے اصول کو اپنا کر خود زندہ رہ کر دشمن کو دن بہ دن کمزور کرتا جائے گا ۔

 جنگ آزادی میں ایک گوریلا کے لیے، مرنے سے زیادہ مارنا صرف ایک حکمت عملی نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ یہ مقصد کے ساتھ ان کی وابستگی، بڑی تصویر پر ان کی توجہ کی عکاسی کرتا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کردار روایتی فوج کی طاقت کا عکس بنانا نہیں ہے بلکہ اسے پیچھے چھوڑنا، اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا اور اس کی گرفت کو ختم کرنا ہے ۔

 آزادی کے جنگجو گوریلا جنگ کا راستہ منتخب کرتے ہیں کیونکہ وہ صرف جنگجو نہیں ہوتے۔ وہ امید، لچک اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ ان کی جنگ فتح کے لیے نہیں ہے بلکہ آزادی کے لیے ہے ۔ ایک ایسا مقصد جس کے لیے اتنی ہی ہمت کی ضرورت ہے۔ جو کہ وہ خود کو بچا سکے ۔

گزشتہ کئی سالوں سے ہم دیکھ رہے کہ بلوچ گوریلا مارنے کے بجائے مارے جا رہے ہیں یا مروائے جا رہے ہیں جب ایک ریگولر آرمی بڑی تعداد اور بڑی بڑی ہتھیاروں کے ساتھ جنگ میں مرنے کے بجائے مارنا چاہتا ہے تو بلوچ سرمچار ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ کیا صرف شہادت ہی آزادی تک رسائی کا ذریعہ ہے؟

سچ ہے کہ بلوچ موت سے نہیں ڈرتا لیکن یہ سوچ کر خود کو موت کے حوالے کرنا دانائی نہیں ہے بلکہ ایک زوال ہے ایک نقصان ہے ۔ ایک کمزوری اور حماقت ہے ۔

تاریخ میں بلوچوں نے سینکڑوں جنگیں لڑی ہیں لیکن حکمت عملی کے تحت خود کو بچا کر دشمن پر پے در پے وار کئیے تب ہی تو آج ہم ان کی نئی نسل زندہ ہیں اگر وہ مارنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتے تو شاید آج ہمارا وجود باقی نہیں رہتا اسی لئیے نہ صرف ہر جنگ میں بلکہ جنگ آزادی میں بھی بقا اور بچاؤ کامیابی ہے ، کیونکہ جنگ آزادی کے متوالے اکثر و بیشتر قلیل تعداد میں ہوتے ہیں ان کی بقاء لازمی ہے ۔

اگر آپ یہ سوچ کر آزادی کی جنگ میں شامل ہوتے ہیں کہ بقا مزاحمت ہے، اور بچاؤ فتح ہے تو لازماً جیت آپ کی ہوگی ۔ اور دشمن گھنٹے ٹیک دے گا ۔

 ایک آزادی پسند کی بقا اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آزادی کے شعلے جلتے رہیں۔ زندہ رہنا اور خود کو بچانا ظلم سے بچاؤ اور امید کی حفاظت کرنا ہے۔

جبکہ فتح تباہی میں نہیں بلکہ جان بچانے میں مضمر ہے۔ آزادی کی جنگ میں مرنا لازمی امر ہے شہادت ایک رتبہ ہے لیکن ایک کمزور قوم کے لئے سب سے بڑی اور اہم بات خود کو دشمن سے محفوظ کرکے اپنے سے دسیوں گنا دشمن کو تباہ کرکے رہنا ایک حکمت عملی ہے ۔

آزادی خود ایک بچاؤ ایک بقا ہے ایک زندگی ہے تو اس کے لئیے مارنا چاہیے کیونکہ سرمچار تعدا میں دشمن کے مقابل آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔

اگر ہر جان بچائی گئی تو جیت کے قریب ایک قدم ہے۔ اور اس قدم کو تب ہی مضبوط کیا جائے گا جب نہ صرف آپ قلیل تعداد میں رہ کر خود کی بچاؤ کرتے ہیں بلکہ اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی محفوظ رکھنے کی ہمت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ لڑائی میں بقا پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔ یہ حتمی فتح کے لئے ایک بہترین حکمت عملی ہے ۔ یہ سوچنا ہوگا کہ آزادی کی جنگ صرف میدان جنگ میں نہیں بلکہ بقا اور بچاؤ کے ہر عمل میں جیتی جاتی ہے۔ کیونکہ زندہ رہنا ایک اور دن لڑنا ہے آزادی کی جنگ کو مضبوط کرتی ہے۔

اس کے علاوہ آزادی کی جنگ میں کامیابی ہمیشہ دشمن کے گرنے سے نہیں بلکہ مظلوموں کی برداشت سے ناپی جاتی ہے۔ بقا ایک انحراف کا عمل ہے، ظلم کی زنجیروں میں جھکنے سے انکار کا عمل ہے، ہر روز ایک آزادی پسند کی زندگی ظالم کی طاقت پر ایک ضرب ہے، یہ بیان کہ مزاحمت کے جذبے کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔

 بچاؤ بھی اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ افراتفری کے درمیان زندگی بچانا امید کو بچانا ہے، مظلوموں کی اجتماعی خواہش کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ جنگ صرف جنگیں جیتنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ انسانیت اور آزادی کے جوہر کی حفاظت کے بارے میں ہے ۔

 اس لڑائی میں، بقا اور بچاؤ حکمت عملی سے بڑھ کر ہیں ، کیونکہ فتح حاصل کرنا خود ایک بقا ہے ۔ جنگجو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جدوجہد جاری رہے، آزادی کے خواب کو زندہ رکھا جائے، اور ماضی کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں ۔ حقیقی کامیابی تباہی میں نہیں بلکہ ایک منصفانہ مقصد کے لیے لڑنے والوں کی زندگی اور عزت کو بچانے میں ہے ۔

آخر میں اس بات کو یہاں تحریر کروں جو کہ کامریڈ شہید کمبر چاکر نے کہا تھا کہ ” ہمیں شہادت پر فخر ہے لیکن زندہ رہ کر جدو جہد کرنا تحریک آزادی کو مزید ایندھ

ن فراہم کرے گی”