( ہمگام کالم )
پاکستانی قبضے سے لیکر آج تک کی تاریخ میں بلوچ مزاحمت کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ یہ مزاحمت سیاسی اور مسلح دونوں صورتوں میں دشمن فوج کو ہمیشہ سے کھٹکتی رہی ہے اور دشمن کو ہمیشہ سے یہ اندازہ رہا ہوگا کہ مرحوم نواب خیر بخش مری اور ان کے فکری ساتھی اس آگ کو کبھی بھی مکمل ٹھنڈا نہیں ہونے دینگے، کیوں کہ نواب صاحب اور ان کے فکری ساتھیوں نے دشمن کے وجود کو ایک بالادست طاقت سمجھ کر سمجھوتا کرنے کا کبھی بھی نہیں سوچھا، چونکہ کسی بھی تحریک کے اتار چڑھاؤ عالمی اور علاقائی سیاسی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے اثر انداز ہوتے ہیں تو ٹھیک اسی طرح بلوچ قومی آزادی کی تحریک نے بھی یہ مراحل دیکھے اور ان سے اثر انداز بھی ہوتا رہا ہے۔
ایک محفل میں نواب صاحب فرماتے ہیں کہ انگریزوں کے قبضے کے دوران کچھ مری بلوچوں نے دشمن فوج پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اور اس حملے کے وقت کا انتخاب رات کی تاریکی ٹھہری یوں تمام جنگجو اکھٹے ہوئے اور دشمن پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوئے۔ جب ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں تو سب نے بیک وقت دشمن کو للکارتے ہوئے ان کے قلعے کی طرف آگے بڑھے ، انگریز مری بلوچ حملہ آوروں کی حملہ کے وقت چوکنا ہوگئے ،جس کی وجہ سے وہ حملہ ناکامی اور جانی نقصان کی صورت میں سامنے آیا، آگے وہ کہتے ہیں کہ حملہ آوروں نے رات کی تاریکی کا تو انتخاب کیا ،مگر اس تاریکی اور دشمن کی بے خبری کا کتنا فائدہ اٹھایا؟ یہ گوریلا جنگی اصول اور حکمت عملی کی عدم موجودگی کی طرف ایک واضح نشان ہے جہاں سادگی اور لاشعوری کی صورت ہونے والے نقصان کا ہم نشانہ بنے اور اگر اسی طرح روایتی انداز میں چیزوں کو آگے لیجانے کی کوشش کی گئی تو اس سے ہمیشہ نقصان ہی ہوتا رہے گا ۔
بطور ایک مزاحمتی مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے شروع دن سے ہی بلوچ قومی آزادی کی جنگ کو سائنسی انداز میں آگے لے جانے کی حکمت عملی مرتب کی، جہاں سب سے زیادہ کوشش ماضی کی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی لائحہ عمل طے کرنے کی بنیاد رکھی گئی، اور یہی کوشش کی گئی کہ جو روایتی و قبائلی انداز مزاحمت تھا وہ اس طرح سے نتیجہ خیز اور کامیاب نہیں ہے لہٰذا کمانڈ کونسل کا انتخاب اور ذمہ داریوں کا تعین مختلف انداز میں رکھا گیا۔ اس حکمت عملی کے تحت بلوچ لبریشن آرمی نے بطور ایک مزاحمتی تنظیم بہت کامیاب اور دشمن کے لئے نقصان دہ کاروائیاں کیں جن کی ویڈیوز انٹرنیٹ کے زریعئے سوشل میڈیا میں شائع ہوتی رہی ہیں جن کو دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گوریلوں کی تربیت یافتہ کھیپ بلوچ قومی آزادی کو میسر ہے جنہوں نے ڈسپلن اور گوریلا جنگی اصولوں کے عین مطابق مزاحمت کو آگے بڑھایا جس سے بلوچ عوام میں بلوچ لبریشن آرمی کو اعلی درجے کا اعتماد ملا۔
مسلح مزاحمت اور جنگ میں دشمن کی دکھتی رگ کا انتخاب سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اور جہاں وہ اپنی طاقت اور گرفت دکھانے کی کوشش کرتا ہے وہیں پر ہی اگر اس کو ضرب پڑے تو وہ سب سے زیادہ تکلیف دہ اور موثر ہوتا ہے اور اگر ہم بلوچ لبریشن آرمی کی کاروائیوں کو مدنظر رکھ کراسی تناظر میں اس قومی تنظیم کی کاروائیوں کو دیکھیں تو ایک چیز جو واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس وقت پاکستان کی سب سے زیادہ فوکس اور توجہ گوادر پر ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں بی ایل اے کی طرف سے دشمن پر گوادر میں پے در پے کامیاب حملے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی نے دشمن کی دکھتی رگ پر ہی وار کیا ہے۔ پاکستان چین سمیت دیگر سرمایہ داروں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ آپ کا سرمایہ پاکستان خصوصاَ مقبوضہ بلوچستان میں محفوظ ہے ایسے میں بلوچ لبریشن آرمی کی گوادر میں کامیاب کاروائیاں پوری دنیا میں یہ پیغام پہنچانے کے لئے کافی ہیں، کہ بلوچ سرمچار بلوچ قوم کی مرضی کے بغیر دشمن اور قابض کے کسی بھی منصوبے کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس صلاحیت کو بروے کار لاکر دشمن کے مذموم مقاصد کی تکمیل کو ناکام کرے گی۔
ہائی فریکوینسی کے فعال ریڈار پر حملہ اور اس کی تباہی ہو یا نیوی و کوسٹ گارڈ پر کامیاب حملے ، سی پیک کے منصوبوں کو نشانا بنانا غرض یہ کہ بی ایل اے نے مزاحمت، حکمت عملی اور گوریلا اصولوں کے عین مطابق گوادر میں دشمن کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ایک طرف دشمن ہر طرح سے اس کوشش تگ و دو میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے عالمی رائے عامہ اور سرمایہ کاروں کو اس بات پر قائل کیا جاسکے کہ بلوچستان میں مزاحمت دم تھوڑ چکی ہے اور قابض فوج نے تمام تر صورتحال پر قابو پالیا ہے لیکن عین اس وقت بلوچ لبریشن آرمی کے کامیاب حملہ اس تمام تر صورتحال کو یکسر بدل دیتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایشئین پارلیمنٹری اسمبلی کا تین روزہ کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی تھی جس کو اس سازش اور مخصوص حکمت عملی کے تحت گوادر میں رکھا گیا تاکہ یہ یقین دلایا جا سکے کہ گوادر ایک محفوظ تجارتی مرکز ہے مگر اسی دوران بی ایل اے کا ایسا کامیاب حملہ جس نے مقامی خبر رساں ادارے سمیت عالمی معتبر میڈیا ہاؤسز کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی جو کہ یقیناَ قابل تحسین ہے جہاں سیکورٹی کا انتہائی سخت انتظام ہونے کے باوجود بی ایل اے کے جانباز ساتھی اپنی کامیاب حکمت عملی سے دشمن کے تمام خوش فہمیوں کوخاک میں ملا دیتے ہیں۔ کہتے ہیں سرمایہ دار اس موسمی پرندے کی مانند ہوتی ہیں جو گولی کی آواز سن کر علاقہ چھوڑ دیتےہیں اس بے یقینی کی صورت حال میں تو کوئی بھی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لانے سے پہلے ہزار بار ضرور سوچھے گا۔ یہاں پر وقت اور مقام کا جس طریقے سے انتخاب کیا گیا وہ ایک منظم اور فعال تنظیم ہی کرسکتی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی قومی آزادی کی جنگ میں اس وقت وہ واحد تنظیم ہے جس پر دشمن اور دوست نما دشمن نیزے برسانے کی حتی الوسع کوشش کررہے ہیں اور ہر طرف سے سازشی عناصر اس تنظیم کو برداشت کرنے سے قاصر ہے، جو ظاہری صورت ہے وہ اس تنظیم کے اندر اصول اور ڈسپلن کی پاسداری ہے۔
بی ایل اے نے حالیہ جنگ میں ہمیشہ ایک مدر آرگنائزیشن کا کردار ادا کیا اور اسی کردار کو لیکر بلوچستان کے اندر دیگر مسلح تنظیموں کو مدد و کمک فراہم کی، یہاں تک کہ ان کو وسائل اور افرادی قوت کی فراہمی کی ذمہ داری بھی بی ایل اے ہی رہی ہے اب جو تنظیم صفر سے شروع کر کے آج تک کے نتائج حاصل کرسکتی ہے وہ اس کو برقرار بھی رکھ سکتی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی بلوچ قوم کی ملکیت ہے اور اس میں سینکڑوں، ہزاروں نوجوانوں کی خون شامل ہے جنہوں نے اس کو اپنے خون جگر سے سینچھا ہے اور اب تک اس کو کامیابی سے قائم رکھے ہوئے ہے۔
ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو!
ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے۔