کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ لاپتہ افراد اور شہداء کیلئے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ پر پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین اور علی وزیر سمیت کئی رہنماؤں کی آمد۔

منظور پشتین کی استقبال میں وی بی ایم پی کے رہنماء نصراللہ بلوچ نے منظور احمد پشتین کو بلوچی دستار پہنایا اور انہیں خوش آمدید کیا۔

منظور احمد پشتین کی آمد کے موقعے پر پی ٹی ایم کے رہنماء و کارکنان سمیت لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جہاں انہوں نے پروقار تقریر کی۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتی نے کہا کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ تقریب پریس کلب کے سامنے ہے لیکن مجھے کوئی پریس کلب دکھائی نہیں دیتا یا تو یہاں کوئی پریس کلب ہے ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پریس کلب کی زمے داری ہوتی کہ لوگوں کے مسائل پیش کرے اور عوام کے مسائل اعلی حکام کے سامنے اجاگر کرے لیکن افسوس میڈیا پر وطن فروشوں اور فوجی افسروں کی ایک دوسروں کے ساتھ پکھوڑے کے پلیٹوی کی محفلیں نشر ہوتی ہیں لیکن ان مظلوموں کی آواز کیلئے کوئی جگہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا بلوچستان میں بلوچوں کو مارنے کیلئے ڈیتھ اسکواڑ اور فوجی افسروں کے پروگرام اور ڈرامے باز مشقوں کو دکھا سکتی ہے لیکن ان مظلوموں کی آواز کو کوریج نہیں دے سکتی۔

انہوں نے کہا کہ کیا یہاں پر رہنے والے صحافیوں میں اتنی بھی جرت نہیں کہ ان ماوں اور بہنوں کی آواز کو اپنے الفاظ میں بیاں کرسکیں؟ یہاں کوئی میڈیا ہے؟ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ریاست نہیں استعماری ریاست ہے، استعماری ریاست میں قانون کی کوئی حق نہیں، انصاف نہیں ملتا، زبان کو اہمیت نہیں دی جاتی، وسائل پر حق نہیں ملتا اور ناہی انکی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے منصوبہ بندیاں ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ میں بلوچستان کیلئے پانچ سو یا چھ سو ارب روپیوں کا زکر کیا جاتا ہے لیکن یہ سب وطن فروشوں کیلئے ہوتے ہیں عوامی مسائل حل کرنے کیلئے نہیں۔ وہ پیسے چند لوگوں کو خوش کرنے کیلئے ہوتے تاکہ وہ انکے لیئے مزید وطن کی دلالی انکے لیے کرسکیں۔ اگر انکو عوام کی فکر ہوتی تو یہ مائیں اور بہنیں عرصے سے یہاں رہی ہیں انکو کیوں ان ماوں کی فکر نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ چند ہفتہ قبل پنجاب میں جربیل کے گھر کا ایک مور غائب ہوا، وہ مور بازیاب بھی ہوا اور اسکو غائب کرنے والا بھی پکڑا گیا لیکن ہزاروں بلوچ اور پشتونوں کو لاپتہ کرنے والے آج بھی گرفتار نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ آپکے ہزاروں ماوں اور بہنوں کی آنسووں اور ہزاروں لاپتہ زندہ انسانوں کی قدر انکو نہیں ہے لیکن ایک مور کی ہے کیونکہ وہ مور جرنیل کا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بلوچ اور پشتون کیلئے فوجی آپریشن ہوتے ہیں، پورے علاقے ملیٹرائز ہیں، ہر جگہ فوجی چیک پوسٹ اور قلعے ہیں یہ سب کچھ اس سرزمین پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کیلئے ہے ناکہ ہمارے مسائل کے حل کیلئے ہیں۔ وہ جنگیں یہاں ہمارے لیے نہیں لڑتے بلکہ یہ انکے اپنے منصوبے، اپنے مفادات ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے یہ سب کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم احتجاج کیوں کرتے ہیں یہ احتجاج اس لیئے ضروری ہے کہ اگر یہ احتجاج نا ہو تو وہ اپنا یکطرفہ بیانیہ پھیلائےگا پھر اسکا ظلم، جبر، جھوٹ اور ڈرامے کسی کو نظر نہیں آئے گا۔ کسی بھی احتجاج سے ہم کچھ ثابت تو نہیں کرسکتے لیکن اپنی مظلومیت ضرور ثابت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ یہاں آئے انہوں نے مونچھیں مروڈ کر بہادری دکھائی لیکن ایک بھی لاپتہ افراد کو نہیں لا سکا آپکی پہنچ وہاں تک ہے جہاں فوج آپکو اجازت دے اس سے زیادہ آپ کچھ نہیں ہو۔ لوگوں کو امید دیکر وعدہ کرتے ہو لیکن کچھ نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین ماہ قبل ضلع خیبر میں تین چار خاندان کو بتایا گیا کہ آپکے لاپتہ افراد گھر آنے والے ہیں انہوں نے چراغاں کیا اور کپڑے خریدے لیکن کچھ نہیں۔ اسی طرح لاپتہ افراد کے کیموں میں آکر وعدے کرکے امیدیں دیکر کچھ نہیں کرتے ہو یہ بھی ایک ظلم ہے۔

انہوں نے کہا کی اقتدار سے قبل اپوزیشن میں مریم نواز نے ان ماوں اور بہنوں کے ساتھ ایک ایسا پوز بنایا کہ گویا انکو غم ہے لیکن آج اسکی حکومت ہے لیکن نا انکو بلوچ یاد ہے اور نا ہی پشتون۔ اسی لیے اپنے تقاریر میں کہتا ہوں کہ بلوچ اور پشتون لاہور کے لڑائیوں میں خود کو مصروف نا رکھیں وہاں کوئی بھی حکومت ہو آپ کیلئے سب ایک جیسے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کے ظلم و جبر کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا حیات بلوچ کو ماں اور باپ کے سامنے شہید کیا گیا، پشتون بیلٹ میں جو ظلم و جبر ہوا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے وہاں لینڈ مائن بوئے گئے ہیں، روز چھوڑے بچے اسکا شکار بن جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پرسوں ہی دو بچیاں وہاں لینڈ مائن کا شکار ہوئیں جنکی تصاویر میں نے شیئر کی جنکی منہ سے خون نکل رہا تھا اور وہ شہید ہوئیں یہ سب فوج کے لگائے گئے ہیں۔ یہ ظالم ریاست ہے جابر ریاست ہے لیکن میں قسمیہ کہتا ہوں یہ انتہائی ڈر پوک ریاست ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ظالم، جابر اور بزدل ریاست کو گرانے کیلئے ایک بڑی جسامد بنانی پڑے گی وہ ہے “قومی اتحاد” عوام کا اٹھنا۔ انکے پاس ٹینک ہے، جہازیں ہیں، فوج ہے، مختلف ادارے ہیں اور دنیا کی پشت پناہی ہے لیکن آپکے پاس اللہ کے سوا آپکی قوم ہے جس کو متحد اور منظم کرکے مذاہمت کریں پھر دیکھتے ہیں کہ انکی حیثیت کیا ہے اور انکا بس کتنا چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم محکوم قوم ضرور ہیں لیکن ایک غیرت مند قوم ہیں بس ایک کمزوری ہے کہ ہم تقسیم ہیں انہوں نے ہمیں زہنی طور ہر سیاست، میڈیا، سرکاری بیامات،رشوتوں اور دیگر آلات سے منتشر کیا ہے۔ اس انتشار سے اپنی قوم کو بچانے کیلئے سیاسی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ظالم اور مظلوم کی اس لڑائی میں ہم آپکے ساتھ ہیں اور ہم بلکل واضع بلوچ قوم کے ساتھ ہیں اور خوش قسمتی یہی ہے کہ ہمارا اور آپکا دشمن بھی ایک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح سندھیوں کے بھی مسائل ہیں، گلگتیوں کے بھی ہیں اسی طرح ہزارہ کے مسائل ہیں اور سرائیکی بیلٹ پر بھی مسائل ہیں ان پر مل بیٹھ کر ایک ترکیب اپنائیں گے اور مشترکہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔