کوہلو(اسٹاف رپورٹر)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین چنگیز بلوچ، وائس چیئرمین جینئد بلوچ، سیکرٹری جنرل اورنگزیب بلوچ ، جوائنٹ سیکرٹری شیر باز بلوچ،مرکزی کمیٹی کے ممبر نصیر بلوچ،کوہلو زون کے رہنما نذر بلوچ کا ڈسٹرکٹ پریس کلب کوہلو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم فرید بلوچ کی جبری گمشدگی و گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ہماری دھرتی کے مسلسل استحصال کے باوجود ہمیں تعلیم حاصل کرنے کا حق تک حاصل نہیں اور بلوچ نوجوان تعلیمی اداروں میں محفوظ ہے اور نہ گھر میں بلوچستان کی موجودہ صورتحال ظلم و زیادتی کی ایک بھیانک ترین مثال ہے جہاں آئے روز ظلم و زیادتی کی نئی مثالیں قائم کی جا رہی ہیں بلوچ آج مجموعی طور پر سیاسی اور معاشی قتل عام اور بلوچستان ملک کو بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ جنگوں کا گھڑ بن گیا ہے بلوچ عورتوں اور طلباء کی جبری گمشدوں میں اضافہ تعلیم،صحت، روزگار اور تحفظ، جیسی بنیادی ضرورت زندگی سے محروم ہیں کوہلو کی عوام جو دہائیوں سے بدترین جبر کا شکار رہی ہے 21ویں صدی میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ہسپتال کی بلڈنگ ہے جہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں اور سکول اور کالج کے بڑے بورڈز ہیں لیکن افسوس کہ جہاں تعلیم فقط نام کی ہے گرلز کالج کے نام پر اربوں روپے لوٹے گئے لیکن آج بھی ایک کھوکھلی عمارت کے علاوہ کچھ بھی نہیں اس پر ظلم یہ کہ محدود تعلیمی انفراسٹرکچر کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا سکولوں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے تدریس عمل کے بجائے بیٹھکوں اور رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا اور کوہلو کے واحد پبلک لائبریری کو ضلعی چیئرمین کا دفتر بنا دیا گیا جو کہ قوتوں کے لیے شرمندگی کا مقام ہے پچھلے پانچ سالہ حکومتی دور میں جہاں وزیر تعلیم کا تعلق بھی کوہلو سے رہا ہے وہاں کی تعلیمی زبو حالی بحث افسوس ہے دوسری جانب ماڑی گیس پروجیکٹ بلوچ دھرتی کے بے دریغ لوٹ مار کا ایک نیا طریقہ ہے جو بلین ڈالرز کی وسائل لوٹ کر لے جائے گی اور بدلے میں عام عوام اس کے ثمرات سے محروم ہی رہے گا ترقی کی کھوکلے دعووں کے پیچھے یہ پروجیکٹ استصال میں نیا اضافہ کر رہے ہیں جس سے بلوچستان کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور ہماری غلامی میں مزید تقویت کا باعث بن گے ان پروجیکٹس کی مدد سے ضلع میں اب تک کوئی مرکز صحت اور تدریسی عمارت کی تعمیر نہیں ہوئی جس طرح سوئی کے قریب ترین آبادیوں میں گیس کی سہولت میسر نہیں مگر دوسری جانب انڈین بارڈر کے ساتھ آبادیاں دنیا کے سستے ترین ریٹس پر گیس کی سہولیات سے استفادہ حاصل کر رہی ہیں کوہلو میں زباں بندی اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے ایک طرف حکومتی دھونس دھمکیاں ہیں تو دوسری طرف وڈیرہ شاہی کی بدمعاشی ہے جو ظلم و زیادتی کو پردہ فراہم کرتی ہیں ایسے میں عام عوام کی آواز اور امنگوں کا اظہار و نمائندگی ممکن نہیں اخر میں بلوچ سٹوڈنٹ ارگنائزیشن کے کا کہنا تھا کہ ہم مقتدرہ قوتوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کوہلو میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے فوری طور پر ڈگری کالج سمیت سکولوں کے مسائل حل کیے جائیں اور گرلز ڈگری کالج کو بحال کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ ہی لائبریری کو ضلع انتظامیہ کے قبضے سے چھڑا کر عام عوام کے لیے کھول دیا جائے بصورت دیگر ہم بھرپور عوامی تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے ۔