بلوچ کیلئے ہر شب ایک نیا ہنگامہ اور ہر روز ایک نئی آزمائش ہے، اجتماعیت سے زیادہ جب شخصیات نرگسیت کے ہاتھوں مجبور گروہیت کو زیادہ توجہ دے رہے ہوں تو یہ عمل پوری قوم کے لیے آزمائش بن جاتا ہے۔

جذبات، ہیجان، انتقام، نرگسیت اور خود پسندی یہ سب صفات انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم کر دیتے ہیں۔

بلوچ قومی تحریکِ آزادی آج کن مشکلات و مصائب کا شکار ہے شاید یہ ایک طبقے کیلئے نئی بات ہو لیکن جن لوگوں کو قومی تحریک کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ ہے وہ ان مشکلات کو کئی سال پہلے آشکار کرچکے ہیں جیسا کہ سنگت حیربیار مری نے کئی سال پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ “لیڈرشپ کے سطح پر اختلافات جنم لے چکی ہیں اگر بروقت ان کا تدارک نہیں کیا گیا تو بلوچ قومی تحریک نا ختم ہونے والی مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے۔ “

کچھ لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ 2014 کو سوشل میڈیا پر وقوع پزیر ایک ایسا عمل جس سے بلوچ قومی تحریک کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ،ہوسکتا ہے کچھ حد تک ہوا ایسا، لیکن ہم اس عمل کے دوسرے رخ سے قطعی پہلو تہی کررہے ہیں کہ اس عمل سے کچھ دوستوں نے ان مشکلات و پیچیدگیوں کی نشاندہی کی تھی جن سے آج بلوچ قومی تحریک کئی مسائل کا شکار ہوچکا ہے۔

جانے یا انجانے ھم شتر مرغ کی طرح اپنا گردن زمیں بوس کرکے اپنے ارد گرد ہر چیز سے منہ موڑ رہے ہوتے ہیں لیکن پیدا شدہ ہر مسئلہ وقت کے ساتھ رُدوم لیکر آتش فشاں بن جاتی ہے ۔باشعور لوگوں کیلئے ان مسائل کا حل ڈھونڈنا اور ان کا تدارک کرنا لازمی امر بن جاتا ہے اور لاشعور و گروہیت کے شکار لوگ ان مسائل کو ہر طرح نظر انداز کررہے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اجتماعیت سے زیادہ اپنے گروہی مفادات عزیر ہوتی ہیں۔

یہی وہ سکنات و حرکات ہیں جس سے بلوچ قومی تحریکِ آزادی ہر روز تماشوں کا شکار ہے۔ بلوچ سیاست و مزاحمت کے حالیہ چند ادوار کو دیکھا جائے اور اُس پر تجزیہ کیا جائے تو چوبیس سالہ اس رواں جدوجہد کے دوران جب سے اداروں کی تقدس کی پامالیت کے بعد جس طرح شخصی اجارہ داریاں قائم کی گئی ہیں جس سے اس تحریک پر ہر لمحہ کوئی اٹھ کر شب خون مارنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے ۔اس منظرنامے میں کئی کلاکار پیدا ہوچکی ہیں جو آئے روز بلوچ نوجوانوں کے جذبات سے کھیل کر اپنے اہداف حاصل کررہے ہیں۔

مرزا غالب ایک ماہر ادیب اور شاعر تھے انہوں نے ایسے کلاکاری کو ایک دیسی مصرعے میں یوں سدا بہار بنا دیا تھا کہ کہتے ہیں ”ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے” یہی وہ تماشے ہیں جن سے بلوچ قومی تحریک کے اندر صرف وقتی صورت میں زندہ رہنے کی تاویلیں تلاش کی جارہی ہیں، جی ہاں آج چند قوتوں کی خودساختہ خدائی کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف مندریں، مسجدیں اور گرجا گھر تعمیر کئے جارہے ہیں جہاں اندھی تقلید کے ساتھ ساتھ جذباتی بنیاد پر عام بلوچ نوجوان کے احساسات سے کھیل کر انہیں اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھانے کے لئے نت نئے حربے کارمرز کئے جارہے ہیں۔

نرگسیت کے شکار ان قوتوں نے سب سے پہلے بی ایس او آزاد، پھر بی این ایم پھر بی ایل ایف، بی ایل اے، بی آر اے بی این اے کو تہہ و بالا کیا جب تشنگی ختم نہ ہوئی تو بساک جیسے غیرجانبدار طلباء تنظیموں کے اندر اپنے گند شامل کرنا شروع کیا۔ ایک وقت وہ بھی دو لخت ہوا، یہاں رکنے کا نام نہ لیا گیا پھر بی وائی سی پر چڑھائی کی گئی، اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی پر اُن کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں اب دیکھنا ہوگا کہ بدمست ہونٹ کس کروٹ بیٹھے گی۔

کہتے ہیں کہ اجتماعیت سے زیادہ جب کسی تحریک پر فردی اور شخصی اجارہ داری قائم ہو تو ادارے مضبوط نہیں بلکہ بکھر جاتی ہیں اور شخصیات اپنا ہدف حاصل کرکے اس رواں تحریک کو ناقابل تلافی نقصانات کا شکار بنا دیتی ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ماما قدیر جیسے کلاکار امریکہ گئے تھے بانک فرزانہ کیساتھ جب فرزانہ نے وہاں اسائیلم لی اور ماما قدیر کسی بھی سبب بلوچستان واپس آگئے تو انہوں نے سنگت حیربیار کے خلاف اُن قوتوں کے گھناؤنی سازش کا شکار ہوکر ایک پریس کانفرنس کیا، اس کے بعد جس طرح ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا سنگت حیربیار کے خلاف سازشوں کا ، یہ لوگ جس انداز سے سنگت حیربیار کے خلاف محاذ کھولے مورچہ زن ہیں اُس سے یہ ضرور ہے کہ شیر کی قلابازیاں بازیچہ اطفال ثابت ہوتی ہیں اور سرکسی تیراندازی میں تیر اپنے ہدف پر لگتا ضرور دکھائی دیتا ہے مگر اسے کسی طرح کا نقصان ہر گز نہیں پہنچاتا۔ بالکل اسی طرح وقتی صورت میں یہ “حضراتِ انقلاب” اپنے خود ساختہ وجود پر فخر کررہے ہیں لیکن پائیدار سیاسی عمل اور مستقبل کی international رسہ کشی پر ان کے وجود اس ہوا کے جھونکے کی مانند ہے جو لمحہ بھر رفو چکر ہوجاتا ہے لیکن اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا۔

لیکن آفرین سنگت پر کہ چلتے گئے جدوجہد کرتے گئے ہمیشہ ان سازشوں کو آشکار کرتے گئے، غلاظتوں کی نشاندہی کرتے رہے پر بلوچ قومی سوال اور تحریک کی تقدسیت پر کبھی بھی سودا بازی نہیں کی۔ سنگت حیربیار کا پائیدار سیاسی عمل، سیاسی بصیرت Long Term اندازِ سیاست یہ ثابت کرتا ہے کہ اُن میں لیڈرشپ کی Abilities ہیں ۔

حقیقی لیڈر شپ کی نشانی ہے کہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ Political Mobilisation کا سلسلہ نا رک پائے، سیاسی بصیرت کے ساتھ عام کارکن کی سیاسی تربیت اور انہیں اس قابل بنانے کے لئے انہیں وہ حوصلہ فراہم کرنا کہ آگے جاکر وہ لیڈر بن پائیں یا قیادت کے اہل ہوپائیں، گو کہ جذبات کے سہارے یہ سیاسی کلاکار سنگت حیربیار کو تنہا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پائیدار عمل میں تنہائی ان سیاسی قوتوں کا مقدر ہے جس کا مثال یہ ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر ماما قدیر کا ایک ویڈیو بیان نظر سے گزرا جس میں وہ بلیک میلانہ حربہ استعمال کرکے کچھ حقائق کو آشکار کرنے کی اور بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز سے اپنے استعفے کی بات کررہے ہیں۔

یقیناً یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن جس طرح حالات دکھائی دے رہی ہیں تو یہ وہی مکافاتِ عمل ہے جس سے کئی سال پہلے ادارے تباہ کئے گئے، جس طرح اداروں کے اندر اپنے لوگوں کو بھیج کر انہیں یرغمال بنائے جانے کا رویہ دکھائی دے رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے یہ قوتیں اس سیاست کے مایہ ناز کلاکار ہیں جنہیں اداروں کو توڑ مروڑ کر اپنے اہداف حاصل کرنے کا ہنر خوب آتا ہے، جب ماہ رنگ بلوچ ناروے چلے گئے اُن کی واپسی کے عین لمحے پر سمّی بلوچ آئرلینڈ میں دکھائی دیے اور اس کے فوراً بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی سے آمنہ بلوچ کا استعفیٰ اور اسی اثنا ماما قدیر کا ویڈیو بیان کچھ بھی بے سبب نہیں۔

جی ہاں یہ وہی گھناؤنی اعمال ہیں جس کے ذریعے روزِ اول سے بلوچ قومی تحریک کی اجتماعیت پر کالک ملا جارہا ہے۔ اگر آج ان قوتوں کا احتساب نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جس سے بلوچ قومی تحریک پر سے عام بلوچ کا اعتماد ہی اٹھ جائے گا اور اس ناقابل یقین نقصان کی کبھی بھی بھرپایی نہیں ہوگی ۔