یکشنبه, سپتمبر 29, 2024
Homeآرٹیکلزہوشیار باش :تحریر: سیم زہری

ہوشیار باش :تحریر: سیم زہری

 
دوستو چند دنوں کی غیر حاضری کے بعد آج کچھ نئے خیالات و سوالات کے ساتھ آپ کے سامنے حاضر ہوں. مجھے اکثر دوست کہتے ہیں آپ کی تحریریں رپیٹ ہو رہی ہیں. میں ان کا شکر گزار ہوں کہ اپنی قیمتی رائے سے میری اصلاح کر رہے ہیں. اور اس تنقیدی پہلو کو میں حوصلہ افزا سمجھتا ہوں. اس کے ساتھ ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے مجھے مجبوراً پچھلے واقعات کا حوالہ دینا پڑتا ہے.
چلیں اسی مثال سے آج کا موضوع شروع کرتے ہیں. آپ لوگوں کو یاد ہو گا۔ سوشل میڈیا میں میرے دوست سچاپ بلوچ نے ثناء اللہ زہری کا ایک اخباری بیان پوسٹ کیا تھا۔ جس میں ثنا اللہ زہری وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد کہہ رہے تھے کہ ” کسی سے انتقام نہیں لوں گا۔ میں نے اپنے بچوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔” اسی بیان کے تناظر میں سچاپ بلوچ نے لکھا تھا کہ کسی کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ لوگ اپنے بھائی کو معاف نہیں کرتے آپ کی کیا حیثیت…….
اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کے حالات اور واقعات سمیت ثنا اللہ کا بذات خود بولان آپریشن کی فضائی نگرانی اور اسی سال انجیرہ میں جلسے سے خطاب آپ کے سامنے ہے۔ جس میں اعلانیہ کہہ رہا تھا کہ آخری دہشت گرد تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اور آرمی کے سدرن کمانڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنڈال میں موجود تمام لوگ آپ کے بلا معاوضہ سپاہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شفیق مینگل کے باقیات کی اپنے گود میں پرورش کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ثناءاللہ آنے والے دنوں میں شفیق مینگل کی پنجاب کو پیش کردہ خدمات کو مات دے گا.
شفیق مینگل کے دور میں خضدار سمیت آس پاس کے علاقوں میں خوف و دہشت پھیلانے والے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے لیے بلوچ نوجوانوں کے اغوا، ٹارچر اور ٹارگٹ کلنگ سمیت اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث یونس محمد شہی کی وفاداریاں تبدیل کروا کر ثناءاللہ زہری کی گود میں بٹھانا سنگت سچاپ بلوچ کے خدشات کو حقیقت کا روپ فراہم کرتا ہے.
اسی طرح شفیق مینگل کے دور میں توتک پاکستان آرمی، انٹیلیجنس اور مذہبی شدت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ جہاں درجنوں لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں اجتماعی قبروں سے برآمد ہوئیں۔ اور اس دوران سردار علی محمد قلندرانی کا بیٹا، عتیق الرحمن قلندرانی کا سوتیلا بھائی اور سعید قلندرانی کا بھانجا شفیق مینگل کے ہر عمل میں دست راست کا کردار ادا کرنے والے یوسف قلندرانی اور سردار طیب، فیاض زنگیجو کو وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری کی جانب سے مسلح کر کے آنے والے دور میں خضدار سمیت زہری سوراب وڈھ تک ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں.
ان دو تین چیدہ چیدہ مثالوں کے علاوہ ایسے بہت سے یتیم دلال، مخبر، چور، زانی، قاتل جو کسی زمانے میں چھوٹے موٹے مقدمات میں پنجابی کو مطلوب تھے۔ جن کے تمام گناہ معاف کر کے شفیق کی جھولی میں ڈال دیے گئے تھے. اب شفیق مینگل سے پنجابی آقا کے تیور بدلتے ہی ثناء اللہ زہری کے حوالے کردیئے گئے ہیں. یہ تمام مہرے جو کسی زمانے میں شفیق مینگل کے زیر استعمال تھے۔ اب ثناءاللہ زہری کے زیر سایہ رہ کر وہی کام کریں گے۔ جو پنجابی چاہتا ہے۔ صرف کام لینے، ہش ہش کرنے والا پہلے شفیق تھا۔ اب براہ راست وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری ہونگے. ویسے ثناءاللہ خود کو بلوچ سوسائٹی میں ایک سفید پوش سمجھتا ہے۔ براہ راست اس گند کی سربراہی کرنے سے کتراتا ہے۔ اگر اس کا بیٹا سکندر اور بھتیجا زیب زندہ ہوتے. بھلا ہو بلوچ سرمچاروں کا کہ ایک کامیاب حملے کے نتیجے میں ثناءاللہ کو اس کی اصل روپ میں آنے پر مجبور کیا. دوسری اہم بات یہ کہ ثناءاللہ زہری کا بہنوئی و داماد، پاکستان آرمی کا حاضر سروس افسر، خضدار شہر کا چیئرمین شکیل درانی اور نواب نوروز کے بیٹے میر جلال خان کا نواسہ زیب بھی کوئٹہ سے حب و کراچی تک اس مسلح ونگ کی نگرانی کر ر ہے ہیں. جبکہ سیاسی حوالے سے سیف زہری اس قتل عام کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی آخری حد تک کوششوں میں لگا ہوا ہے. اس کے علاوہ یہیں زہری کے اندر فیصل صالح زئی، فرید خان زہری، چنگیز موسیانی، کوہی خان آنے والے دنوں میں زہری کو دوسرا توتک بنانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں. غفار سلمانجو زہری اور حافظ یونس جیسے تنخوا خور کلرک اور وڈیرہ ابراہیم سلمانجو جیسے کمیٹی ممبر کونسلر بھی پنجابی کی نازل کردہ ظلم میں ہاتھ بٹا کر اپنی تنخواہ حلال کرنے کی اپنے تئیں کوشش کر رہے ہیں.
یہ سب کچھ ایک دم یا راتوں رات نہیں ہوا، بلکہ بی ایس او کے سابق چیئرمین محی الدین سوراب والا زہری یوتھ فورس اور حق نا توار جھالاوان ونگ کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ اور چند سال پہلے رؤف مینگل کے گھر پر ہونے والے بمب حملے کی قبولیت کا بیان جاری کرنے والا بھی یہی شخص تھا۔ جو ثنا اللہ کے بھائی نعمت کا دست راست ہے.
اب یہ فیصلہ آپ پر چھوڑا جاتا ہے کہ زہری کے اندر موجود فیصل صالح زئی جیسے اور کئی ناسوروں کی نشاندہی کرنی ہے یا آنے والے دنوں میں انجیرہ و زہری سے توتک نما اجتماعی قبروں سے لاشوں کو گنتی کرنا ہے. یا چشمہ کے قریب سے گزرتے ہوئے ناک پر چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کرنا ہے.
یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ثناء اللہ جس ظلم کی سیڑھی پر قدم رکھنے جا رہا ہے یہ اسکی شروعات ہیں۔ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں.
قبائلی جنگوں میں متاثرہ فریقین کو مسلح کرکے پہلے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا اور بعد میں ٹرینڈ کرکے بلوچ جہد کاروں کے سامنے کھڑا کرنا ایک الگ اور ہولناک داستان ہے جس پر پھر کبھی لب کشائی کروں گا.
یہ بھی پڑھیں

فیچرز