تحریر : *حفیظ حسن آبادی*   اگر یوکرائن میں روسی اسپیشل آپریشن کو تیسری جنگ عظیم کا ملائم شروعات کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت یورپ اور نیٹو ممالک امریکہ کی سربراہی میں روس سے یوکرائن کے زریعے براہ راست جنگ لڑ رہے ہیں۔دونوں کے مقاصد بھی واضع ہیں امریکہ اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں کہ روس بکھر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے جبکہ روس کی خواہش ہے کہ جہاں کہیں بھی عالمی یا علاقائی فیصلہ سازی ہو اُس میں روس کی رائے کو اس کی وزن کے لحاظ سے اہمیت دیاجائے اور کوئی بھی فیصلہ روسی قومی مفادات سے متصادم نہ ہو اور ایسا فقط اُس صورت میں ممکن ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی روس کو برابر کے پارٹنر کے طور پرقبول کریں اور اس سے دشمنانہ رویہ اپنانے کے بجائے اسے جاندار مسابقت کیلئے فضا مہیا کریں جسے عام الفاظ میں ”جیو اور جینے دو“کی پالیسی بھی کہا جاتاہے۔ امریکہ نے اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے تحمل، عقل و خرد سے کام لینے کے بجائے غلط اندازوں، غلط اعداد و شمار اور سطحی تجزیوں کی بنیاد پر ایسی مہم جوئی کو ہوا دی جس نے سب سے پہلے خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے بے پناہ مشکلات ایجاد کئے۔اور اُن تمام قوتوں کیلئے آسانیاں پیدا ہوئیں جن کو امریکہ کبھی بھی ریلیف دینا نہیں چاہتے تھے ۔ افغانستان کا ہاتھ سے نکلنا، علاقے میں چین کے اثر و رسوخ بڑھنے سازگار ماحول پیدا ہونا،ایران میں عوامی قوت کے اُبھار کو کسی مثبت نتیجے پر پہنچانے میں امریکہ کی بے بسی ،یوکرائن کے ریاست کا شکست و ریخت۔ قومی تحریکوں کیلئے موفق مواقع کا ایجاد ہونا۔ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کو امریکہ اور اس کے اتحادی کبھی بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے مگر اب کچھ چیزیں وقوع پذیر ہوچکی ہیں اور کچھ کا وقوع پذیر ہونا باقی ہے۔ امریکہ کے غلط فیصلوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب اُس نے ٹھوس بنیادوں پر طالبان کیساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے بجائے یہ تاثر دیتے ہوئے عجلت میں دوحہ نشستوں کا آغاز کیا کہ امریکہ ہر حال میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔جس پر ہم نے اپنے درجن بھر آرٹیکلز میں اپنے تشویش کا اظہار کیا اور جو آج افغانستان اور ریجن میں ہو رہا ہے اُن آرٹیکلز میں اِنکی ہوبہو نشاندہی کی تھی۔کئی امریکن اور یورپین دانشور و سیاسی مبصرین نے بھی امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے تباہ کن اثرات سے پیشگی آگاہ کیا مگر امریکہ نے یوکرائن کے زریعے روس کو فتح کرنے کی جنون میں کسی کی بھی رائے کو قابل غور نہیں سمجھا یہ الگ بات کہ اب وقتا ًفوقتاً یو ایس کانگریس میں یہ اعتراف سُننے کو ملتا ہے کہ افغانستان سے عاجلانہ انخلا سنگین غلطی تھی جس سے افغانستان سمیت پورا ریجن ہاتھ سے نکل گیا اور دنیا میں امریکی سپرمیسی کے دبدبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس وقت المیہ یہ کہ امریکہ افغانستان میں پوشیدہ طور پر موجود اور ظاہری طور پر غائب ہے مگر وہ اس کا اعتراف کرنے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ اس کے انخلا کے بعد افغانستان میں خواتین کے کام پر بندش اور سکولوں میں چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی،میڈیا کی کاموں میں رکاوٹیں، انسانی حقوق کے اداروں کے کاموں میں خلل وغیرہ کہ جن کے بارے میں یو این حکام اکثر شکایتیں کرتے رہتے ہیں ایسے موضوعات ہیں جن کی زمہ داری امریکہ اُٹھانے کو تیار نہیں حالانکہ دوحہ مذاکرات کے دوران ان سب کے تحفظ کی گارنٹی اُسی نے دی تھی۔ آج نہ اُس کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ اُس نے کس بنیاد پر ہمہ شمول حکومت کا قیام اور دیگر مسائل کے حل کی زمہ داری لی تھی؟ اور نہ اس بات کا جواب ہے کہ جب وہ کسی حکومت کے کام سے ناراض ہوتا ہے یا اُسے تسلیم ہی نہیں کرتا ہے تو اُسے ہر ہفتے بلا تعطل چالیس سے پچاس ملین ڈالر کیونکر دیتا ہے؟ سب سے اہم بات یہ کہ وہ اپنے اور اتحادیوں کے ٹیکس دینے والوں اور افغان عوام کو یہ تک صاف نہیں بتا سکتا کہ وہ کس معاہدے کے تحت نکلے ہیں یا شکست کھا کر بھاگ گئے ہیں؟ کابل کی موجودہ حکومت کہتی ہے ہم نے امریکہ کو شکست دے کر نکالا ہے اور امریکہ کہتا ہے کہ وہ ایک معاہدے کے تحت نکلے ہیں۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کو شکست دے کر نکلا گیا ہے تو پھر معاہدہ کی باتیں درست نہیں ہیں اور اگر معاہدے کے تحت نکلا ہے تو شکست والا دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں۔عام افغان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر امریکہ طالبان مابین معاہدہ ہوا ہے تو اُس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ اگر امریکہ شکست کھا کر بھگایا گیا ہے تو شکست خوردہ سے فاتح کیونکر مدد کا طلبگار ہے؟ امریکہ کی روس کے ساتھ خواہ مخواہ چھیڑا چھیڑی کے بے وقت انڈونچرزم کے شوق نے اُس کے اصلی اور حقیقی حریف چین کو اس ریجن میں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا اور چین نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر روس کے ساتھ اپنی تاریخی دوستی کو اور مضبوط بنیادیں فراہم کیں اور اس ریجن میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرواکے اُنھیں ترقی،خوشحالی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رویے کی حوصلہ افزائی کرنے کا ماحول پیدا کیا۔چین کی اس ثالثی سے امریکہ کے دیرینہ دوست عربوں کو یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ امریکہ سے دوستی میں امریکہ نے ہمیں ایران سے خوف دلا کر اُسے غنڈہ کہکر ہماری دشمنی کرائی اور اُس کے خوف سے ہم پر سالانہ اربوں ڈالر کے اسلحہ خریدواتا رہا،اس کا خوف دلا کر امریکہ نے اپنے عسکری اڈے قائم کئے جن کا اربوں ڈالرز کا خرچہ بھی ہم اُٹھاتے تھے لیکن اب چین اُس ”دشمن“ سے صلح کروا کر ہم دونوں کو جنگ کی ہیجانی کیفیت سے نکال کر اسلحہ جمع کرنے اور پروکسیز کو پالنے کے بجائے اپنے لوگوں کی بہتری کیلئے اپنے پیسے خرچ کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کے بحالی کیساتھ ہی یمن میں جنگ بندی کے مثبت اشارے ملنا انتہائی حوصلہ افزا ء پیش رفت ہے۔ ایک جنگ جس سے اب تک چار لاکھ آدمی مارے اور پنتالیس لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوچکے ہیں کا اختتام کی طرف بڑھنا چین پر ریجنل قوتوں کے اعتماد کی دلیل ہے جس کے مستقبل میں دوررس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ امریکہ لاکھ کوشش کرے تب بھی وہ اس مقام پر چین کو ریجن میں اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھانے روک نہیں سکتا اور نہ ہی اس کے اقتصادی کامیابیوں کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے۔کیونکہ چینی کرنسی یوہان بہت ہی مختصر مدت میں امریکی ڈالر کو اس حد تک دھکیلنے میں کامیاب ہوا ہے کہ حالیہ دنوں میں روس فرانس ونزویلا ایران سعودی عرب ملائیشیا برازیل وغیرہ سمیت اکتالیس ممالک نے چین کے ساتھ یوہان میں تجارت کے معاہدات کئے ہیں۔گویا امریکہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آپ کو اس ریجن میں سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کا راستہ ہموار کیا۔ ایک اور خوف جو چین کی طرف سے ایک عرصے سے مبصرین میں زیر بحث ہے کہ چین ایک مخصوص منصوبے کے تحت غریب ممالک کو اتنہائی سخت شرائط پر قرضہ دیتا ہے جو وہ اپنے مجموعی کرپٹ سیاسی،اقتصادی و انتظامی نظام کی وجہ سے لوٹا نہیں سکیں گے جس کے نتیجے میں وہ اپنی آزادی اور خودمختاری چین کے ہاں گروہی رکھنے پر مجبور ہوں گے جسے وہ جدید نوآبادتی نظام کی بدترین شکل کہتے ہیں اسکی روک تھام کیلئے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہ جامع و قابل عمل منصوبہ ہے اور نہ روس یوکرائن جنگ میں نیٹو ممالک کی بھرپور شراکت میں اقتصادی اور سیاسی نقصانات کی وجہ سے جنگ کے خاتمے کے بعد اُن کے پاس کوئی ایسی قوت باقی رہے گی جس سے وہ چین کے کسی بھی منصوبے کے سامنے کھڑی ہو سکیں۔ یورپ اور امریکہ خود کو ایک ایسی بیگانگی کی طرف دھکیل چکے ہیں کہ جس سے نکلنے کیلئے اُنھیں اپنے رویوں اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی فوری ضرورت ہے کہ جس کو مدنظر رکھکر بھارت کے وزیر خارجہ مسٹر ایس۔جے شنکر نے کہاتھا ”یورپ نے اپنی تہیں یہ زہن بنایا ہے کہ دنیا کے مسائل دنیا کے اپنے مسائل ہیں وہ اپنے مسائل خود حل کریں مگر یورپ کے مسائل سب کے مسائل ہیں“ آج تک کبھی کسی ترقی پذیر ملک کے لیڈر نے یورپ کے بارے میں ایسی دوٹوک اور سخت بات نہیں کی ہے مگر اب کررہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ یورپ کسی بھی یکطرفہ توجہ کا طلبگار نہ رہے کیونکہ باقی دنیا میں یہ فکر اب شعوری صورت اختیار کرگئی ہے کہ جب ہمیں مسائل گھیرتے ہیں تو آپ لاتعلق ہوتے ہیں لیکن جب آپ پر مصیبت آتی ہے توآپ دنیا سے دوڑ کرآنے اور ہمدردی کرنے کی توقع کرتے ہیں یا یہ کہ”ہمیں (انڈیا) کہا جاتا ہے کہ ”روس سے تیل خریدنے کا مطلب جنگ میں روس کی مدد کرنا ہے لیکن یورپ کا روس سے گیس خریدنے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ہم تیل خرید کر پیسہ دیتے ہیں اور یورپ گیس خرید کر پیسہ دیتا ہے۔ اگر ہمارا پیسہ روس کے جنگ میں مدد کیلئے جاتا ہے تو یورپ کا دیا ہوا پیسہ کہاں جاتا ہے؟“ ہندوستان کے ایسے جواب کو امریکہ اور یورپ کیلئے دنیا کے اجتماعی تعلقات کا ایک ٹرننگ پوائنٹ کی طرف جانے کی ابتداء کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا جس کی نہ امریکہ اور نہ یورپ کو انتظار رہا ہوگا۔ افغانستان سے نکلنے اور یوکرائن کے جنگ میں کھودنے سے امریکہ نے نہ صرف یورپ کو مشکلات میں ڈال دیا بلکہ اپنے قریبی دوست ملک جاپان اور جنوبی کوریا کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ کیا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہوکر چین اور شمالی کوریا کو پہلے سے کئی زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا جواز فراہم کرچکے ہیں۔ امریکہ اور یورپ طویل عرصے سے ایران میں ایک جمہوری حکومت دیکھنے کے متمنی رہے ہیں اور اُن کی یہ خواہش اُس وقت شرمندہ تعبیر ہونے والی تھی جب 2022 کو وہاں کی عوام ایک بہت بڑی بیداری کیساتھ اپنے بنیادی قومی،مذہبی و شہری حقوق کیلئے سڑکوں پر نکل آئے مگر اُنھیں امریکہ و یورپ سے بروقت وہ داخلی و خارجی مدت میسر نہ ہوسکی جو ایک کامیاب انقلاب کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے نتیجے میں سینکڑوں لوگ جان سے گئے ہزاروں زندانوں میں ڈالے گئے مگر تہران کی حکومت کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں اُبھر گیا۔اب تو چین و روس کی مدد سے اس کے تعلقات عربوں سے خوشگوار ہونے لگے ہیں جو بعد میں ایران اسرائیل تعلقات پر بھی مثبت اثر ڈال سکتے ہیں اور امریکہ جس نیو ورلڈ آرڈر کو روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے وہ اُس کے اندازوں سے بھی زیادہ روس اور چین کے حق میں سرعت سے تشکیل کے عمل سے گزر کر امریکہ کے یقینی شکست پر منتج ہونے کی طرف جارہاہے۔ آزادی کے تحریکوں کیلئے سنہرا موقع: چونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ناکامیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے اس سے عین ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں پوری دنیا اور خاصکر امریکہ اور نیٹو ممالک کے زیر اثر ممالک میں قومی آزادی کی تحریکوں کو مہمیز ملے اس میں یہ بھی بعید نہیں کہ کئی نیٹو ممالک میں بھی ایسی تحریکیں جو وہاں طویل عرصے سے وجود رکھنے باوجود سر اُٹھانے کے قابل نہیں تھے اب نئے عالمی کشمکش کی بدولت سر اُٹھائیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1947ء سے لیکر 1960 تک تین درجن کے قریب ممالک نے اپنے کالونیل حکمرانوں سے آزادی حاصل کرلی اُن کی آزادی حاصل کرنے کے پیچھے اُن کا شعوری جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے ساتھ ساتھ ایک وجہ مشترک بھی تھی وہ یہ کہ اُنکے کالونیل حکمران دوسری جنگ عظیم کے بعد اقتصادی اور عسکری لحاظ سے اتنے کمزور ہوچکے تھے کہ وہ اپنے نوآبادیوں کو مزید بزور شمشیر رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ کچھ ممالک سے کالونیل حکمران لوگوں کے تیور دیکھ کے کسی بڑی جنگ و مزاحمت کے بغیر نکل گئے جب کہ کچھ ممالک میں اُنھیں خونین جنگوں اور انقلابوں کے نتیجے میں نکالا گیا۔ یوکرائن میں اگر روس اور مغربی طاقتوں کے درمیان جنگ دو چار سال طول پکڑ گئی تو جو عالمی و علاقائی صف بندیاں جنکے بارے میں ہم اب صرف تصور کرسکتے ہیں وہ عملی طور پرظہور پذیر ہوں گے۔ جس طرح امریکہ روس اور چین کی جڑیں اُکھاڑنے درپے نظر آتا ہے روس اور چین بھی اپنے دوستوں کیساتھ ملکر امریکہ اور یورپ کے دور پھیلی ہوئی اُن جڑوں کو کاٹنے کی سعی کریں گے جن کی مدد سے امریکہ اور اسکے اتحادی طرح طرح کے حیلے بہانوں سے اپنے لئے دنیا کے مختلف ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی راہ ہموار کرکے اُنھیں آپس میں لڑاتے ہیں،اُنکے وسائل لوٹتے ہیں اور اُن پر دائمی حکم چلاتے رہتے ہیں۔ اس تناظر میں روس اور چین ضرور چاہیں گے کہ ایسی قومیں امریکہ اور اسکے حواری ملکوں سے اپنی آزادی حاصل کرلیں کہ جنکو امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں کسی بھی آزادی کی تحریک کیلئے اُس میں اتحاد اولین شرط ہوگی تاکہ وہ نئے بننے والی ریاست میں استحکام کی ضمانت دے سکے کیونکہ کوئی بھی عالمی قوت ایک جنگ سے نکل کر دوسرے جنگ میں پڑنے کا رسک نہیں لیتا۔ اور ساتھ میں اُس اتحاد میں یہ جوہر بھی نظر آنی چائیے کہ وہ اپنے مفادات کا دفاع کرنے کے کیساتھ نئے بننے والے اتحادی کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے اور باہمی تعاون کا واضع روڈ میپ دے سکے تا کہ وہ مل کر امریکہ کونئے پروکسیز ایجاد کرنے سے روکنے میں موثر ثابت ہوں۔ (ختم شُد)