تحریر : حفیظ حسن آبادی یوکرائن کا مسلہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا جتنا اُسے بڑی کوششوں سے پیچیدہ بنایا گیا۔روس اور یوکرائن اُس وقت سے یک جاں قومیں ہیں جب وہاں نوویں صدی میں ” کیووین روس“ (879ء1240- Kievan Rus ) کاقیام عمل میں آیا۔ اُس وقت سے اب تک اس خطے نے بہت سی مثبت و منفی تبدیلیاں دیکھی ہیں مگر ایک بات میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ یہ قریبی ہمسایہ و برادر قومیں رہی ہیں۔ سوویت یونین دور حکومت میں توکیف کا کردار ماسکو کے بعد کلیدی و اہم رہا ہے۔ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ مسلہ 24 فروری 2022کے بعد شروع ہوا کہ جب روس نے لوہانسک اور دنیسک ریپبلکس کو بحیثیت آزاد ریاست تسلیم کرکے اُنکی درخواست پر فوج وہاں بھیجی لیکن ہر بڑے مسلے کی طرح یہاں بھی سب کچھ اتنا آسان نہیں بلکہ اسکی جڑیں کم از کم تیس سال گہری ہیں۔جی ہاں 1992 کوسوویت یونین کے خاتمے کے بعد اصولی طور پر نیٹو کو بھی تحلیل ہونا چائیے تھا کیونکہ سوویت بلاک ٹوٹنے اور وارسا پیکٹ (Warsaw Pact)کے ختم ہوتے ہی اسکی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔تاہم اُس وقت روس کے مطالبے پر اُس سے یہ وعدہ ضرورکیا گیا تھا کہ نیٹو کو روس کے سرحد وں سے دور رکھا جائیگا اور نیٹو کی طرف سے روس کی سالمیت کو کوئی خطرہ لائق نہ ہو اس بات کو یقینی بنایا جائیگامگر بعد میں ایسا نہیں کیا گیا۔ روس میں ایلسن کی کمزور اور نااہل حکومت مغرب کیلئے بہترین پسندیدہ حکومت تھی کیونکہ اُس وقت بقول اُنکے وہاں جمہوریت پرواں چڑھ رہی تھی جبکہ اصل میں روس اندر سے داخلی جنگوں، مسائل اور بحرانوں کی زد میں اتنا نحیف و ناتواں ہوگیا تھا کہ ایک سُپر پاور کے جانشینی کا دعویٰ دارملک ایک محتاج اور قرضوں کے بوجھ تلے بمشکل سانس لے رہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اُس میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ تین بالٹک ریپبلکس کا یورپی یونین اورنیٹو میں شمولیت پر کوئی مناسب ردعمل یامزاحمت دکھا سکے۔جنہوں نے 2002 کو یورپی یونین اور نیٹو ممبر شپ کیلئے اپلائی کیا اوردو سال بعد29مارچ 2004 کو نیٹو ممبر بنائے گئے جبکہ اسی سال 1 مئی کو یورپی یونین کے ممبر بنائے گئے۔امریکہ اور یورپ کی طرف سے جارجیا اور یوکرائن میں بھی ایسی خواہش کی حوصلہ افزائی کی گئی روس کے اندر چیچنیا میں شدید جنگ سے لیکر جارجیا اور یوکرائن میں روس سے نفرت کی بنیاد پرنئی صف بندی کی گئی چیچنیا میں پوری دنیا سے دہشتگرد جمع کئے گئے مگر انھیں روس نے شکست دے کر حالات کو قابو کیا۔ جارجیا کو روس دشمنی اور یورپ سے یکطرفہ محبت کے نتیجے میں ابخازیہ اور جنوبی اسیتیا میں طاقت کے استعمال کے بعدان صوبوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ چنچنیا اور جارجیا میں مغربی قوتوں کے منصوبوں کی ناکامی کے بعد یوکرائن کیلئے بہترین موقع تھا کہ وہ سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرکے جو وہاں روس سے نفرت کی نئی لہر دوڑائی گئی تھی اُسے ختم کرتا اور مغرب کیساتھ تعلقات بہترو برقرار رکھنے کیساتھ روس کے ساتھ تعلقات کو توازن میں رکھتا مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہواکیونکہ امریکہ و یورپ کی یوکرائن سے دوستی شاید روس سے نفرت کی بنیاد پر رکھی گئی تھی نہ کہ یوکرائن کو ترقی یافتہ دیکھنے اس لئے وہ دونوں میں توازن برقرار رکھنے کامیاب نہیں ہوا۔ مغرب کو خوش کرنے روسی زبان پر بندش اور روسیوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی وجہ سے پہلے 65.31% روسی آبادی والے کریمیا میں مسائل پیدا ہوگئے۔ کریمیا جو اپریل 1783 کو روس میں شامل ہوا تھا اور ہمیشہ روس کا حصہ رہا تھا جسے سوویت یونین کے دؤر میں اسٹالن کے وفات کے بعد 1954ء کو یوکرائنی لیڈر خرشچوف نے یوکرائن کے ساتھ شامل کیا تھا۔ نئی نفرت انگیز صورتحال نے ماسکو کو اپنی تاریخ پر پھر سے نظر دؤڑانے پر مجبور کیا کیف نے مغرب کی پشت پناہی میں مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیع دیا جس نے کریمیا کو انتہا کی طرف دھکیلا اور وہاں انھوں نے 2014کو رائے شماری کا اہتمام کیا جسمیں کریمیا کا روس کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں فیصلہ ہوا گویا 1783 سے روس کا حصہ رہنے والا کریمیا ساٹھ سال (1954 سے 2014تک)یوکرائن کا حصہ رہنے کے بعد پھر اپنی سابقہ جگہ پر واپس ہوا جو نہ یوکرائن کو منظور تھا اور نہ مغرب اس کیلئے تیار تھا کیونکہ وہ یہ سب کچھ اس لئے کرچکے تھے کہ روس کو اندر سے توڑا جائے مگر نتیجے میں وہ خود اپنا بازؤکٹا بیٹھے۔ اس کے بعد روسی آبادی والے صوبوں لوہانسک اور دنیسک وغیرہ میں آپریشن ہوا روسی زبان پر پابندی اور روسیوں کیلئے کاروبار زندگی مشکل کرنے کیساتھ اُن کا براہ راست قتل کیا گیا جسے روکنے ان صوبوں کے مقامی قیادت اور یوکرائن کے درمیان جرمنی اور فرانس کی ثالثی میں 13 نکاتی مینسک ایگریمنٹ تیارکیا گیا جس پر روسی، یوکرئینی اور OSCE (Organization for Security and Co-Operation in Europe)نے 5 ستمبر 2014 کودستخط کئے۔ معاہدے میں قیدیوں کا تبادلہ،روس یوکرائن سرحدوں کی مستقل مونٹرنگ،امداد رساں اداروں کو متاثرہ علاقوں تک رسائی جیسے نکات کے ساتھ یہ تین اہم و بنیادی نکات بھی شامل تھے 1۔دونوں اطراف سے فوراًجنگ بندی کو یقینی بنانا 2۔ OSCE کی طرف اس بات کی ویری فکیشن اور مونٹرنگ کو یقینی بنانا کہ دوطرفہ جنگ بندی معاہدے کی پاسداری ہورہی ہے 3۔یوکرائن کے آئین میں قوت کی مرکزمیں تحلیل (Decentralization)کوقانونی شکل دینا تاکہ دنیسک اور لوہانسک ریپبلکس کے خصوصی حیثیت کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ معاہدہ تو ہو گیا عارضی طور پر فوجی آپریشن بند ہوامگر مذکورہ معاہدے پر پوری طرح عملدر آمد نہیں ہوسکا۔اسی وجہ سے ایک سال بعد فریقین کے درمیان 12.02.2015 کو دوسرا مینسک معاہدہ ہوا مگر نتیجہ پھر بھی وہی نکلا کہ معاہدے پر عمل درآمد کرانے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ آٹھ برسوں میں روس اور روسیوں سے نفرت کو اس حد تک ہوا دی گئی کہ یوکرائن کے مرکزی قیادت کے لوگ پبلک میں یہ تک کہتے سُنائی دئیے کہ روسی ہے یاروس سے محبت ہے تو روس چلے جاؤ یا یہ کہ دل چاہتا ہے ماسکو پر ایٹم گرا کر قصہ ہی ختم کیا جائے۔ کیا ایسی بیانیہ کو امریکہ یا کوئی بھی قوم اپنے لئے برداشت کرسکتا ہے؟کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ جرمنی کے پارلیمنٹ میں ہٹلر اور اٹلی کے پارلیمنٹ میں موسلینی کو قومی ہیرو قرار دیا جائے؟ یقیناً نہیں!اگر ہٹلر اور موسلینی جرمنی اور اٹلی میں قومی ہیرو نہیں ہوسکتے تو اُنکا اتحادی اور دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں قتل عام کرنے والا یوکرائن کا استپان بندیرا (Stepan Andriyovych Bandera)کیسے یوکرائن کے پارلیمنٹ کی توسط سے قومی ہیرو قرار پایا؟ بد قسمتی سے یہ سب کچھ یورپ میں یورپ کے ناک کے نیچے ہوتا رہا مگر کسی نے اعتراض صرف اس لئے نہیں کیا کیونکہ یوکرائن مغرب کی روس مخالف صف آرائی میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا تھا۔یوکرائن میں فاشزم کی یہ نئی لہر اور رحجان پر یورپ نے کوئی ردعمل نہیں دیاجو کہ اُسے فوراً اور سخت تریں صورت میں دینا چائیے تھا مگرروس سوویت یونین کے ٹوٹنے اور پھر طویل سازشوں کی وجہ سے بحران در بحران کے تجربات سے گذر کریہ سب کچھ نظرانداز نہیں کرسکتا تھا اور اس نے اس مسلے کو تمامتر سنجیدگی کیساتھ لیااور بہ وقت ضرورت اپنے قوم کیلئے جو بہتر و مناسب سمجھا عملی اقدامات بھی اُٹھائے۔ گذشتہ سخت تریں آٹھ برسوں میں سفارتی کوششیں ہوتی رہی ہیں مگروہ 14000سے زائد ایسے بیگناہ لوگوں کی جانوں کو بچانے کامیاب نہیں ہوئیں ہیں جو یا تو یوکرائن میں رہنے والے روسی تھے یا روسی زبان پر بندشوں کے خلاف تھے یا روس سے نفرت کو رد کرچکے تھے۔ اس مسلے پربروقت توجہ دینا تمام فریقین کا فرض تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ مینسک معاہدہ کے بعد پہلی چپکلش کو سنجیدہ لیا جاتا اور پہلے ہونے والے خون پہ امریکہ اور اسکے اتحادی اس طرح کی پھرتی دکھاتے جو اب یوکرائن کے ساتھ کھڑے ہونے میں دکھا رہی ہیں تو آج سناریو بالکل بھی ایسی تباہ کن نہ ہوتی جو اس وقت ہے اورآگے مزید خراب ہونے کی طرف جارہی ہے۔ کیا امریکہ یوکرائن میں روس کو ہرائے گا؟ بظاہریہ جنگ روس اور یوکرائن کے درمیان ہے جبکہ حقیقت میں وہاں روس کے مقابلے میں امریکہ اور اتحادی براہ راست دخیل ہیں اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یوکرائن کے کمزور کندھوں پر بندوق رکھکرروس کوتہس نہس کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو جن نیو نازی ا ٓزوف (Azov)کو جو کہ کچھ عرصہ قبل خود امریکہ میں اپنے فاشسٹ نظریات کی بنا پر پابندی کی زد میں تھے اور ایسے خیالات رکھنے والوں سے یورپ خود کو اور دنیا کو دور رکھنے کی تلقین کرتا ہے وہ کیسے اچانک دھل کر صاف ہوکر ”Good Azov “ بن گئے۔ایسادوہرا معیاراس سے قبل ہم پاکستان میں دیکھ چکے ہیں جہاں پاکستان میں اسلام لانے والے طالبان دہشتگرد اور افغانستان میں اسلام لانے والے طالبان اسلام کے مدافع اور مجاہد ٹھہرے ہیں. ویسے امریکہ اور یورپ کیلئے فاشزم بجا طور پر ناقابل قبول ہے مگر چونکہ ”یوکرائنی آزوف“ روس کے خلاف ہیں وہ ”اچھے آزوف“بنے اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی خطرناک رویہ ہے جس سے امریکہ اور اس کے اتحادی روس سے نفرت میں تمام بین القوامی قواعد و ضوابط پس پشت ڈال کر خود کواور دنیا کو ایک ناقابل یقین تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یوکرائن میں روس کی جیت کیوں یقینی ہے؟ آج سے ٹھیک تیرا برس قبل راقم نے افغانستان کے مسلے پر لکھتے ہوئے اپنے مضمون ”افغان مسلے کا واحد حل“ کو ان الفاظ کیساتھ ختم کیا تھاکہ ”ہماری نظر میں جس دن امریکہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں نے یہاں قومیتوں کے ریاستوں کی غیر فطری تقسیم اور انگریزوں کی بد نیتی پر مبنیٰ فیصلے کوہی تمام فساد کی جڑ کے طور پر دیکھا اس دن سے وہ اس مسلے کو نئے زاویے سے دیکھیں گے اور انھیں اس مسلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی اور دنیا کو اسلام و کفر کے درمیان ممکنہ جنگ سے نجات کی طرف پیشقدمی کرنے میں مدد ملے گی نہیں تو آج دہشتگرد چوری چھپے یورپ و امریکہ پہنچ کر دہشتگردی کرتے ہیں کل ڈپلومیٹ پاسپورٹ کے ساتھ جاکر وہاں سب کچھ غارت کریں گے۔۔۔“۔ آج جب طالبان ڈپلومیٹک پاسپورٹ کیساتھ ملکوں ملکوں چکر لگاتے ہیں مجھے کم از کم حیرت نہیں ہوتی ہے کیونکہ میں اُس وقت حالات کا درست جائزہ لیکر یہ صاف دیکھ رہا تھا کہ جس طرح امریکہ بہادر زور کے گھوڑے پہ سوار پاکستان کو اتحادی کہہ کر پاکستان کی راہنمائی میں افغان جنگ کے اصل محرکات کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ رہاہے اُس کا انجام اسی طرح کھائی میں گر کر بُرا ہی ہوناہے۔ یوکرائن میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادی روس کو جنگ پر مجبور کرنے سے پہلے اس جنگ کے اجزائے ترکیبی،زمان و مکان میں ہم آہنگی، بین القوامی طور پرعالمی قوتوں کے مفادات کودرپیش چیلنجز،مفادات میں ہم آہنگی وغیرہ سے یکسر غافل رہے۔ وہ اس حد تک یہ اندازہ لگانے ناکام ہوئے کہ جنگ کی صورت میں روس کے پاس امکانات کیا ہیں اور روس اس جنگ میں کہاں تک جا سکتاہے اور وہ(امریکہ اور اسکے اتحادی) یوکرائن کو کہاں تک کندھوں پر اُٹھا کر چل سکتے ہیں۔اور تو اور وہ یہ تک جاننے ناکام ہوئے کہ اُن کے لئے اصل چیلنج چین اوراُنکا دوست بھارت حتمی طور پر کیاپوزیشن لے گا َ؟مزید یہ کہ اگر یہ جنگ روس اور چین کو پہلے سے قریب لایا تو چین اُنھیں تائیوان میں دن میں تارے دکھائے گا۔ وہ ابتداء سے زیلینسکی اور اسکی ٹیم کے غلط اندازوں کی بنیاد پر ہر قدم غلط اُٹھا کر اپنے اور دنیا کیلئے بے پناہ مشکلات ایجاد کرچکے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو اپنی پوری قوت لگائیں تب بھی انھیں کم از کم گیارہ اہم وجوہات کی بنا پر روس پر سبقت حاصل نہیں ہوسکتی،نہ وہ یوکرائن کو بدتریں شکست و ریخت سے بچا سکیں گے اور نہ یورپ اپنے لئے اقتصادی و توانائی بحران کا حل تلاش کر پائے گا۔ 1۔روس نیٹو کے عزائم سے واقف اُسکی اپنے سرحدوں سے قربت کو اپنی وجود کیلئے خطرہ سمجھتا ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہا جبکہ یوکرائنی قیادت امریکہ اور نیٹو کا پسندیدہ ہونے کیلئے بحرانی کیفیت پیدا کرکے روس کو آپریشن پر مجبور کرچکا ہے۔ 2۔ماضی قریب میں مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امریکی اور نیٹو کے تھنک ٹینک اور ”جنگی اسکرپٹ رائٹر“ انتہائی ناکام رہے ہیں عراق،لیبیا، افغانستان،شام،لاطینی امریکہ اور افریقہ میں جہاں جہاں بھی چیزوں کو بہتر بنانے،جمہوریت لانے کے نام پر مداخلت کیاہے وہاں جمہوریت کو دفن کرکے سب کچھ برباد کیاہے۔ 3۔ جو بین القوامی حمایت امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو عراق،افغانستان،شام وغیرہ کے معاملات میں حاصل تھی روس کے معاملے میں وہ حمایت بالکل بھی میسر نہیں ہے۔ 4۔ روس سے ترک تعلق کرکے اُسے دیر تک تنہائی کا شکار (Isolate) کرنا ممکن نہیں کیونکہ یورپ اُس سے بُری طرح وابستہ اور کئی معاملات میں تو روس پر انحصار کرتا ہے۔یورپ روس کیلئے نہیں اپنے مفادات کے پیش نظر ایک حد سے زیادہ جانے سے پہلے خود کیف کی حکومت کا خاتمہ کراکے زیلینسکی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑے گا۔جہاں زیلینسکی کیلئے بہتریں سناریو کے تحت اُسے بھگا کرلے جایا جائیگا اورنیا آنے والا لیڈر آتے ہی روس کیساتھ امن معاہدہ کرکے یورپ کے مشکلات کم کرے گاجبکہ بُرے سناریو میں کچھ بھی بھیانک ہوسکتا ہے۔ 5۔ امریکہ اور اسکے اتحادی لاکھ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ کو زیادہ طویل دینے کے حق میں نہیں ہوسکتے کیونکہ اُنکے اگلے قدم یعنی کیف کے شکست کے بعدوہاں گوریلہ جنگ کا آغاز کرنے کا منصوبہ موثر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ جس بارے سوچ رہے ہیں روس پوری تیاری کیساتھ پہلے سے تیار بیٹھا ہے تاکہ اُنھیں ایک بارپھر یاد دلایا جائے کہ روس نے کس طرح شام میں داعش کا کمر توڑ ا اورمغرب کی پشت پناہی میں چیچنیا میں جنگ ختم کر کے امن قائم کیا تھا۔ 6۔ روس ابھی تک یہ نہیں بھولا ہے کہ پری استرویکا کے نام پر معمولی غفلت سے فاہدہ اُٹھا کر اسے امریکہ اور نیٹو نے مل کر ٹکڑے ٹکڑے کیا،داخلی انتشار،اقتصادی بحران،افراط زر،کرپشن غرض وہ تمام بیماریوں کے وائرس روس کے ریاستی بدن میں داخل کئے گئے جو اُس کے مکمل وجود کو ختم کرنے کافی تھے۔روس اور خاص کر پوتن وہ وار، وہ زخم نہیں بھولا ہے اور ہرگز اسکی اجازت نہیں دیں گے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی ایک بارپھر روس کیساتھ وہی کریں جووہ سوویت یونین کیساتھ کرچکے ہیں ۔ 7۔ ریاستوں کی تعمیر و ترقی یا بحرانی حالات سے نمٹنے کیلئے قیادت کا رول ہمیشہ بہت اہم رہاہے اور اس وقت روسی قیادت پوری دنیا میں اُن چند بیدار تریں قیادتوں میں شمار ہوتا ہے جن کے ہوتے ہوئے اُس ملک کے شہری اپنی ریاست کو ہر لحاظ سے محفوظ سمجھتے ہیں۔اس وقت کریملن میں گرباچوف یا ایلسن نہیں بلکہ پوتن براہ جمان ہے۔ا س ایک حقیقت سے بہت سے لوگوں کو بہت کچھ سمجھنا اور کوئی قدم اُٹھانے سے قبل سوچنا چائیے۔ 8۔ جس دن یورپ میں سردیاں شروع ہوں گی اور یوکرائن میں جنگ کے سبب پانچ،دس ملین تارکین وطن وہاں پہنچیں گے تب یورپ کو اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ امریکہ کا روس کو اسکی سیکورٹی کا گارنٹی نہ دینے کا انڈونچرزم بہت بہت بھاری پڑرہاہے اور وہ جس جنگ کو شروع کرکے یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ روس کے اندر بغاوت ہوگی پوتن کا خاتمہ ہوگا اور کوئی کمزور قیادت آئے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہونے والا بلکہ وہاں اگر کچھ ہوگا تووہ توڑ بھوڑ،داخلی انتشار سمیت سب کچھ روس مخالف کیمپ میں ہوگا اور یہ بھی بعید نہیں کہ نئی صف بندیوں میں روس اپنی تاریخ کے معتبر تریں مقام پر پہنچ کر اپنا اثرو رسوخ ناقابل یقین حد تک دنیا میں بڑھائے۔ 9۔ اخلاقی طور پربھی اس جنگ میں داخلے کے وقت روس کی پوزیشن امریکہ اور اسکے اتحادیوں سے بہت بہتر ہے۔یوکرائن میں جنگ کے وقت روس شام میں بشر اسد حکومت کو بچاکر اور داعش کو شکست دے کر سینہ تھان کے میدان میں موجود ہے جبکہ امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان کو بے یار و مدگار چھوڑ کر بدترین شکست کھا کرنکل چکے ہیں۔ 10۔روسی اقتصاد کو تباہ کرکے روبل کو بے قدر کرنے کا امریکہ اور یورپ کا منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔روس کے ساتھ دنیا کے تجارتی تعلقات منقطع کرنا بھی ممکن نہیں رہا بلکہ نئے حالات میں روس کو نئی منڈیا ں، نئے راستے،نئے زرائع اور نئے امکانات میسر آرہے ہیں جوآئندہ جاکر روس کے اقتصادی تعلقات میں وسعت پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ 11۔ روس کے بین القوامی بنکوں میں جمع سونا اور پیسے منجمد کرکے امریکہ نے اپنے اور اپنے زیر اثر ممالک کے بنکنگ شعبے کے اعتبار کو شدید دھچکا پہنچایا۔روس کے ذخائر منجمد کرنے کے بعد پوری دنیاکو یہ منفی میسج پہنچ گئی ہے کہ کسی بھی ملک نے جب بھی امریکہ کے مرضی کے خلاف اپنے قومی مفاد میں فیصلہ کرنے استقامت کا مظاہرہ کیا تو امریکہ اُس کے بیرون ملک ذخائر کو منجمد کرکے اُسے بلیک میل کرسکتا ہے۔ اس خدشے کے پیش نظرموجودہ حالات میں شاید کوئی بھی ملک فوراً کوئی قدم نہ اُٹھائے مگر آئندہ کیلئے وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے اور فطری طور پراُنکی ہمدردیاں روس کیساتھ ہوں گے۔اور موجودہ حالات میں اس ہمدردی کا روس کو کتنا فائدہ ہوگا اور ہو رہا اسکا اندازہ لگانا شاید امریکیوں کیلئے دشوار ہے۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ جس جنگ کوامریکہ اور اسکے اتحادیوں نے روس کو اشتعال دلا کر شروع کروائی ہے وہ جنگ روس ہی اپنی مرضی سے یوکرائن کو نیونازی خیالات اور اُنکے مسلح ہونے کے تمامتر امکانات کو مسدودکرکے ہی ختم کرے گا۔تاہم اگر امریکہ اور اسکے اتحادی مزید تباہ کاریوں سے بچنے کا خواہاں ہیں تو یہ جنگ چوبیس گھنٹے سے بھی کم مدت میں بند ہوسکتی بشرطیکہ روس کے ساتھ برابری اور ایکدوسرے کے قومی مفادات کے احترام کی بنیاد پر بات چیت کی جائے نہ کہ جنگ کو طول دینے مذاکرات کو بہانا بنا کرنئی صف بندی کی جائے۔ (ختم شُد)