“یہ ہماری قومی بیرک ہے” سنگت حیربیار کا شانِ تفاخر داد شاہ بلوچ چونکہ پاکستان کی عالمی دنیا کے سامنے وہ وقار اور عزت نہیں رہی کہ اسکی کسی بات پر کان دھرتے ہوئے اس کو سنجیدگی سے لے کر اس پرعمل کیا جائے سو اب پاکستان اپنی زیادہ تر خارجہ پالیسی کی چوٹی کے معاملات میں چین سرکار کی مدد حاصل کررہی ہے، چاہے وہ حافظ سعید اور اظہر مسعود پر پابندیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل میں پیش کردہ بھارتی قرداد کو ویٹو کی طاقت کے ذریعے مسترد کرنا ہو یا پھر اب کی بار لندن میں ہونے والی ” فری بلوچستان مومنٹ ” کی طرف سے چینی سفارتخانے کے سامنے سی پیک اور دیگر پاکستان و چینی مشترکہ منصوبوں کے خلاف ہونے والی احتجاج کی وہاں کے پولیس کے ساتھ شکایت کرنے کا معاملہ ہو، چین اپنی معاشی و عسکری مفادات کی خاطر آزمائے ہوئے عالمی غلام پاکستان کو ایک اسٹریٹجک اتحادی کی صورت میں دیکھتا ہے، اور اسکے خلاف ہونے والے کسی بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ کوشش کو اپنی خارجہ پالیسی، سفارتکاری اور معاشی مفادات کی لالچ اور دھمکی کے تحت نمٹانے کی کوشش کرتا ہے، پاکستان کی غیروں کی غلامی کا اپنی ایک تاریخ ہے اور اسکی ایک بنیادی وجہ طاقت کا نہ ہونا ہے یا پھر طاقت کا منتشر ہوجانا ہے، پاکستان عالمی سطح پر اپنی تخلیق کے دن ہی طاقت کے حوالے سے انتشار کا شکار رہا ہے، چونکہ پنجاب کو چھوڑ کرکوئی دوسری اکائی کسی بھی وقت اور کسی بھی معاملے پر مقتدرہ حلقوں سے خوش نہیں رہا ہے، بلوچستان تو خیر سے بزور شمشیر قبضہ کیا گیا علاقہ ہے اسکی جانب سے انتشار کی صورتحال کا تو پاکستانی مقتدرہ کو شروع دن سے ہی معلوم رہا ہے مگر بنگلہ دیش جو کہ خود اس پاکستان کی تخلیقی عمل کا حصہ تھا بالآخر تنگ آکر جان چھڑانے پر مجبور ہوگیا، سو اسی انتشاری صورتحال کے ہوتے ہوئے کبھی بھی پاکستان کو عالمی دنیا نے برابری کی بنیاد پر عزت و توقیر دینا ضروری نہیں سمجھا اور نہ آج وہ ایسا کرنا اپنے لیئے ضروری سمجھتے ہیں، سو اس امر کا پاکستان کو بھی بخوبی اندازہ ہے وگرنہ اس طرح عالمی طاقتوں کے کرایے قاتل کا کردار روز اول سے آج تک آسانی سے قطعا ادا نہ کرتی، دوسری بات پالیسی سازی اور معاشی و سیاسی حوالے سے عالمی طاقتوں کے دست نگر ہونے اور قرضوں کے بھاری بھرکم احسانوں تلے ڈوبنے کی وجہ سے بھی پاکستان اپنی بات کسی بھی عالمی طاقت کے سامنے منوانے کی حالت میں نہیں ہے، لیکن ایک ملک اور کئی ایک زرائعوں کے مالک ہونے کی وجہ سے وہ بہت ساری چیزوں میں عالمی دنیا کو بلیک میل ضرور کرسکتی ہے اور برابر کرتی ہوئی چلی آ رہی ہے اس میں سب سے اہم اسکے مذہبی کرائے کے جنگجو ہیں، چاہے وہ افغانستان میں جنگ کی صورت ہو جہاں افغان و دیگرعالمی افواج پر ہونے والے پے در پے خونی حملوں کی پھیٹ پیچھے سرپرستی کرنا ہو، اسلحہ کی فراہمی یقینی بنانا ہو اور اسامہ بن لادن کی طرح انھیں محفوظ رستہ فراہم کرکے پناہ گاہوں میں سالہا سال مہمان کے طور پر رکھنے کا معاملہ بھی ہم دیکھ چکے وہ چاہتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی آغاز کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی بھی طرح سے اسکی مرضی و چاہت کے بغیر ختم نہ ہو اور نتیجتا عالمی طاقت میز پر آکر مذاکرات کے زریعے وہ شرائط باامر مجبوری تسلیم کرلیں جو خود پاکستان ان سے بصورت دیگر منوانے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ سنگت حیربیار مری کی سرپرستی میں حال ہی میں بننے والی اور تشکیل کے مراحل سے گزرتی فری بلوچستان مومنٹ کی ہمہ جہتی و مشمولیت پسند پالیساں قابل دید و تقلید ہیں، یہ بات ہمیشہ مدنظر رہنی چاہئے کہ قومی بقا کے حوالے ہونے والی جد و جہد میں اغراض و مقاصد سے وابستہ پالیسیاں کارآمد ہوتی ہیں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئی ربع و نصف صدی کی تجربات و تاریخی مرحلوں کی نچوڑ پر مبنی پارٹی و تنظیمیں بھی قومی تحریک کو وہ پالیسیاں نہیں دے پاتیں جو ایک نئے ابھرنے والی پارٹی یا نظم و ضبط سے منسلک لوگ دے دیں، کیونکہ پارٹی پالیسیاں ان پارٹیوں میں شامل پالیسی سازوں کی دور اندیشی و بالغ نظری پر مبنی ہوتی ہیں، کہنے کو تو ہم سب آزادی چاہتے ہیں، سب پارٹیوں کی پالیسیوں کی تعارف میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ جد و جہد بلوچ و بلوچستان کی آذادی کے لیئے ہے لیکن جب مسئلہ پیدا ہوتا ہے تب ان تمام باتوں کو عملی میدان کے تجربہ گاہ میں اتارا جاتا ہے اصل معرکہ وہیں ہوتا ہے اور وہیں یہ فیصلہ بھی ہوجاتا ہے کہ کس کی پالیسیاں کامیاب اور کس کی ناکام ہیں کس کے پاس بہتر اور کس کے پاس کمزور پالیسی اور طریقہ کار ہیں، کون زمینی حقائق سے جڑی پالیسیوں کو حقیقت پسندانہ انداز میں اختیار کرنے کے حق میں ہے اور کون زمینی و سیاسی حقائق و ناگزیر حقیقتوں کے برخلاف اپنی من مانی منوانے کے در پے ہے اور کون پارٹی اور اجتماعی قومی طاقت کو لے کر ذاتی و گروہی دکان سجانے میں لگ چکا ہے اور کون اپنی طاقت کو قومی مفادات کے تابع رکھ کر تحریک کو ایندھن پہچانے کی کوششوں میں مصروف ہے، فرض کر لیجیئے اگر آپ کے پاس ستر سالہ تجربہ، طویل تاریخی پس منظر اورپارٹی سے وابستہ شہدا کی لمبی قطار اور انہی شہدا کی لہو سے پنپتی، نشونما پاتی اور تسلسل کے ساتھ آپ تک پہنچی ہوئی ایک پارٹی ہے لیکن تحریک کے حوالے مجموعی بنیادوں پر پالیسیوں کا فقدان ہے تو یہ بات قطعا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ آپ اور آپکی پارٹی یا تنظیم کی جد و جہد کی تاریخ عشروں پر محیط ہے اور انہی پارٹی سے وابستہ لوگ سروں کی بے دریغ قربانیاں دیکر آپ تک ایک امانت پہنچاچکے ہیں، وہ امانت پہنچانا ان کا کام تھا سو وہ کرچکے اب اس امانت میں مزید نکھار و سنوار لاتے ہوئے قومی زمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ براں ہوکراس امانت کو اگلی نسل تک بحیثیت ایک امانت پہنچانا آپکی زمہ داری ہے، جب آپکی پارٹی اگلی نسل کو پہنچے گی تو وہ مستقبل ہوگا اور اسی پارٹی میں ابھی جو آپ حاکم یا زمہ دار بن چکے ہیں اس میں جوہو چکا، جو بیت گیا، اچھا یا برا وہ ماضی ہے، لمحہ موجود میں زمہ داری تمھاری ہے کہ تم شہداء کی لہو سے تعمیر ہونے والی اس امانت کے ساتھ کیا کرینگے اور اسے کس طرح قومی تحریک کو مزید آگے لیجانے کی خاطر استعمال میں لاتے ہوئے اگلی نسل کو ایک بہتر شکل و صورت میں منتقل کرپائیں گے، حال کا بگڑ جانا ہمیشہ ماضی کے تقدیم کی رسوائی اور مستقبل کی امیدوں کی گلا گھونٹنے پر منتج ہوگا، حال کو سنواریے ماضی کے تفاخرانہ شان بھی سلامت رہیگی اور مستقبل کی امیدوں کے خاکے میں بھی رنگ بھرنا آسان ترہوگا، لمحہ موجود کی پالیسیاں اور انکی دور رس اثرات ہی تحریک کو جلا بخش سکتی ہیں وگرنہ کل کے ڈاکٹر مالک و کہور خان اور خیر جان و عبدالحئی نہ آج کے تین میں آتے ہیں نہ ہی تیرہ میں شمار کیئے جاتے ہیں، فدا شہید کی برسی آج ڈٓاکٹر مالک بھی مناتے ہے اور اسے اپنا شہید کہتا ہے، ہم بارہا اس امر کی نشاندہی کرتے آ رہے ہیں کہ پارٹی بازی اور فروعی و ذاتی نمود و نمائش نے اس تحریک کو پاکستان و ایران سے بھی زیادہ اور مہلک ترین نقصانات سے دوچار کیا ہے، اس میں پارٹی پالیسی یا پارٹی لیڈر شپ کی دم چلہ بن جانا سب سے غلیظ ترین اظہار ہے، اب یہی دم چلہ بن جانے کی نفسیاتی مرض میں گرفتار سیاسی سنگت اپنے سے وابستہ لوگوں کے خلاف کوئی بھی بات سننے کے روادار نہیں ہیں، چاہے وہ حق اور سچائی پر مبنی کیوں نہ ہو، یہ بلوچ قومی تحریک کی اخلاقی شکست کی پہلی زینہ ہے، سیاست میں اخلاقیات کی بنیاد اور اصولوں پر مبنی رجحانات میں یہ بات واضح ہے کہ بنیادی طور پر کوئی بھی سیاسی سنگت کسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پارٹی کی مجموعی رویے اور قومی جد و جہد کے حوالے سے بن جانے والی پالیسیوں سے وابستگی کا اعادہ کرتا ہے، اور کسی بھی پارٹی یا تنظیم کی پالیسیاں اور انکے رہنماؤں کی رویے اس تحریک کے مخصوص پیرائے میں اسی جد و جہد کی کوکھ سے پھوٹنے والی اغراض و مقاصد سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہیں، کیونکہ قومی تحریکیں خلوص نیت، نظریات کی بنیادی عقائد سے جڑے رہنے، خود کی زات کی حتی الامکان حد تک نفی کرنے کا نام ہے، قومی تحریک میں پارٹیاں یا تنظیمیں یا زمہ داریاں کسی کی جاگیر نہیں ہوتیں بلکہ وہ دست بدست نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے منطقی نتائج کے حصول تک چلتے رہتے ہیں، لہذا یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ تحریک کے لوازمات و ضرویات یا اغراض و مقاصد ہی وہ معیار ہیں کہ جن کو بنیاد بناکر کوئی پارٹی اپنی پالیسیوں کا رخ متعین کرتا ہے، محض بلوچ و بلوچ قومی اجتماعی مفادات کی تحفظ کے گردان سے کوئی بھی پارٹی پالیسی و لائحہ عمل کے حوالے سے بلوچ قوم کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی گی، چونکہ بلوچ سماج اس نوآبادیاتی جبر تلے زندہ رہ کر سیاسی پرورش سے کافی حد تک پیچھے ہے اور پارٹیاں یا تنظیمیں تنظیمی و تربیتی اعتبار سے بلوچ عوام کے سماجی رویوں کو خالص سیاسی رویوں کے قالب میں ڈالنے میں سراسر ناکام رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بہتیرے پارٹیوں کی موجودگی اور روز بنتی بگڑتی اس کھیل میں عام بلوچ سیاسی سنگت پارٹیوں کی پالیسیوں اور لائحہ عمل کی رخ سے زیادہ پارٹی یا انکے لوگوں سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، اس میں کچھ عمل دخل ذاتی مفادات اور آپسی رشتوں کا ہے اور باقی ان پارٹیوں یا تنظیموں میں جلد قبولیت پانے اور زیادہ محنت و مشقت کے برخلاف آسائشوں کی بہتات سے متعلق ہے، یہ رویے پچھلے کئی سالوں سے خاموشی کے ساتھ تحریک کی جڑیں کاٹتے ہوئے اسی کے اندر نشونما پاتے ہوئے آج پورے تحریکی عمل کو داؤ پر لگا چکی ہیں، مثلا ہمیں کیا چاہیئے کے سوال کے جواب میں جب ماضی میں کچھ لوگوں نے یہ تعین کرلیا کہ ہمیں پاکستان و ایران سے آذادی چاہئیے تو یہ سوال سامنے آیا کہ آزادی کی حصول کے لیئے کیا چاہیئے تو اسکے جواب میں یہ متعین ہوا کہ آذادی پسند سیاست اور عسکری و جنگی قوت درکار ہوگی، جب جنگ اور آذادی پسند سیاست کے لیئے فکر کیا گیا کہ کس طرح کے اصول و ضوابط اور طریقہ ہائے کار چائیے تو یقینا اسکا بھی تعین ہوا ہوگا مگر کچھ لوگ ان پیچیدگیوں میں سمٹ کر فکر و پالیسی کے حوالے سے نہ صرف منجمد ہوگئے بلکہ بہت زیادہ اور بہت جلدی آگے بڑھنے کی جتن میں مزید نقطہ معکوس کی طرف بڑھنے لگے اور آج عالم یہ ہے کہ اصول و ضوابط اور متعین طریقہ ہائے کار قربان گاہ میں روز بھلی چڑھتے جارہے ہیں، فری بلوچستان مومنٹ اپنی شروعاتی فکر و پالیسی اور عملی اظہار کے ساتھ اس امید کو زندہ رکھنے میں کسی حد تک کامیاب ہوچکی ہے کہ وہ بلوچ آذادی کے اس راہ کارزار میں محض ایک اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ایک حقیقی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیگا اور ہم بھی یہی امید کرتے ہیں کہ دیگر پارٹیوں کی بے ہنگم پالیسیوں اور بچگانہ روش سے بچتے بچاتے فری بلوچستان مومنٹ آذادی کے اس سفر میں ہر لمحے کو یہ ثبوت بہم پہچائے گی کہ وہ اس رستے میں دیگر راہ روؤں کی طرح محض سفر نہیں کررہا بلکہ زمہ داری سے سفر کررہا ہے۔ سنگت حیربیار کی مشمولیت پسندانہ رویے اس بات کا غماز ہیں کہ وہ بلوچ قومی جد و جہد کو ایک بامقصد رنگ دینے میں کامیاب ہوجائیں گے، گوکہ کچھ اپنے ہی بچگانہ رویوں کے حامل لوگوں کی ٹانگ کھینچنے کی عمل نے تحریک میں متعدد بار رخنہ اندازی کی دانستہ و غیر دانستہ کوششیں کی ہیں لیکن سنگت حیربیار اپنی ہمہ جہت پالیسیوں کے ساتھ آج بھی میدان عمل میں عزم و استقامت کا نشان بنے کھڑے ہیں، اسکی بسیارے مثالوں میں ایک مثال حالیہ عالمی پیمانے پر چلائی جانے والی چین پاکستان گٹھ جوڈ سے بننے والی معاشی کوریڈور یعنی سی پیک اور دیگر توسیع پسندانہ عزائم و پالیسیوں کے خلاف ہونے والی فری بلوچستان مومنٹ کی مہم کے دوران لندن پولیس کی طرف سے وہاں کے چینی سفارتخانے کی شکایت پر آذاد بلوچستان کی بیرک کو ہٹانے اور اسے دہشت گردوں کے بیرک کہنے کے بعد سامنے آیا، سنگت حیربیار خود وہاں موجود تھے اور پولیس والوں سے بات کی اور مہم میں کوئی رخنہ آئے بغیر تسلسل سے وہ مہم جاری رہ کر اختتام پذیر ہوگیا لیکن اس کے رد عمل میں سنگت حیربیار نے جس طرح قومی بیرک کو قوم کا شان قرار دیا اور اسے کسی بھی صورت میں اور کسی کے بھی دباؤ میں آکر نہ چھوڑنے کی اعلانیہ بات کی وہ بہت ہی حوصلہ افزا ہے، عالمی سفارتکاری کے حوالے سے یہ ایک اہم پیغام ہے سنگت حیربیار نے یہی کہا کہ بھلے ہم کمزور ہیں ناتواں ہیں لیکن بلوچ سرزمین بلوچوں کی ملکیت ہے اور اس میں بذور قوت دراندازی کرنے والے اور اسکی حمایت کرنے والے کسی کی بھی دباؤ قابل قبول نہیں کی جائے گی چاہے اس میں انگریز سرکار بھی چین کے سامنے جھک جائے، سب پارٹیاں اپنی اپنی جگہ پر اپنی اپنی حیثیت و کارکردگی کے حساب سے محترم ہیں، لیکن فری بلوچستان مومنٹ واحد جماعت ہے کہ جس نے ابھی تک بلوچستان کے بیرک کے سے الگ کوئی بیرک بلند نہیں کی ہے اور اسی موقر بیرک کی پہچان کے سایے تلے وہ اپنی ابتک ہونے والی ہر مہم و سرگرمی میں کھڑی ہوئی ہے، ہمارے ناپختہ و غیر سنجیدہ سیاسی رویوں کی وجہ سے ہر نئی بننے والی اور پہلے سے موجود پارٹی و تنظیموں نے اپنی پارٹی کی ساخت و ڈھانچے سے پہلے یا پھر اسکے ساتھ اپنی الگ پہچان یعنی بیرک کو بھی معتارف کیا اور بلوچستان کا قومی بیرک انکے مہم یا سرگرمیوں میں خال خال ہی نظر آتا ہے، انہی رویوں کی سنجیدگی اور فکر فراوانی نے سنگت حیربیار کے حوالے سے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ وہ بلوچستان و بلوچ قوم کی اجتماعی مفادات کو ذاتی یا گروہی مفادات و خواہشات سے کہیں زیادہ ترجیح دیتے ہیں، گو کہ سب پارٹیوں کو اپنی الگ پہچان رکھنے کا حق حاصل ہے مگر سیاسی رویوں اور قومی اغراض و مفادات سے سنجیدگی کی بنیاد پر یہ امید رکھی جاسکتی تھی کہ سب تنظیم و پارٹیاں اپنی اپنی جھنڈوں کو ختم کرکے یا کم از کم پس پشت ڈال کر محض اور صرف بلوچستان کے بیرک تلے جمع ہوجائیں گے اور اسی ایک علامتی بیرک تلے اپنی شناخت کی اجتماعیت کا اظہار کریں گے، لیکن ایسا نہ ہوا جو کہ مثبت ہرگز نہیں تھی لیکن بلوچستان کی قومی بیرک کو چھوڑ کر صرف تنظیمی یا پارٹی کی بیرک کو ہاتھ میں رکھنے سے بہت سارے پارٹی و تنظیموں کے حوالے سے یہ تاثر اور شدت زور پکڑ رہی ہے کہ وہ بلوچ و بلوچستان سے زیادہ زاتی و گروہی مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور اسی رویے کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں، اپنے متعلق حیثیت، مقام، عہدہ اور رتبے کو نفی کرتے ہوئے قومی تحریک کے اجتماعی مفادات کی نگہبانی ہی واحد رستہ ہے منزل پانے کا وگرنہ ہر لمحہ بیگانگی و بچھڑجانے کا احساس دامن گیر رہتا ہے، اسی ذاتی و شخصی نمود و نمائش اور گروہی مفادات کو نفی کرکے پارٹی کی بیرک کو اونچا کرنے کے علاوہ ہمیں بحیثیت ایک جہد کار قوم کے اس بیرک کو مضبوطی سے تھام کر بلند کرنا ہوگا جو کہ اس پورے تحریک میں ایک سمبولک (علامتی) حیثیت رکھتے ہیں، اسی لیئے ماضی کے تلخ تجربات و حوادث کو سامنے رکھتے ہوئے ہم فری بلوچستان مومنٹ سے ضرور یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی الگ بیرک متعارف کرنے کی بجائے بلوچستان اور بلوچ قومی امنگوں کے ترجمان اس تحریکی سمبل نما بیرک کو ہی اپنی پارٹی کے کسی بھی نوعیت کی مہم یا سرگرمی میں استعمال کریں گے اور ہمارا یہ دست بستہ عرض ہوگی کہ ایسا ہی کیا جانا چاہئیے۔ گوکہ فری بلوچستان مومنٹ نے ابھی تک پارٹی کی ساختی اعتبار سے کوئی ایسا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ کس ڈگر اور طریقہ ہائے کار پر رہ کر جد و جہد کریگی، یا شاید وہ اسکا اعلان کبھی نہ کریں اور اپنی انہی مہمات اور سرگرمیوں کے طفیل عملی بنیادوں پر قوم کے سامنے دھیرے دھیرے کھلتے جائیں کہ اصل میں ہم کس طرح کام کرنا چاہتے ہیں، ویسے بھی اعلان کرنے سے عمل کرکے دکھانے میں کئی طرح کی بہتریاں موجود ہیں، جہاں سنگت حیربیار کی واشگاف نظریاتی بنیادوں پر مبنی جد و جہد ہے وہ سب پر عیاں ہے کہ وہ کس طرح بلوچستان کی مجموعی وحدت و یگانگت کی بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں سنگت حیربیار باقی دیگر سیاسی پارٹیوں کی قیادت کی طرح کسی بھی ابہام زدگی کا شکار نہ ہوتے ہوئے اپنے تمام پیغامات، بیانوں اور مہمات میں اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے آرہے ہیں کہ وہ عظیم تر بلوچستان (گریٹر بلوچستان) کی بات کرتے ہیں اور اس میں وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ایرانی ملا شاہی کی طرف سے بلوچ عوام پر روا رکھے گئے مظالم پر بھی تسلسل سے بات کرتے چلے آرہے ہیں اور اسی طرح آج بلا تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سنگت حیربیار کے رہنمائی میں تشکیل پذیر پارٹی فری بلوچستان مومنٹ وہ واحد پارٹی ہے جو کہ بلوچستان کے کامل وحدت کی نہ صرف بات کرتی ہے بلکہ عملی بنیادوں پر ان تمام لوگوں سے روابط بھی رکھتی ہے جو کہ بلوچستان کے مغربی مقبوضہ حصے سے تعلق رکھتے ہوئے غلامی کے خلاف جد و جہد میں مصروف عمل ہیں، دوسری طرف بلوچستان میں آذادی پسند تنظیمیں اور پارٹیاں اس مسئلے پر بالکل خاموش ہیں، چاہے وہ بلوچ خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کا عمل ہو یا پھر آئے روز ماورائے عدالت قاجار ریاستی فوج کی کشت و خون میں مارے جانے والے عام بلوچ نوجوانوں کی بات ہو ابھی تک ہم نے کسی بھی طرح سے کوئی مذمتی بیان کوئی اظہار پریشانی کے آثار بجائے سنگت حیربیار کے کسی اور پارٹی یا قیادت کی طرف سے نہیں دیکھے، شاید اس کی وجہ وہ ایران میں مبینہ پناہ گیری کا معاملہ ہوکیونکہ آج کل یہی نقطہ زبان زد عام ہے اور اسکے حوالے سے کچھ آثار وقرائن بھی نمودار ہوتے رہے ہیں، ایک ایسی صورتحال میں جہاں آذادی پسند اور خون کی قیمت پر سیاست کرنے والے کچھ حلقوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہو کہ وہ ایک قبضہ گیر سے دامن چھڑٓانے کے نام پر دوسرے قبضہ گیر سے ہاتھ ملانے اور تحریک کو ان کے ہاں گروی رکھنے کی بھاگ دوڑ میں لگ پڑیں جو کہ سیاسی بیوقوفی اور مصلحت کوشی کی بدترین، مثال ہے تو وہاں فری بلوچستان مومنٹ کے دوستوں کی زمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کہ وہ ان مصلحتوں اور نمود و نمائش کی سیاسی رویوں کی نفی کرکے ایک ایسے متبادل پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں کہ جو بلوچ قومی امنگوں اور آدرشوں کی بلا شک شبہ ترجمان بن کر ابھر سکے، سنگت حیربیار مری کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بلوچستان کی اجتمائی وحدت اور مشترکہ قومی مفادات چاہے وہ ایرانی قبضے میں ہوں یا پھر پاکستانی چنگل میں ان تمام کے بارے گزشتہ کئی سالوں سے کسی بھی سیاسی پارٹی و لیڈر کی طرف سے واضح اور دو ٹوک موقف سامنے نہیں آیا محض سنگت حیر بیار ہیں جو کہ تحریک کے شروعاتی لمحوں سے لے کر آج کے دن تک بلوچ قومی وحدت یعنی گریٹر بلوچستان کے نقطے پر ڈٹے ہوئے پائے جاتے ہیں اور اسکے لیئے سفارتی سطح پر جہاں جہاں ممکن ہوسکے دوستوں کی تلاش میں رہتے ہیں چاہے وہ عرب قوموں کی صورت میں ہو جہاں ایران کو ایک روایتی حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے چاہے وہ امریکی ایرانی چپقلش کی شکل میں ہو یا پاکستان انڈیا اور پاکستان افغانستان کی آپسی جھگڑوں میں ہو یا پھر چین و انڈیا کی سرد مگر دیرینہ مخاصمتی سیاست پر ہو، ہرجگہ سفارتی بنیادوں پر سنگت حیربیار نہ مذہب کو بنیاد بناتے ہیں نہ مذہب کی مخالفت کرتے ہیں، نہ سرمایہ داری و اشتراکی پگڈنڈیوں میں کھو کرسیاسی رومانٹسزم کا شکار ہوجاتے ہیں اور نہ ہی کسی کی دم چلہ یا کرایہ کا قاتل بن جانے پر آمادہ ہوتے ہیں بلوچ کی منشا اور قوت اتنی مضبوط نہیں تو نہیں مگر کسی اور کا جنگ لڑ کر وہ یقینا اس چیز سے واقف ہیں کہ بلوچ اگر پراکسی بن گیا تو کشمیر اور افغان مولویوں کی طرح تا ابد جنگ کی جہنم میں جھونک دیا جائیگا اور نتیجہ محض بہتے اور ضائع ہوتے لہو کی شکل میں نکلے گا، قومی تحریک کو بغیر کسی لگی لپٹی اور ابہام کے قومی سوال کے بنیاد پر ایک بار پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیئے انتھک محنت کی ضرورت ہے جتنی شکست و ریخت و انتشار بلوچ کی اس تحریک نے دیکھی ہے وہ بہت ہے مگر اب بھی امید کی کرن باقی ہے کہ قومی سوال کو لے کر قومی تحریک کی بنیادوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہوں اور اس میں سنگت حیربیار کے سربراہی میں بننے والی پارٹی فری بلوچستان مومنٹ کی زمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں کیونکہ یہ اکیلا ایک بندے کا کام نہیں بلکہ بلیغ نظری اور وسیع سوچ پر مبنی ایک مشترکہ ٹیم ورک ہے جسے سب دوستوں نے ملکر اپنی سنجیدگی سے کامیاب بنانا ہے، ویسع سوچ کا مظاہرہ کرنا اور مضبوط سیاسی رویوں کو اپنانا سب سے اہم ترین شرط ہے، دوسروں کی طرح میری پارٹی، میرا تنظیم اور میرے تنظیم کا بیرک اور نام و پہچان کے پیچھے بھاگ کر کبھی بھی بلوچ قوم اور قومی تحریک آذادی کا بھلا نہ ہوسکے گا، اگر انہی مسئلوں میں سب الجھے رہے تو قومی تحریک کو آگے لیجانے کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ فری بلوچستان مومنٹ کی طرف سے اس امر کا عملی اظہار کہ وہ صرف بلوچستان کی قومی بیرک تلے اپنے ایجنڈوں اور مقاصد کو لے کر آگے جائیگی باعث اطمینان ہے، گرچہ ممکن ہے کہ انکی یہ پالیسی نہ ہو لیکن چینی حکومت کی طرف سے ہونے والی اس حرکت نے بلوچستان کی قومی بیرک کی ضرورت اور ہمہ وقت موجودگی کی نفسیاتی ڈر نے اس احساس کو مزید شدت عطا کی ہے کہ بلوچستان کی بیرک اب ہر جگہ اور ہر معاملے میں ناگزیر بن جائے، اور خود سنگت حیربیار کی طرف سے اس بات کا علی العلان دہرانا کہ یہ ہماری قومی بیرک ہے اسے ہم کبھی نہیں چھوڑیں گے اور کسی کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے، یہ اس بات کو مزید تقویت بخشتی ہے کہ فری بلوچستان مومنٹ سنگت حیربیار کی رہنمائی میں آگے جاکر کم از کم گروہی اور ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر بطور مشینری استعمال نہیں ہوگی، جیسے کہ بہت ساری دیگر پارٹیاں آذادی کے نام پر نمود و نمائش کی گندگی میں گھٹنوں گھٹنوں ڈوب چکے ہیں، سنگت حیربیار کا یہ فخریہ شان سے دیا گیا پیغام دنیا کی دیگر طاقتوں کے ساتھ ساتھ خود بلوچ قوم کے لیئے بھی ہے کہ اگر آذادی کی حصول کو ممکن بنانا ہے تو اسی ایک عظیم الشان بیرک تلے آکر جمع ہوجائیں، گروہی زاتی اور نمود و نمائش پر مبنی سیاسی رویوں کی حوصلہ شکنی کریں۔