دوشنبه, اکتوبر 21, 2024
Homeآرٹیکلزآؤ صبا کو کچھ اور انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں...

آؤ صبا کو کچھ اور انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ،؛ ساکا خان

آؤ صبا کو کچھ اور انداز میں
خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

تحریر: ساکا خان

ایک ادیب ، ایک شاعر اور ایک سماجی
رہنما کی حیثیت سے صبا دشتیاری کو بلوچ کا بچہ ، بچہ برسوں سے جانتا اور پہچانتا تھا۔ مگر اس درویش صفت مرد_ملنگ کی مقبولیت بلوچستان کی طول و عرض میں اُس وقت بہت زیادہ نمایاں رہی جب اُنھوں نے تن اے تنہا سید ریفرنس لائبریری کے نام پر ایک بہت بڑے ادبی ادارے کی قیام کی زمہداری اپنے سر لے لی۔
اور اپنے قوم و زُبان سے دیوانگی کی حد تک محبت کرنے والے بلوچ فرزند نے شبانہ روز محنت اور جہد و جتن کے بعد کراچی شہر( ملیر) میں اپنی مشن کی کامیابی کا جھنڈا گھاڑ دیا۔
کہنے کو تو بہت کچھ آسان ہے مگر ہر مشن کی کامیابی کی راز جہد مسلسل کی کوششوں اور قربانیوں کے پیچھے پوشیدہ ہوتی ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ اِس لائبریری کی قیام کو ممکن بنانے کیلئے شہید صبا دشتیاری صاحب نے کراچی،مغربی و مشرقی بلوچستان، خلیج اور یورپ میں موجود ہر بلوچ آستانے پر دستک دے کر چندہ اکٹھا کر لیا۔
اور اپنے اعتماد کے ساتھیوں کی مدد سے بلوچ قوم کو ایک اعلی درس و دانش گاہ کا مالک بنا دیا۔ اپنے قوم میں علم دوستی و زُبان دوستی کے جزبے کو جلا بخشا۔
یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے اپنے زندگی کے آخری ایّام میں بلوچ قوم کی درس و تدریس اور بہتر رہنمائی کی خاطر جامعہ بلوچستان میں شعبہ لسانیات و اسلامیات سے منسلک کردیئے۔

اگر اُستاد صبا اب تک زندہ رہتے تو ہم سب کی بہتر رہنمائی کر سکتے تھے۔اور اپنی قوم ، زبان اور وطن کیلئے نمایاں کارنامے سرانجام دے سکتے تھے مگر اُنکےجزبہ_قربانی شاید اُس نہج پر پہنچے تھے کہ اُن سے زندگی سنبھالا نہ جا سکا۔ اِس لیئے اُنہوں نے رواں قومی تحریک میں مخفیانہ و غائبانہ سیاست کے پردے پھاڑ کر بہ نفس_نفیس جنگ_آزادی میں ایک گوریلا سپائی کی طرح کردار ادا کرنے کو زیادہ ترجیح دیا۔

گو کہ اُن کے شِدت_جزبات اتنے اُبھر گئے تھے کہ وہ خود پر اب مزید قابو نہیں پا سکتا تھا۔ لیکن بڑے ادب کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ ہم سب کا فرض تھا( ہم سے مراد سیاسی اکابرین اور بلوچ دانشور حضرات) کو اُنکو روک لیتے۔
کیونکہ ہمارے لیے شہید اُستاد صبا سے زندہ صبا زیادہ اہم تھا ! زندہ رہ کر وہ اپنے قوم کو ، اپنی زُبان کو، اپنی وطن کو اور سب سے اہم موجودہ قومی تحریک کو بہت زیادہ فائدہ پہنچا سکتا۔میرے نزدیک شہید غلام محمداور شہید قندیل صبا کی شہادت سے قومی تحریک کو بہت بڑی دھچکہ پہنچ گئی۔ کیونکہ اُنکے شہادت کے بعد پارٹ آف موومنٹ ٹکڑوں میں بکھر گئے اور بکھرتے جا رہے ہیں۔ موجودہ قیادت بلوچ سیاسی و عسکری مسائل و مشکلات پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ دوریاں، تلخیاں اور من مانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
ایسے میں صبا جان کی عدم موجودگی کو سیاسی و ادبی حلقوں میں شّدت کیساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔مخلص،ایماندار اور قابل رہنماؤں کو ہمیشہ جزبات کے بجائے بصیرت سے کام لینا چاہیے کیونکہ لشکر کیلیے سپہ سالار اور سفر کیلیے رہنما کی ہونے کا شرط لازمی ہے۔

شہداء کی عظمت و حُرمت کی پہنچ میری قلم سے بہت دور ہے۔ اِس لیئے اگر غلطی یا غیر دانستگی کیوجہ سے کوئی لفظ یا جملہ گستاخی کی زُمرے میں آتی ہے تو در گُزر کیا جائے۔

آخر میں شہید قندیل کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ کہ انہوں نے اپنی زندگی میں علم کی جتنی چراغیں روشن کیئےتھے ۔اُن کی لہو سے وہ چراغیں ایک خوشحال سحر تک روشن رہینگی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز