Homeآرٹیکلزآج سرمچاروں کو جدید حربی تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھلنا ہوگا

آج سرمچاروں کو جدید حربی تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھلنا ہوگا

ھمگام  آرٹیکل

تحریر: بیورغ بلوچ

دوسری جنگ عظیم کے بعد تاج برطانیہ کے لیئے متحدہ ہند اور منقسم کردہ بلوچستان کے مشرقی حصے پر قبضہ و اجارہ داری جب مزید جاری رکھنا ممکن نہ رہا تو برطانیہ, ہند کو تقسیم کرکے پاکستان و ہندوستان کے نام سے دو ممالک بنایا اور مشرقی بلوچستان کے ایک حصہ جو ڈائرکٹ برطانیہ کے زیر کنٹرول تھی (جو برٹش بلوچستان کے نام سے جانی جاتی تھی) کو نومولد پاکستان کے حوالے کرکے چلتا بنا۔ اس سے پہلے بلوچستان کے مغربی حصے کو ایران اور شمالی حصے کو افغانستان کے حوالے کرچکے تھے۔

11 اگست 1947 کو بلوچستان اپنی آزادی کا اعلان کرتا ہے اور نومولود پاکستان پہلا ملک بن جاتا ہے جو بلوچستان کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرتا ہے۔ لیکن بعد میں نیت بدل کر قابض برطانیہ سے حاصل شدہ فوج کی قوت سے کلات پر حملہ کرکے بلوچستان پر جبری قبضے کا باقاعدہ آغاز کرتا ہے۔ تب سے لیکر آج دن تک بلوچستان بطور ریاست اور بلوچ  بطور قوم اس جبری قبضے کے خلاف دفاعی مزاحمت میں مصروف عمل ہیں اور دشمن کو یہ یقین دلا چکے ہیں کہ بلوچ ریاست دشمن پاکستان کے جبری قبضے کو آخر دم تک تسلیم نہیں کریں گے بلکہ بطور ریاست مزاحمت جاری رکھا جائے گا۔

مگر کمزور، منقسم بلوچ ریاست اپنے قوم کے بل بوتے پر مزاحمت کرتے ہوئے آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس کے  پاس محدود وسائل کے باوجود پرعزم چھاپہ مار فوج موجود ہے جو دشمن فوج پر پہ در پہ دفاعی کاروائیوں سے دشمن کی زمینی فوج کو منظم اور طاقت ور ہونے کے باوجود بری طرح ناکام کرچکے ہیں۔ جسکے بعد دشمن ریاست کے پاس بلوچستان میں ٹکے رہنے کے لیئے اور بلوچ فوج کا مقابلہ کرنے کے لیئے واحد راستہ اسکی فضائیہ اور جدید ڈرون ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال ہے۔

جس طرح کوئی بھی دو دشمن جب آمنے سامنے ہوتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے طاقت اور کمزوریوں کا پتہ لگاکر اس مطابق اپنے فوج، طاقت، وسائل کو ڈھالتے ہیں تاکہ خطروں اور نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ بلوچ فوج کو بھی  چاہیے اسکی طاقت و وسائل کس بھی شکل میں ہو (ریگیولر، نیم ریگیولر، یا چھاپہ مار) اس کو ایک پروفیشنل فوج کی طرح سوچھنا اور عمل کرنا ہوگا جس میں اپنی اور دشمن کی صلاحیتوں اور دستیاب وسائل کے مطابق فیصلہ سازی کرنی ہوگی۔ آج کے سرمچاروں کو جدید حربی تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھلنا ہوگا۔

Risk mitigation: پچھلے ایک سال سے جس طرح ڈرون حملوں سے دشمن نے بلوچ فوج کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں ان جیسے مزید نقصانات سے بچنے کے لیئے بلوچ فوج کو رسک میٹیگیشن یعنی خطرات کم سے کم کرنے کی طریقہ کار پرکام کرنا ہوگا۔ جس کے لیئے پہلا کام دشمن کے پاس موجود صلاحیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا  ہے ۔

مثلا: دشمن کے پاس کون کون سے اور کس کس قسم کے آپریشنل ڈرون موجود ہیں جن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان ڈرون میں کیا کیا صلاحیت موجود ہیں۔ جیسے فضاء میں موجود رہنے کا دورانیہ، نیویگیشن سسٹمڈیٹا لنک، میزائل اور مختلف وار ہیڈ ، ڈرون کہاں سے اڑان بھرتے ہیں، ان ڈرون کی ہینگر Hanger لوکینشن کوآرڈینیٹس، ان ڈرون کی Kill Radius اور اس کے اثرات!

ان جیسے کئی معلومات حاصل کرنے کے بعد اور ان کے تجزئیے کے بعد ان ڈرون کاروائیوں میں ممکنہ خامیوں کو تلاش کیا جانا چاہیئے جس سے فائدہ اٹھا کر بلوچ فوج ان نقصانات کے امکانات کو کم سے کم کرسکتی ہیں

مثلا: اگر دشمن آپ کے پاس موجود آلات سے نکلنے والی ریڈیو سگنل سے آپ تک پہنچ جاتی ہیں تو اپ ان آلات کو بند کرکے اپنے سپائیوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔اگر دشمن  پہاڑوں میں بنے راستوں کی نگرانی کرکے اپ کے ٹھکانے تلاش کر رہی ہے تو آپ اپنے راستے بدل کر خطروں کو کم سے کم کرسکتے ہیں،

اگر دشمن مقامی جاسوسوں

Exit mobile version