تحریر: محمد اکبر مری

بلوچستان وسائل کے ساتھ ساتھ مسائل کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔یہ بات پاکستان کے ہر فرد کو معلوم ہے کہ سر زمین بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے بھی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اسی طرح بلوچستان کا زیر زمین اور پشت زمین ہر معدنیات سے مالا مال ہیں اور بلوچستان کے سارے معدنیات اور وسائل بلوچستان کے لوگوں کے ہاتھوں کی بجائے پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور بلوچستان کے لوگ آج بھی سو سال پیچھے پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور بلوچستان کے لوگ زندگی کی ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔

یہ صوبہ معدنیات کے لحاظ سے پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہے مگر اس کے لوگوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے اور جو ظلم، جبر، تشدد اور بربریت بلوچستان میں ہورہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ بلوچستان سے جتنے بھی معدنیات نکلے وہ بلوچستان کے لوگوں کی فائدے کی بجائے ان کے لیے وبال جان بن گئے، شاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے بلوچستان کے لوگوں کو ان کی تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا اور بلوچستان کے لوگوں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ہزاروں بلوچ افراد کو لاپتہ کیا گیا اور بہت ساروں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکا گیا وجہ صرف یہی تھا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کررہے تھے اصل بات تو یہ ہے کہ قابض ریاست کا اولین مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے بلوچستان کے وسائل اور معدنیات پر قبضہ کیا جائے اور وہ اپنے اس مقصد میں ایک حد تک کامیاب بھی ہو گئی ہےاور اب ان کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کے بلوچ لوگوں پر تشدد، جبر، ظلم اور قتل و غارت کریں تا کہ ان کا نام اور شناخت ہی مٹ جائے مگر قومیں مارنے سے ختم نہیں ہوتیں شاید یہ چیز اسلام آباد کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان چیزوں سے فقط نفرت ہی میں اضافہ ہو جائے گا اور بلوچ کی آواز دبنے کی بجائے اور زیادہ بلند ہو جائے گی اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں سے سینکڑوں لاپتہ افراد کو قتل کرکے ان کے لاشوں کو پھینکا گیا اور سینکڑوں اور ہزاروں لوگ ابھی تک بھی لاپتہ ہیں ۔

اسی طرح کچھ دن پہلے بلوچستان کے علاقے تربت میں سے ایک نوجوان جس کا نام بالاچ بلوچ تھا جس کو پہلے تو سی ٹی ڈی کے لوگوں نے مبینہ طور پر لاپتہ کیا تھا اور اس کے بعد اس کو (CTD) نے قتل کر کے پھینک دیا، الزام یہ لگایا کہ دہشت گردوں کی نشاندہی کے دوران دہشت گردوں کے جانب سے فائرنگ کے تبادلے میں بالاچ کو گولی لگی۔ اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سی ٹی ڈی کے جو لوگ وہاں بالاچ کو لے کر نشاندہی کرنے گئے تھے کیا ان کے ساتھ کوئی سی ٹی ڈی کا اہلکار نہیں تھے؟! اگر تھے تو کیوں کسی کو کوئی خروش تک نہیں آیا؟! اور ان کے لواحقین کو زبردستی مطمئن کرنے مختلف طریقے اپنائے گئے۔حالانکہ بالاچ بلوچ کو پہلے سے مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور پھر اس کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے اس کا لاش واپس بھیج دیاگیا اور بھی اس طرح کے سیکڑوں نوجوانوں کو بلوچستان سے اٹھا کر ان کو لاپتہ کیا گیا اور پھر بعد میں انہیں قتل کیا گیا ۔مملکت خداداد میں عدالتوں کے عمارات اور ان عمارتوں میں بیٹھے ججز صاحبان کی ان عدالتوں میں بیٹھنے کا کوئی فائیدہ نہیں ہے کیونکہ ان سے قانون کی حکمرانی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔اگر کوئی ریاست کسی مجرم کو عدالت میں پیش نہیں کر سکتا تو طاقت کو قانون بنانا اس ریاست کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن سکتا ہے جس طرح کہ پاکستان بن چکا ہے۔

ہم نے کب زخم پر اپنے ہی، نمک مانگا تھا۔

یہ خوشی اور نوازش ہو، مبارک تم کو،

ہم نے خیرات نہیں مانگی، اپنا حق مانگا تھا۔

لیکن یہاں اگر عدالتیں ہیں تو صرف اسٹیبلشمنٹ اور بڑے سیاسی لوگوں کیلئے کھڑی ہیں یہاں اگر عدالتیں ہیں تو اس کے دروازے صرف اور صرف ان بڑے جابر، ظالم اور بے رحم سیاسی رہنماؤں کے مفاد کیلئے کھلتے ہیں، ان عدالتوں میں ججز کا کردار اور پیشہ صرف پیسوں کے لیے ہوتا ہے اور اگر کوئی سیاسی بدمعاش وہ چاہے کتنا بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو اس کو گھر میں بیٹھے بیٹھے معاف کیا جاتا ہے اور باعزت اور پروٹوکول کے ساتھ ان کو رہا کیا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے بے بس غریب لوگوں کیلئے ریاست پاکستان کی عدالتوں کے ججز اور سیاسی رہنما کسی فرعون سے کم نہیں ہیں۔

جب ظلم بڑھے اور حد سے بڑھے آواز اٹھانا لازم ہے،

جب حاکم ظالم جابر ہو،

 خود کیلئے لڑنا واجب ہے!