اگر آپ دنیا میں کامیاب تحریکوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ شاید ہی ایسی کوئی تحریک رہی ہو جہاں صرف اور صرف عروج رہا ہو اور وہ زوال سے پاک ہو۔ جہاں تک میری معلومات کا سوال ہے اور جن جن آزادی کی تحریکوں کے بارے میں میں نے پڑھا یا سنا ہے ان سب میں کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں اتار چھڑاؤ دیکھے گئے ہیں۔ چاہے وہ انگولا کی آزادی کی کامیاب تحریک ہو یا کہ کردوں کی کئی سالوں سے جاری جنگ، ہمیں یہ دکھاتی ہیں کہ ان میں کئی اتار چھڑاؤ رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بہترین جنگی سپاہی یا کمان وہی ہوتا ہے جو حالات کے ساتھ موثر فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہو، بلکل اسی طرح بہترین لیڈرز بھی وہی ہوتے ہیں جنہیں پتا ہو کہ موجودہ علاقائی و عالمی حالات کے مطابق کب اور کہاں کیسا فیصلہ لینا چاہئیے اور تنظیم و قوم کو کس سمت لے جانا چاہئیے، اور یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ ایک پوری قوم کی رہنمائی کرنا اور اپنے لیے گئے فیصلے سے پورے قوم کو مطمئن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ہم جو بات کررہے تھے تحریک آزادی میں اتار چڑھاؤ کی تو چلیں ایسی ہی کچھ تحریکوں کا ذکر کرکے دیکھتے ہیں جنہیں بہت سی اتار چھڑاؤ اور دشواریوں کے بعد اپنی مقصد و منزل ملی اور کچھ ابھی تک جاری ہیں۔
ہندوستان جو کئی دہائیوں تک برطانوی سامراج کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑتا رہا جہاں بے شمار ہندوستانیوں نے قربانیاں دیں۔ ہندوستان جو حال کے دور میں دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اسے بھی اپنی آزادی کی راہ میں کئی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا، جہاں بات کبھی منگل پانڈے کی شکل میں فوج سے بغاوت کی ہو، جھانسی کی رانی کا دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ ہو، بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اور چندر شیکر آزاد کا جذبہ ہو یا سُبھاش چندر بوس کی مزاحمت، ان سب کے دور میں تحریک میں ابھار آئی تو ساتھ میں اتار کا بھی منہ دیکھنا پڑا مگر ان کی کامیابی کا اصل مقصد صرف ایک بات پر بنی رہی ” لگاتار کوشش کرتے جانا” اور انہوں نے وہی کیا اور آخر کار اپنی منزل تک آں پہنچے۔
اسی طرح اگر ہم انگولا کی آزادی کی تحریک کا مطالعہ کریں تو اس سے زیادہ ڈرامائی تحریک شاید ہی کوئی ہو، جہاں ہمیں ایم پی ایل اے جیسی بنیادی تنظیم و ایگستینو نیتو جیسا مخلص لیڈر ملے وہیں ہمیں یو پی اے جیسی غیر ذمہ دار تنظیم و رابرڈو ہولڈن جیسا مفاد پرست لیڈر بھی دیکھنے کو ملے گا جو اپنی ایم پی ایل اے اور ایگستینو نیتو سے آگے نکلنے کیلئے خود اپنی سرزمین کے آدھے سے زیادہ حصے کو ماننے سے انکار کردیتا ہے اور اپنی طاقت منوانے کیلئے دشمن سے ہاتھ ملا دیتا ہے، مختلف پروپیگنڈہ سمیت ایم پی ایل اے کے ساتھیوں پر حملہ آور ہوکر ان کا قتل عام بھی کرتا ہے مگر ایم پی ایل اے جیسی منظم تنظیم کو ختم کرنے میں ہمیشہ ناکام ہوجاتا ہے، ہاں البتہ وقتی طور پر ایم پی ایل اے کو کمزور کرنے میں ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایم پی ایل اے وہی تنظیم ہے جو انگولا کی آزادی کیلئے سب سے پہلے قدم اٹھاتا ہے مگر جلد بازی و کم تجربے کی وجہ سے جب پہلی دفعہ ناکام ہوجاتا ہے تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے مایوس ہونے کی بجائے اپنی جنگ کو روک دیتا ہے اور ایگستینو نیتو اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت گفت و شنید کرکے ایم پی ایل اے کو وقتی حالات، جغرافیہ، اور اپنی طاقت کے مطابق نئی پالیسیاں تیار کرتا ہے جو آگے چل کر انگولا کو مکمل آزادی دلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ کرد جو رشتے کے حساب سے بلوچ کے کزن کہلاتے ہیں ان کی تحریک آزادی کا اگر ہم مطالعہ کریں تو پی کے کے جو کردوں کا سب سے منظم پارٹی ہے وقت اور حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے دشمن سے کئی بار جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان کرچکا ہے، مگر آج کردوں کی تحریک کہاں پہنچی ہوئی ہے ہم سب کے سامنے ہے۔
شاید میں غلط ہوں لیکن جہاں تک میرے مطالعے کا تعلق ہے جنگ کے دوران جنگ بندی ہر اس دستے یا پارٹی کیلئے ایک موقع ہوتا ہے خود میں موجود غلطیوں کی اصلاح کرنے کا، مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ایک روایت پیدا ہوگئی ہے کہ جنگ بندی تو دور کی بات اگر ایک تنظیم خود کو بہتر بنانے کیلئے وقتی طور پر اپنی پالیسیوں میں ذرا سی کمی لائے تو ہمارے توپو ماسٹرز توپ داغنا شروع کردیتے ہیں کہ سرینڈر ہوچکا ہے، یہ بک چکا ہے، فلاں تنظیم و اس کے ساتھی تھک چکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اب بی ایل اے ہی کو دیکھ لیں اس کے اندرونی راز کے بارے میں کس کو پتا؟ کیا پتا بی ایل اے کی خاموشی طوفان سے پہلے آنے والی خاموشی ہے، کیا پتا بی ایل اے کی خاموشی خود کو بہتر بنانے کی تیاری ہے اور کیا پتا بی ایل اے کی خاموشی اس بار وہ سب کچھ ساتھ لانے کی تیاری ہے جو ابھی تک بلوچ تحریک میں کوئی بھی نہ کرپایا۔
بہرحال دو سال کی طویل خاموشی کے بعد بی ایل کی طرف سے قابض پاکستانی فوج پر بولان، گوادر و کوہلو حملے میں یہ تو معلوم ہوگیا کہ بی ایل اے کو کوئی ختم نہیں کرسکتا، البتہ ایم پی ایل اے کی طرح وقتی طور پر کمزور کرسکتا ہے اور خود بی ایل اے کرد و دوسرے کئی آزادی کی تحریکوں کی مانند دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معمولی سا بریک لیکر ازسر نو نئی طاقت و طریقہ کار کے ساتھ دشمن پر قہر برسانے کیلئے ہمیشہ تیاریوں میں جڑا ہوا ہے۔
میں بلوچ قوم کو اپنی اس تحریر کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دنیا کی سیاست پر نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ دوسرے کامیاب، ناکام و جاری تحریکوں پر اپنی نظر رکھیں اور خود مطالعہ کریں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی کل کو آپ کو اپنے چار جذباتی اعمال، باشن و لبزوں سے بہکا سکے، الزام لگانے والے و ٹوٹ پھوٹ پیدا کرنے والے اس جنگ کے آخر تک اور اس کے بعد بھی رہیں گے اس بات کا ہمیں علم ہونا چاہئیے مگر ان مفاد پرست افراد سے بچنے کیلئے یہی درخواست کرنا چاہوں گا اپنی قوم سے کہ بلوچ تحریک کو روز اول اور بنیاد سے مطالعہ کرکے دیکھیں تو آپ لوگوں کو یہاں اس تحریک میں موجود ہر شخص کا کردار بخوبی واضح اور کھلی کتاب کی مانند ملے گا۔