ہر تحریکِ آزادی کے پرچم کے نیچے ایک غیر محسوس خطرہ چھپا ہوتا ہے، ایک ایسا زہر جو بیرونی دشمنوں سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے—یہ خطرہ ہے تنقید کو برداشت نہ کرنے کا۔ قومی آزادی کی تحریکیں، جو عموماً ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کے طور پر جنم لیتی ہیں، انسانی عزم اور جدوجہد کی عظیم علامت سمجھی جاتی ہیں۔ مگر کسی بھی تحریک کی کامیابی محض اس بات پر منحصر نہیں ہوتی کہ وہ قابض قوتوں کو شکست دے یا اقتدار پر قبضہ کرے؛ بلکہ اس کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ آزادی کے ان اصولوں کو برقرار رکھتی ہے یا نہیں جن کی بنیاد پر اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ جب کوئی تحریک اختلافِ رائے کو دبانے لگے اور خاموشی کو اتحاد سمجھ بیٹھے۔

تو درحقیقت وہ اپنی ہی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ آزادی کا مفہوم صرف غیر ملکی تسلط سے نجات حاصل کرنا نہیں، بلکہ خوف، استبداد اور بے لگام اقتدار سے چھٹکارا پانا بھی ہے۔ جب کوئی تحریک تنقید کو دبانے لگے، تو وہ درحقیقت اس جبر کو خود اپنے اندر پیدا کر رہی ہوتی ہے، جس کے خلاف اس نے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ پاولو فریرے نے بجا طور پر کہا تھا۔

“انقلابی کا کام یہ نہیں کہ وہ عوام کو طاقت کے ذریعے آزاد کرے، بلکہ وہ ان کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد کرے۔”

تاریخ میں ایسی بے شمار تحریکوں کی مثالیں موجود ہیں جو دشمن کو شکست دینے کے بعد اپنی ہی عوام کی آزادی کو سلب کرنے لگیں۔ جب تنقید کو غداری سمجھا جانے لگے اور اختلاف کرنے والوں کو دشمن قرار دے دیا جائے، تو تحریک اپنے اصل مقصد سے دور ہو جاتی ہے۔

تنقید کسی بھی تحریک کے لیے ایک آزمائش ہوتی ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں وہ اپنی کوتاہیوں کو دیکھ سکتی ہے اور خود کو بہتر بنا سکتی ہے۔ لیکن جب ایک تحریک اس آئینے کو توڑ دیتی ہے، تو وہ خود کو درست کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔ تحریکیں اکثر عوام کے دکھوں اور ان کے خوابوں کے سہارے پروان چڑھتی ہیں، لیکن جب وہ اقتدار حاصل کر لیتی ہیں، تو سب سے پہلا امتحان ان کا یہی ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کے ساتھ انصاف کیسے کرتی ہیں۔ اگر تنقید کا گلا گھونٹ دیا جائے، تو یہ تحریک ایک نئی آمریت میں تبدیل ہو جاتی ہے، وہی آمریت جس کے خلاف اس نے جدوجہد کی تھی۔

سب سے خطرناک جبر وہ ہوتا ہے جو خود کو نجات دہندہ کے روپ میں پیش کرے۔ آزادی کی تحریکیں، جب اپنی کامیابی پر نرگسیت کا شکار ہو جاتی ہیں، تو اختلاف کو دھوکہ اور سوالات کو بغاوت سمجھنے لگتی ہیں۔الجزائر کی آزادی کی جدوجہد، جس نے فرانس کے نوآبادیاتی جبر کو ختم کیا، ایک تاریخی فتح تھی، مگر آزادی کے بعد جب الجزائر کے نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN) نے تنقید کو دبانا شروع کیا اور ایک جماعتی نظام قائم کیا، تو وہی ملک جسے آزادی ملی تھی، سیاسی جمود اور استبداد کی لپیٹ میں آ گیا۔ اسی طرح، زمبابوے میں رابرٹ موگابے کی قیادت میں زیمبابوے افریقن نیشنل یونین (ZANU) نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اختلاف رائے کو دبانے کی پالیسی اپنائی، نتیجتاً یہ ملک شدید معاشی بدحالی اور جبر کا شکار ہو گیا۔

ہر وہ تحریک جو اپنی راہ میں آنے والے سوالات کو دبانے لگے، درحقیقت خود کو جمود میں دھکیل دیتی ہے۔ پاولو فریرے کے الفاظ میں۔

“آزادی کوئی ایک لمحہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل عمل ہے، جو خود احتسابی، سوال اور تنقید کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔”

جو تحریکیں تنقید کو برداشت نہیں کرتیں، وہ نہ صرف اپنی فکری ترقی کو روکتی ہیں بلکہ اپنی قوتِ استدلال بھی کھو دیتی ہیں۔ ان کی سوچ محدود ہو جاتی ہے، اور وہ نئی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ وہی اصول اور نظریات جنہوں نے ابتدا میں انہیں طاقت بخشی تھی، وقت کے ساتھ فرسودہ ہو جاتے ہیں، لیکن چونکہ کوئی تنقید سننے کو تیار نہیں ہوتا، اس لیے وہ پرانی روش پر چلتی رہتی ہیں اور زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ جو تحریکیں تنقید سے گھبراتی ہیں، وہ خود جبر کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ اختلافِ رائے کو خاموش کرنے کا عمل انتشار کو جنم دیتا ہے، گروہ بندیوں کو فروغ دیتا ہے، اور آخرکار وہی لوگ جو کسی وقت ایک ہی محاذ پر کھڑے تھے، آپس میں دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ فریرے ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ:

“مظلوم، اگر آزادی کے شعور کے بغیر اقتدار حاصل کر لے، تو وہ خود بھی جابر بن سکتا ہے۔”

یہی وہ خطرناک چکر ہے جس میں کئی آزادی کی تحریکیں پھنسی ہیں۔ وہ طاقت حاصل کرنے کے بعد انہی ظلم و ستم کے طریقوں کو اپنا لیتی ہیں جن کے خلاف انہوں نے لڑائی لڑی تھی۔ جب ان پر تنقید کی جاتی ہے، تو وہ اسے دشمنوں کی سازش قرار دیتی ہیں۔ جب لوگ ان سے سوال کرتے ہیں، تو وہ انہیں باغی کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ایسی تحریکیں آخرکار کمزور ہو جاتی ہیں اور اپنی ہی عوام کے دلوں سے نکل جاتی ہیں۔

سچی آزادی وہ ہوتی ہے جس میں سوال کرنے، اختلاف کرنے اور احتساب کرنے کا حق حاصل ہو۔ محض اقتدار کا حصول آزادی نہیں، بلکہ آزادی وہ ہے جس میں حکمران بھی جوابدہ ہوں اور عوام بھی اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ جو تحریک حقیقی معنوں میں انقلاب لانا چاہتی ہے، اسے خود پر سوالات اٹھانے کی ہمت رکھنی چاہیے، کیونکہ اصل انقلاب وہ ہوتا ہے جو کبھی رکتا نہیں، جو کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ سچی آزادی کی پہچان یہ نہیں کہ لوگ خاموش رہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی رائے دے سکیں، اور ان کی آواز سنی جائے۔