تحریر: بلوچ خان
ہمگام آرٹیکل
انسانی تاریخ دراصل ہر وقت قومی ہیروز کے گرد گھومتی رہتی ہے جنہوں نے اپنے قوم اور معاشرے کی کامیابی کی خاطر گراں قدر خدمات سر انجام دے کر اپنے قیمتی جان اور مال کو داؤ پر لگا کر قربان کی ہیں۔
آج میں ایک ایسے عظیم ہستی کے بارے میں چند سطرے لکھنے کی کوشش کروں گا جو شاہد اس کے قربانیوں کو بیان کرنے کے لئے کافی نہ ہو مگر کم سے کم اسے یاد کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی معمولی سی کوشش ضرور ہو گی۔
بلوچستان اور بلوچ قوم پر جب مصیبت آتی ہے تو اس کے بطن سے قومی ہیروز آسا جان عرف میجر ملا ابرہیم ضرور جنم لیتے ہیں جو خان محراب خان کے یاد کو تازہ کرتے ہیں جنہوں نے قابض کے خلاف مزاحمت کر کے آنے والے نسلوں کو بہادری اور مزاحمت ورثے میں دیا۔
آسا جان 1988 کو حاجی محمد امین حسین زئی کے گھر کلی گوزگی خاران میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی تعلیم خاران شہر کے ماڈل ہائی اسکول میں ہوتی ہے ۔اسکول تعلیم کے بعد جب کالج میں داخلہ لیتا ہے تو بلوچستان میں مزاحمت کی شدت باقی نوجوانوں کی طرح اسے بھی ہوتا ہے جس وقت ہر نوجوان قومی آزادی کے بارے میں بولنے اور سوچنے شروع کرتے ہیں اور یہ وہی 2005 کا زمانہ تھا جب شہید نورالحق عرف بارگ جان اور اس کے دوسرے دوست خاران میں مزاحمتی سیاست کے سنگ میل رکھتے ہیں۔
آسا جان 2005 کو باقاعدہ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاست کے آغاز کرتے ہیں اور جب اگست 2006 کو نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کا تاریخی واقعہ پیش آتا ہے تو وہ کافی تکلیف دہ ہو کر اپنے دن رات کو قومی آزادی کے فلسفے پر وقف کرتے ہیں ۔وہ بی ایس او آزاد خاران زون کے مختلف عہدوں پر سیاست کر کے نوجوانوں میں قومی آزادی کے بارے میں سوچ اور شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بی ایس او آزاد کے وال چاکنگ، پمفلٹنگ سے لے کر ہر پروگرام کو کامیاب کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔کبھی وہ بی ایس او کے جھنڈی ہاتھ میں لے کر کسی کمبے میں لگاتا نظر اتا تو کبھی خاران کے گلی گلی میں آزاد بلوچستان کے مقدس نام کو لکھتے ہوئے نظر آتا ۔
جب غلام محمد اور لالا منیر کا واقعہ پیش اتا ہے تو خاران میں سیاسی پارٹیوں اور خاص کر بی ایس او آزاد کے طرف سے سیاسی مزاحمت میں شدت آتی ہے تو آسا جان کے مرکزی کردار کی وجہ سے وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ گرفتار ہوتا ہے اور پھر بعد میں اسے 6 مینے تک خضدار سنٹرل جیل میں حراست میں رکھا جاتا ہے۔جیل سے رہائی کے بعد اس کے دوست مصالحت پسندی کے شکار ہو کر خاموشی اختیار کر کے گمنامی کے زندگی اختیار کرتے ہیں مگر اسا جان کے حوصلے مزید مضبوط ہو کر راسکوہ کے پہاڑ کی مانند اونچا ہوتے ہیں اور وہ آپنے سوچ اور خیالات کو بلوچ نوجوانوں کے سامنے کھل کر رکھتے ہوئے مزاحمت اور قومی جنگ کی ترغیب دیتے ہیں ۔
جب 2010 کا زمانہ آتا ہے تو شہید نورالحق عرف بارگ جان ،شہید نثار سیاپاد عرف میرل جان اور ان کے باقی جانثار دوست فیصلہ کرتے ہیں کہ اب اپنے مزاحمتی جدوجہد میں تیزی لا کر خاران کو بلوچستان کے مزاحمتی سطح میں ایک نام ،پہچان اور قدر دیں گے اور اس میشن کے لئے ہمیں اپنے آرام اور نجی زندگی چھوڑ کر مشکل راستے پر چلنا ہے تاکہ خاران کے ہر نوجوان ہمیں دیکھ کر ہمت کرہں پھر علاقے اور بلوچ قوم کو ایک مقام دلا سکتے ہیں اور اس عظیم جدوجہد میں ہمیں مصالحت پسندی اور بھاگنے کے بجائے ثابت قدم رہنا ہے تو اس حکمت عملی کے لئے آسا جان اپنے آپ کو پیش کر کے صف اول کردار ادا کرتے ہیں ۔
شہری نیٹ ورک میں ہوتے ہوئے وہ اپنے کام ہمت اور بہادری کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں اور اس دوران ریاستی جبر میں بھی شدت آتی ہے اور اس کے کافی دوست رو پوش ہو کر پہاڑوں کی طرف جاتے ہیں تو وہ اپنا سر نیچا ،خاموشی اور بھاگنے کے بجائے پہاڑوں میں جانے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ شہری نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ اب وہ پارٹی کے کیمپ کو دن رات آپنے خدمات دیتے ہیں ۔
جب 2013 میں تنظیموں کے آپس میں اختلافات ہوتے ہیں تو مرکزی دوست یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رخشاں بیلٹ میں اپنا الگ کیمپ ہو تو اس کی زمہ داری آسا جان، شیہد بارگ،شہید میرل اور باقی دوست اپنے کندھوں پر لیتے ہیں ۔اب وہ شہر کی بجائے اپنا زیادہ تر وقت کیمپ اور دیہاتی علاقوں میں ہی دیتے ہیں ۔وہ کیمپ کے راشن ،اسلحہ ،دوائی ،دوستوں کے جسمانی مشق جنگی طریقہ کار کی تربیت اپنے سر پر لے کر مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ بی ایل ایف کے شور اور لجے کیمپ کی چرچہ پورے بلوچستان میں ہوتی ہے جس کی کامیابی کے پیچھے اس کے عظیم قربانیاں تھی۔ جب جنگ میں مزید شدت آتی ہے تو اس دوران کئی دوست غاہب کئے جاتے اور اور اس دوران آسا جان کے گھر میں کئے فوجی چھاپے پڑتے ہیں اور اس کے 80 سالہ سفید ریش،بوڑھا اور ضعیف والد حاجی محمد امین حسین زئی کو 2 مرتبہ ایف سی کیمپ میں منتقل کرتے ہیں تاکہ وہ اس کے اوپر نفسیاتی دباؤ ڈال کر اسے جدوجہد کے راستہ سے ہٹائیں مگر دوشمن کو یہ پتا نہیں تھا کہ آسا جان نے یہ قسم اٹھایا تھا کہ اسے خاران کو مزاحمتی تحریک اور جنگ کے تاریخ میں ایک قدر اور پہچان دینا تھا اور اس کا ہر عمل اب تاریخ کا حصہ بنا تھا اور اس کے علاقہ اور خاندان کو اس کے اوپر فخر کرنا تھا اور ایسے زندگی پر لعت بیجھتا جس سے خاران اور بلوچ قوم کے اوپر کوئی داغ اور دبہ آتا۔
جب دوشمن نے یہ بھانپ لیا کہ بلوچ قوم اب صرف تشدد ہی کی پالیسی سے دبایا نہیں جا سکتا تو اس نے ڈاکٹر مالک کی حکومت اور اس کے تعاون سے بلوچستان بھر میں سرنڈر پالیسی کا اعلان کیا اور ایف سی کیمپ خاران کے کرنل امین دارہجو اور اس کے ٹیم کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ آسا جان اور اس کے ساتھیوں کو پاکستانی فوج اور اس کے اداروں کے سامنے سرنڈر کرائیں تو انہوں نے اپنے آخری کوشش کی ،اسا جان کو اپنے کارندوں کے زریعے پیسوں کی آفر کی ،اس کے خاندان کے ہر فرد کو اٹھا کر ڈرانے کی کوشش کی،اس کے والد اور بھائی ظاہر احمد حسین زئی کے گھروں میں چھاپے لگا کر پاکستانی جھنڈے بھی لگائے اور اپنے ایجنسیز کے کے ذریعے یہ بات بھی پھیلائے کے اب اس کے والد محترم اور بھائی کے گھروں کو بلڈوزر کر کے بچوں کے کھیلنے کے لئے گراؤنڈز بنائیں گے اور دشمن کی آخری کوشش تھی کہ خاران بھی لسبیلہ ڈسٹرکٹ کی طرح کوئی مزاحمتی تاریخ نہیں بنائیں اور اس جنگ سے اسے دور رکھیں ۔مگر ان ریاستی جبر اور مکھاری کے سارے حربے ناکام ہوئے اور اس نے اپنے جدوجہد کو شدت سے جاری کیا گو کے اس دوران گلابو،احمد نواز ساسولی اور ان جیسے دوسرے بزدل اور کم ظرف ریاست کے سامنے کھلے یا چپکے سے ساز باز کرتے ہوئے ریاست کے لئے سرعام کام کرنے لگے یا تو خاموش ہوئے اور نجی زندگی میں مشغول ہو کر زرا برابر بھی شرمندہ نہ ہوئے۔
جب خاران کے جانباز دوست شہید میرل جان ،شہید سبزو ،شہید بارگ جان اور باقی عظیم دوستوں کے شہادت کے سانحات جنم لیتے ہیں تو آسا جان کو کافی صدمہ ہوتا ہے کہ اب ان دوستوں کا خلا وہ کیسے پورا کریں مگر خاران کے سرمچار ساتھیوں میں جنگی مزاحمت کی ایک نئے لہر پیدا ہوتی ہے جو دوشمن کو دن کے تارے دیکھا کر ان کے کیمپ ،ریاستی ایجنٹس اور ان کے مختلف تنصیبات پر پے در پے حملہ کر کے تاریخی فلسفہ کو دوراتے ہیں کہ بارگ،میرل ،اللہ رام،سبزو،ماجد ڈگارزی،ناصر ڈگارزی،مقبول تگاپی، طارق، عمران اور باقی دوستوں کی شہادت سے ختم ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوتے ہیں اور ہاں اس وقت قومی جدوجہد ضرور کمزور ہوتی ہے جب اس کے سپاہی موت اور ریاستی جبر سے خوفزدہ ہو کر خاموشی اختیار کریں۔
اب آہستہ آہستہ آسا جان شور ،پارود ،نیمرغ اور قلات،مستوگ اور بلوچستان بھر کے مزاحمتی دوستوں اور خاص کر مختلف کیمپوں کے اندر ایک رول ماڈل کمانڈر کے طور پر ڈسکس ہونا شروع ہوتا ہے اور اب آسا جان کے بجائے کمانڈر ملا ابرہیم بن جاتا ہے ۔ریاست کمانڈر ملا ابرہیم کی تیزی سے مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اس کے بھائی غلام جیلانی حسین زئی کو اغوا کرتا ہے مگر پھر بھی اس کے حوصلے اور ہمت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
وہ اپنے کام میں اتنے مگن اور مصروف تھے کہ زاتی زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتے ،جب اس کے دوست اس کو کبھی کبھی بولتے کے ابھی شادی کر کے اولاد پیدا کریں تاکہ کل اپ کی کوئی وارث ہو تو ملا جان کہتا کیمپ میں ٹرننگ کے لئے آئے ہوئے ہر کامریڈ میرے اولاد کی حیثیت رکھ کر میرا ولی وراث ہے تو پھر ملا جان کو شور اور پارود کے کیمپ میں دوست ابا جان کے نام سے پکارتے تھے اور وہ ان کو بیٹے سے مخاطب کرتا رہتا تھا ۔
ملا جان زندگی کے شروع کے دنوں سے بھی کچھ بیماریوں میں مبتلا تھا جس کا 2010 کو اپنڈیکس کا آپریشن ہوا تھا جو وقت پر ہسپتال میں نہ پہنچنے کی وجہ سے پٹا بھی تھا اور بیماری اس کے زندگی کے آخری ایام تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے رہے ۔ 2020 کو دوستوں کی مشورہ سے 4 مہینہ تک اپنا علاج بھی کروایا مگر احساس زمہ داری کی وجہ سے اس نے ہمسایہ ملک میں ریسٹ کرنے کی بجائے دوبارا بلوچستان میں آنے کو ترجیح دی۔ حالانکہ ڈاکٹر اور اس کے دوستوں کے مشورے کے تحت اس کے صحت کے لئے ریسٹ انتہائی ضروری تھا مگر ملا جان کی موت اور تدفین اپنے سرزمین ہی میں لکھا تھا کیونکہ زمین اپنے وفادار کو ہر وقت اپنے سینے میں چھپا کر حفاظت کرتی ہے ۔ کچھ وقفہ کے علاج معالجے کے بعد وہ دوبارہ بلوچستان آ کر اپنے زمہ داری کو سنبھالتا ہے ۔اس دوران ریاستی اداروں کو پتہ چلتا ہے کہ ملا جان بیمار ہے تو وہ اپنے کارندوں کے زریعے پیغام پہنچاتے ہیں کہ ملا جان آپ بیماری کی وجہ سے ویسے زیادہ زندہ نہیں رہے سکتے تو آپ کے لئے بہتر ہے آپ سرنڈر کر کے خاران میں اپنے گھر میں بیٹھ جائیں یا باقی لوگوں کی طرح یورپ یا عرب امارات میں چلے جائے تو جواب میں ملا جان کیہکا لگا کے کیتا ہے اس جنگ کو ہم نے اس لئے شروع نہیں کی ہے کہ ہم موت سے بچ کر زندہ رہے بلکہ اس جنگ کا اصل فلسفہ یہی ہے ہم قابض اور دشمن کے خلاف بہادری کے ساتھ ڈٹ کر اپنے آنے والے نسل کے لئے ورثہ میں حوصلے ،مزاحمت اور قربانی کے جزبہ چھوڑ کر ہمشہ ہمشہ بلوچ قومی تاریخ میں زندہ رہیں، اور ہمیں موت کے بعد ہمشہ ہمشہ کے لئے بلوچ تاریخ میں زندہ رہے کر نوجوانوں کے لئے ایک پیغام چھوڑنا ہے کہ ہم نے سخت حالات میں مصالحت پسندی،بھاگنے،ڈیلنگ کے بجائے سقراط کی طرح سچ اور حقیقت کے لئے اپنے زندگی کی پرواہ نہیں کی ہے اور نوجوانوں کے سامنے عظیم مقصد کے لئے عارضی موت کی کوئی بہانہ نہ بچے ۔ بلا آخر شدت بیماری کی وجہ سے ملا جان کافی درد اور تکلیف میں مبتلا ہوتے ہے اور اسے یہ مشورہ دوبارہ دیا جاتا ہے کہ باہر جا کر آرام کرو تو ملا جان سر زمین اور دوستوں کے ہمراہ داری کے چھوڑنے کو رد کرتا ہے اور 5 مئی 2023 کے رات کو اس کے موت واقع ہوتی ہے اور وہ شہید امیرالمک قلندرانی کی طرح اپنے ابائی علاقے کے بجائے شور کے کیمپ میں دفنایا جاتا ہے اور اب ملا کے رخصتی کے بعد خاران کے سرزمین میں مزاحمتی جنگ ایک نئے شدت سے جاری ہو کر ملا جان کے ارمانون کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر آزاد بلوچستان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیں گے، اور بلوچستان کے آنے والے تاریخ ،ادب،شاعری اور ناول نگاری ملا جان،میرل جان ، اور ان جیسے باقی ہیروز کے بغیر نامکمل ہو گی۔ ملا جان کی موت کے بات مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ اس کو اس کی جنگی صلاحیت اور قربانیوں کی وجہ سے میجر کے لقب دیتے ہیں جو بلوچ آزادی کے جنگ میں بہت کم کمانڈروں کو نوزا گیا ہے ۔ اور اب خاران کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے سرزمین نے بلوچ مزاحمتی تاریخ میں میجر کے رینک کے کمانڈر پیدا کی ہے اور آگے اور بھی اعزازات اس کے باسی اپنے نام پر کرتے رہے گے ۔