آج زہری میں قبائلی عمائدین کی کوششوں سے تراسانی عمرانی قبائل کے درمیان دیرینہ دشمنی کا فیصلہ ہوا. دونوں فریقین آپس میں شیر و شکر ہو گیے. اس سے چند دن پہلے تراسانی قبیلے کے دو خاندانوں (حاجی نزیر اور ثناءاللہ تراسانی) کے درمیان زمین کے تنازعے پر بھی ان بھن ہوئی تھی جسے زہری کے عام لوگوں نے علاقے کی خیر خواہی کے لیے ملکر دونوں فریقین کو شیر و شکر کیا تھا. ایک ماہ پیچھے چلے جائیں تو خضدار کھٹان میں میر تاج محمد زرکزئی اور ساسولی قبیلے کے درمیان ہونے والے تیس سالہ تنازعہ و کشت و خون کا فیصلہ یہی عام لوگوں کی محنت و کوششوں کا شاخسانہ رہا. اگر چند سال اور پیچھے چلے جائیں تو میر تاج محمد زرکزئی اور پیر جان تراسانی کے خاندانوں کے درمیان چھڑنے والی جنگ کا خاتمہ بھی انہی سفید ریش عام لوگوں کی وجہ سے حل ہوا تھا. علاقہ زہری ایک قبائلی علاقہ ہے جس کے ہست و نیست اور ملکیت کا دعویدار دو ٹائٹل اپنے سر سجانے کا خواب دیکھنے والے سردار ثناء اللہ زہری ہیں اور اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو سردار نواب میر معتبر زرکزئی کی طرف سے ایسا کوئی عمل نظر نہیں آئے گا بلکہ ان لوگوں کی طرف سے ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ دو خاندان یا قبیلے آپس میں لڑیں برباد ہو جائیں اور جو بچے کچے رہ جائیں انہیں ہم اپنا نوکر غلام باڈی گارڈ بنا کر رکھ سکیں. چونکہ زرکزئی فیملی نے عام عوام میں اپنا مقام کھو دیا ہے تو جب بھی انہیں اپنے کھوٹ میں روٹی پکانے کے لئے کسی خدمت گار کی ضرورت ہو تو انہیں ان کی اچھائی کام نہیں دیتی بلکہ وہ اپنا ڈنڈا استعمال کرکے خدمت گار حاصل کرتے ہیں اور یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ لوگوں نے انہیں ریجیکٹ کیا ہوا ہے. یہ لوگ ووٹ بھی پیسے سے حاصل کر لیتے ہیں لیکن عوام کے دل میں اپنے خلاف نفرت کو مٹا نہیں سکتے. جمالزئی مسجد میں بے گناہ نمازیوں کو آپس میں لڑوا کر زرکزئی سردار نے ایک گروہ اپنے لیے پالا جو آج بھی اس کی خدمت گزاری کرتے ہیں جبکہ دوسرا گروہ اپنے بھتیجے کی خدمت پر مامور کردیا. آپ اگر غور کرکے دیکھیں گے تو جتنے بھی تنازعے قتل و خون ہوئے ہیں وہ سب ان کی آشیرواد سے ہوئے ہیں. جس جس نے ان سے امید رکھی نزدیکی رکھی یا دوستی رکھی وہ ہمیشہ برباد ہوتا رہا. اپنے بھائی کا گلا کاٹ کر ان کے قدموں میں پیش کیا لیکن فائدہ کبھی نہیں دیا. ان کی خواہشوں سے لوگ آپس میں لڑتے رہے کٹتے رہے مرتے رہے اور ان کی جھوٹی بادشاہت کو دوام بخشتے رہے. ان کا وطیرہ یہی رہا ہے کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ و برباد ہو جائیں اور ہماری حکمرانی چلتی رہے. ایسے لوگ کبھی عوام اور علاقے کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے. زہری جیسے قلیل آبادی والے چھوٹے سے علاقے میں اتنی زیادہ قتل و غارت گری و خون خرابہ انہی کا عطا کردہ نعمتیں ہیں. آج زہری کے باشعور عوام نے یہ بات قبول کی ہے کہ ان کے اصل خیر خواہ کون ہیں. وہ جو ان کو آپس میں شیر و شکر کرتے ہیں یا وہ جو ان کو آپس میں دست و گریباں کرکے اپنی بادشاہت ان کی لاشوں پر سجاتے ہیں. آپ لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ پنجاپی دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ آپ لوگوں آپس میں لڑ کر بکھر جاؤ کمزور ہو جاؤ تاکہ وہ محفوظ رہے. یہی چیز اس کے چیلے بھی اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے آزما رہے ہیں. آپ کے بھائی کی زندگی کا بدل ایک چپراسی کی نوکری ہرگز نہیں ہو سکتی جس کے لئے آپ لوگ ان سرداروں کی چوکھٹ پر حاضری دیتے ہو. آپ لوگوں کو چاہیے کہ انہیں یک دم مستدرد کرکے ہمیشہ کے لیے ان سے دور رہی. ان کے عزائم کا حصہ نہ بنیں.