آپ تھوڑے دیر کے لیے اپنے چشمِ تصور میں لائیے اور سوچئیے کہ کہیں ایک تعزیتی ریفرنس ہورہا ہے اور اس میں بھاشن بازی کا سماں چل رہا ہے ایسے میں ایک بندہ ڈائس کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی چشمہ سیدھی کرتے ہوئے جیب سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر بولے کہ “ آہ سنگت حسن نصراللہ “ اور پھر حزب اللہ کی مرکزی رہنما کے لیے اسکے منہ سے شبداولی کا بہار امڑتا جائے اور بغیر رکے اسکی حمد و ثنا کیے جاتا رہے، تو قریب ہی کسی جیل میں پڑے ایک پھانسی کی سزا یافتہ بلوچ سیاسی کارکن کی جبری پھانسی کے حکم نامے پر علمدرآمد ہورہا ہو، اسکے خاندان کے سبھی ارکان کو اس پھانسی کے مناظر دیکھنے کے لئے مجبور کرکے پھانسی گھاٹ والے میدان میں کھڑا کیا گیا ہو، کہیں زاھدان کے کسی گلی میں خونی جمعے میں شہید ہونے والے نوجوان کی دوسری برسی کی تیاریاں ہورہی ہوں اور دوسری جانب یار باشوں کی طرف سے حسن نصراللہ کی جئے جئے کار کی جارہی ہو، تو یہ منظر کیسا منظر ہوگا خود سوچئیے خود ہی فیصلہ کیجئے، فارسی میں کہتے ہیں کہ “ اول خویش بعدہ درویش “ جو مختلف بلوچ علاقوں میں شکل بگڑ کر کم و بیش اسی طرح مستعمل ہے، یعنی پہلے اپنوں کا خیال رکھو بعد میں جو بچے وہ فقیر کو دے دو، اب حسن نصراللہ تو کوئی فقیر یقیناً نہیں تھے بلکہ مزاحمتی سیاست اور جنگی حربوں سے واقف ایک رہنما تھے، لیکن بیروت کی مضافات تک آنکھیں پھیلا کر دیکھنے والوں نے مکی مسجد اور زاھدان کی گلیاں تو ضرور دیکھی ہونگی، جس کا کلیجہ بیروت کی حسن نصراللہ کے لیے پسیجتا ہو اسکے کلیجے میں پندرہ سالہ بلوچ جن کو ماھو بلوچ کے لیے بھی کچھ درد کے آثار دکھیں، لیکن ہائے مجبوری، وائے بے بسی۔
پھر وہی دوستی کے ہاتھوں مجبور یارباشوں نے دوستی کا بھرم رکھنے کی اپنے تئیں کوشش ضرور کی، کہتے ہیں کہ
“ دوست منادوست ءِ ھاتر ءَ دوست انت کہ دوست منی دوست ءِ دزگوھار بیتگ”
یہ ایک بلوچی معقولہ جو اپنی لفظی اظہاریے میں معنویت کو بھی درشاتا ہے۔ خبر ملی کہ حزب اللہ کی مرکزی قیادت ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے ہیں، لبنان کے اندر ایک رہائشی بلڈنگ کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں فورا اسرائیلی فوج کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ رہائشی بلڈنگ دراصل حزب اللہ کی مرکزی قیادت سمیت حسن نصراللہ کی تنظیمی کمانڈ سینٹر تھا۔
جیسی ہی یہ خبر ملی تو میرے ذہن میں مندرج بالا بلوچ معقولہ گردش کرنے لگی اور خیال آیا کہ ایک امکانی تعزیتی ریفرنس یا بیان یا کوئی پیغام اس حوالے سے ضرور آسکتی ہے کیونکہ دونوں ایران کے ساڈو ہیں۔
اردو زبان کے مشہور بھارتی شاعر کمار ویشواس لفظ “ ساڈو “ کو تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ ایک دوکان سے لٹے ہوئے دو گراہک اصل میں ساڈو کہلاتے ہیں” یار باش ہوں یا حسن نصراللہ، دونوں ہی ایرانی تھوک پروش مارکیٹ کے ” کرایہ دار بندوق بردار” کی تختی والے دوکان سے لٹ چکے ہیں، لیکن وہ اس حقیقت کو ابھی تک مانتے بالکل نہیں ہیں۔ اب یار باش ہوں یا پھر حزب اللہ دونوں ہی ایرانی نجات دہندگی کی خواب پالے دیوانہ وار منتظر ہیں کہ کب ایرانی ابرِ رحمت برسے اور ہمارے سوکھی روٹی کا نوالہ کچھ تر ہوجائے لیکن یار باشوں کے لئے پندرہ سالہ ماھو بلوچ اپنی تار تار دامن کے داغوں کو بیٹھ کے خود روتی رہے، زاھدان کے جمعہ خونی کے شہداء کسی شمار میں آتے ہی نہیں سوخت بران کو گاڑیوں سمیت فائرنگ کرکے ان کو جلانے کا واقعہ انسان سوز قطعا ًنہیں روز نا کردہ گناہوں کے عوض پھانسی چڑھتے بلوچ فرزندان وطن ایک تعزیتی بیان کا حقدار بھی نہیں باقی رہی ایرانی مقبوضہ بلوچستان کی مزاحمتی محاذ اس پر تو یار باش ویسے ہی مذہبیت اور باریش ہونے کا ٹیگ لگا چکے ہیں
لیکن ستم ظریفی کی انتہا کا اس سے بہترین نظارہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایرانی بندوق ایرانی مفادات کی نگہبانی کے لئے لبنانی سرزمین کی واسیوں کے کاندھوں پر رکھتے اور چھ چھ انچ کی داڑھی رکھتے ہوئے بھی حسن نصراللہ جملہ حزب اللہ کے دیگر اراکین حریت پسند اور بلا کی مزاحمت پسند تصور کئیے اور بولے جاتے ہوں لیکن ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ مزاحمت کار ان کے نزدیک مذہبی ملا ہیں۔
یارباشوں کی فکری تنزلی کا اس سے بڑا اور کیا منظر ہوسکتا ہے کہ زاھدان میں ہونے والے قتل عام کی دوسری برسی کے محض تین دن پہلے حسن نصراللہ کی یاد میں رنجیدہ خاطر، ملول و مغموم یہ ٹسوئے بہاتے لوگوں کے لئے بلوچ فرزندوں کی بہتی لہو کی کوئی اہمیت نہیں؟
دوست کے دوست کے لئے کبیدہ خاطری کی گنجائش تو بہرحال بجا ہے ( وہ الگ بات ہے کہ نہ دوست تمہارا غمخوار اور نہ دوست کا دوست) پھر بھی مان کے دیتے ہیں کہ دوست کا دوست مارا گیا دکھ تو بنتا ہے تعزیت بنتی ہے ،ایک بیان ایک جملہ ایک ٹویٹ یا ایک پیغام جہاں لفظوں کی ترتیب ایسی رہے کہ یہ جھلکتی غم بھی مجبوری اور بے بسی کا اظہاریہ معلوم ہو، لیکن زاھدان کے مکی مسجد کے سامنے شہید ہونے والے فرزندانِ بلوچستان ماھو کے عصمت دری کے خلاف نکلے تھے، ماھو جو بلوچ اجتماعی راجی کوڈ آف کنڈکٹ میں بلند ترین مقام رکھتا ہے، ماھو ایک عورت ایک لج اور ایک میار، آج کی بلوچی ادب لوک بلوچی ادب کی اسی کلاسیکل تسلسل کا دین ہے جس میں دودا اور ازاں بعد دودا کے قاتلوں سے بھڑنے والے کمسن بالاچ گورگیج کا ذکر ہے آج کا مبارک قاضی اپنی تمام ادبی سفر سمیت اسی ستون کے سہارے کھڑا ہے جو بلوچ کا لوک ورثہ ہے، تمہیں دوست کے دوست کا اسرائیلی حملے میں گزرنے غم کھائے جائے اور بلوچ فرزندوں کی غم سے بے نیازی کا یہ رویہ؟ اگر تم کہتے ہو کہ وہ مزاحمت کار تھا وہ لیڈر تھا اس لئے جگر میں آگ بھڑک اٹھی تو مبارک قاضی ہی نے کہا تھا کہ “ چو نہ انت پھلیں فلسطین ءِ مناں گم پر نہ انت من بلے ہنی وتی ڈیھے گماں چیر و سراں “
اب قاضی مبارک کے تاثرات میں “ ڈیھ “ کا کیا تشریح ہے اور یار باش اپنے تئیں اس لفظ “ ڈیھ “ سے کیا مراد لیتے ہیں اس پر سب کو ایک بار اپنے آپ سے ضرور سوال کرنا چاہئے، مجبوریاں ہوتی ہونگی لیکن زندہ رہنے کی تگ و دو کرتے کرتے اگر زندہ ہونے کی بنیادی سوال ہی نظر انداز ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مجبوریوں سے کہیں زیادہ نظریاتی انحراف کی حدوں کو چھوتی ہوئی ایک ایسی چاہت ہے جہاں انسان مصلحت پسندی اور من چاہی نتائج کے لئے سب کچھ تیاگنے کو تیار ہوجاتا ہے۔سب کچھ یعنی سب کچھ، نظریات، زمین، قوم اور اپنے اپنی پیش روؤں کے سبھی آدرش۔
مبارک قاضی کہیں اور کہتے ہیں کہ
“ھونے نکشاں کروجے یا ھڈاں دُرشے یاکہ پمن چو البرزے کوہ ءَ پرشے”
قاضی کے لیے یقیناً “ ڈیھ “ کی مجموعی تشریح یہی ہے جو وہ خود مندرج بالا مصرعوں میں درشا چکے ہیں۔ تمہیں ناں قاضی کی شعری فلسفے کا پاس رہا اور نہ ہی بابا خیر بخش مری کے سیاسی نظرئیے کا بس ایک کباڈیے کی طرح جو پرزہ جس کے ساتھ فٹ ہوا بس اٹھا کر لگا دیا۔
باباخیر بخش مری ایک دفعہ حسن نصراللہ کے بارے میں انکی جنگی “ رپک و ہنر “ کے بارے اپنے تاثرات کا اظہار ضرور کرچکے ہیں لیکن اس وقت مشرق وسطی کی عمومی سیاسی و جنگی صورتحال اور آج کی منظرنامے میں کافی چیزیں بدل چکی ہیں زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد جنگی و سیاسی حکمت عملیوں کے باوصف حزب اللہ کی شیعہ نظریاتی حدود و قیود کی جھکاؤ کو چھوڑ خود حماس کی جنگی جنون اور بے وقت کی اس بے ربط و بے ہنگم حملے کو ہی کے لیں جو اس وقت نہ صرف خود حماس بلکہ علاقائی سطح پر موجود تمام مزاحمتی گروہوں سمیت خود فلسطینی مملکت کی حصول کے بنیادی نقطے کی وجود پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ چکے ہیں۔
ایک دفعہ بی ایس او آزاد نے فیصلہ کیا تھا کہ زندہ بلوچ رہنماؤں میں سے صرف بابا خیر بخش مری کا ہی تصویر بی ایس او کے پروگرامز میں استعمال کیا جائے گا باقی کسی کا بھی نہیں، مقصد یہی تھا کہ کیا پتہ کب کون اپنا رستہ بدل لے اور وہ پھر یاد داشت میں رہ جائے کہ کبھی وہ بھی ہمارے اسٹیج کے عقبی بینرز میں قد آور تصاویر موجود تھے سو اس کوفت سے بچا جائے، بابا خیر بخش مری اس دارفانی سے پردہ کرگئے اور حسن نصراللہ رہ گئے لیکن وہ آدرش اور نظریات باقی نہیں رہے اب حقیقی اسرائیل فلسطین قضیے سے کہیں دور مشرق وسطی میں ایرانی ریاستی مفادات کے علم بردار اور یارباشوں کی طرح ایرانی کرایہ دار بن گئے تھے۔جب بابا خیر بخش مری نے حسن نصراللہ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا تو اس اظہاریے میں وقت اور حالات سمیت مشرق وسطی کی صف بندیوں کے حقائق و پیمانے آج سے یکسر الگ تھے۔
بلوچ آجوئی جنز اور متحدہ بلوچستان کی حصول آزادی کے لیے ہمارے پیش روؤں کی شروع کی ہوئی یہ تحریک کوئی کباڈیے کا مارکیٹ نہیں کہ جہاں تمہارا جو دل چاہے اور جو پرزہ کہیں بیٹھ سکے تو تم اسکو اپنی پسند اور من چاہی رنگ دینے کے لئے جہاں مرضی فٹ کرلو۔ خیر بخش مری بلوچ اور قابضین کے مابین موجود جدلیات کے رشتے پر جو دقیق اور واضح موقف رکھتے تھے آج اگر وہ ہوتے تو یقیناً ان مجبوریوں کو مجبوری نہیں بلکہ بلوچ آجوئی تحریک کی روح سے یکسر انحراف گردانتے۔