تحریر: سبزو بلوچ

        ہمگام آرٹیکل

میں اُس سیاہ دن بھی، سوشل میڈیا پر حسبِ معمول نظریں دوڑا رہا تھا کہ بدنصیب بلوچ وطن کے حالات سے باخبر ہو سکوں جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی بے گناہ بلوچ اٹھایا جاتا ہے۔  یا پھر کوئی نہ کوئی لاش گرائی جاتی ہے، کہ اچانک اسی دوران میری نظر سنگر بلوچ  کی  ایک پوسٹ پر پڑی۔ جس کا عنوان تھا “آہ میجر ملا ابراہیم”۔ دیکھتے ہی زمین میرے پاؤں کی نیچے سے نکل گئی۔ میری رگوں میں خون تیزی سے  دوڑنے لگا۔ پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ ملا آسا کی سلامتی کی دعا مانگتے ہوئے باہر کو دوڑا، جیسے کہ اس خبر سے  چھت میرے اوپر گرنے والی ہو ۔  کپکپاتے ہاتھوں سے موبائل کسی اور کو تھما دیا کہ دیکھو ! یہ کونسا ملا ابراہیم ہے ؟ اور زبان پر دعا تسلسل سے جاری تھی۔ مگر ہائے، ملاجان !  یہ وہی ابراہیم  ہی تھے، جنہوں  نے مجھ سمیت ہزاروں بلوچ قوم دوستوں کو  رنجیدہ کر دیا جو آپ سے کئ امیدیں وابستہ رکھے ہوئے تھے ۔

ملّا جان ! میں ایک لکھاری، قلم کار ، ادیب نہیں ہوں کہ آپ کی لازوال قربانیوں ، ہمت و بہادری اور مستقل مزاجی کا اپنے قلم سے  احاطہ کر سکوں لیکن جب سے آپ کے ناگہانی واقعہ کی خبر ملی ہے تب سے  ایک ذہنی کشمکش کا شکار ہوں۔شاید یہ میری آپ سے والہانہ محبت اور امیدوں کے سبب سے ہےکہ ابھی تک آپ کی راہ تک رہا ہوں۔

ملّا جان ! آپ کے کردار ، بہادی اور اور بلند حوصلے سے کون واقف نہیں کہ آج جواں مردوں کا اک جمعِ غفیر(کثیر تعداد) اپنی مجلسوں میں آپ کی استقامت اور قربانیوں کا تذکرہ کر کے   پریشان ہے کہ اب کون ‘ملا جان’ کی کمی کو پورا کرے گا ۔

ملا جان ! آپ تو بچپن سے ہی قومی سوچ سے آراستہ تھے ،آپ نے ہمیشہ انفرادی سوچ کے برعکس اجتماعی مفادات کو ترجیح دی۔   اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز  2005 سے شروع کیا۔پھر 2008 کو  اپنے ساتھیوں کیساتھ مل کر  مسلح جد وجہد میں شامل رہے۔محاذ پر لیت و لعل کے بجائے جانفشانی سے مستحکم رہے۔ دشمن پر سخت گیر حملوں اور سٹریٹیجی ہو کہ دوسرے سرمچاروں کی خیال داری پیش پیش رہے۔یہی دیدہ دلیری تھی کہ آپ ایک سپاہی سے میجر کے منصب پر فائز ہوے جہاں آپ نے خاران ، شور و پارود اور رخشان کی کمان  سنبھال لی اور انہی ذمہ داریوں کے ساتھ رخصت ہوئے ۔

ملا جان ! آپ کی استقامت ہی آپ کی منفرد خاصیت تھی کہ  یہ کڑی مشکلات و مصائب آپ کو توڑ نہ سکے ۔ آپ مختلف مراحل سے گزرے لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری۔  آپ پابند سلاسل رہے ، اپنے پیاروں کی لاشوں کے صدمے بھی اٹھائے ، بھوک و تکلیف برداشت کی ، جسمانی بیماری سے  دوچار رہے لیکن آپ کی پیشانی پر نہ پشیمانی کے آثار تھے نہ  پریشانی کی لکیریں ۔ آپ کے بوڑھے والد کو ٹارچر کیا گیا آپ نے پروا تک نہیں کیا ، آپ کو  توڑنے کیلئے آپ کے بھائیوں سمیت دوسرے فیملی ممبرز کو اٹھا گیا لیکن تب بھی  ایک شیر کے طرح شور و پارود کے دلبند پر دشمن کے خلاف جنگی محاذ پر کاربند رہے ۔ اگر آپ کو کچھ توڑ سکتا تھا تو وہ شہید میرل جان کی گرتی ہو لاش ہوسکتی تھی مگر اس سے آپ مزید مضبوط ہوئے۔  آپ کے بھتیجے شہید بارگ جان کی  آخری گولی کا فلسفہ آپ کو کمزور کرسکتا تھا لیکن آپ ان کی تمام ذمہ داریوں کو خوشی سے اپنے  کندوں پر اٹھا کر مسکراتے،گرجتے ،للکارتے رہے۔ آپ کی اہمیت کا اندازہ آج پاکستانی میڈیا سے لگایا جاسکتا کہ وہ کس قدر باؤلا ہوچکا کہ جو مختلف قسم کے جھوٹے پروپگینڈے کرکے آپ کے کردار کو داغ دار کرنا چاہتا ہے ۔مگر محکوم اقوام اپنے مزحمتی ہیروز دشمن سے بہتر جانتی ہیں۔

ملا جان ! مجھے یقین ہے یہ قوم آپ سے ضرور انصاف کرے گی۔ آپ کو کبھی اپنی یادوں سے مٹنے نہیں دے گی۔ آپ کی بہادری اور استقامت کی داستانیں اپنی آنے والی نسلوں کو سناتی رہےگی جس سے حریت پسند جواں مرد  قوت مزحمت پاتے رہیں گے۔ آپ جیسے ہی کردار محکوم اقوام کیلئے مزاحمتی سرمایہ ہیں جن سے انسپائر ہو کر، جواں سال، کاروانِ حق کے ساتھ شامل  ہوتے رہیں گے ۔

ملا جان ! آپ کا موت پر یقین تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور  ضرور آئی گا۔  جب بھی آپ سے ملا یا آپ سے حال حوال ہوا آپ کی ایک ہی خواہش تھی آپ اپنے نظریاتی  فیصلے پر ثابت قدم رہیں اور  موت وطن کی آذادی کے تحفظ میں  دشمن کی گولی سے آجائے تاکہ  ہزاروں شہداء کے نام میں میرا بھی نام  شامل ہو جائے۔ کاش! آپ مزید سلامت رہتے اور اپنی خواہش کے مطابق دشمن سے دوبدو لڑائی میں جام شہادت نوش کرکے  اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے ہمسفر ساتھیوں کے حوالے کرتے لیکن مجھے اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ کوئی جنگی سپاہی محاذ پہ ڈٹے ہوئے مر جائے تو وہ شہداء کے قطاروں میں ہوگا ۔

ملا جان ! نہ صرف آپ کے پسماندگاں کی  بلکہ ہزاروں قوم پرستوں کی خواہش تھی کہ آپ کا مقبرہ اپنے آبائی شہر خاران میں ہوتا جو  صدیوں تک مزاحمت کا نشان ہے ۔

ملا جان ! آپ کے بارے ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ جیسے مخلص ، ،بہادر ،جانباز، مستقل مزاج ، باہمت مرنے کیلئے پیدا نہیں ہوتے اس لئے آپ نے ایک ایسا مشن اپنایا کہ مر کر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے۔