(ہمگام کالم )
جدید دور میں دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، ماضی میں پاکستان نے جھوٹ اور فریب کے ذریعے بلوچستان، سندھو دیش اور پشتونستان کو بندوق کی زور پر قبضہ کرکے دنیا کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ، حتیٰ کہ ستر کے زمانے میں پاکستان نے ایرانی شاہ پہلوی سے جنگی جیٹ اور پائلٹس مانگ کر بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کی کوشش کی۔
اس لڑائی میں ہزاروں بلوچ مارے گئے جن میں اکثریت مری، مینگل اور زہری قبیلے سے تعلق رکھتے تھے لیکن بلوچ جنگ ازادی ختم نہیں ہوئی۔
بلوچ قوم پاکستانی قبضے کو گذشتہ سات دہائیوں سے چیلنج کرتے چلے آرہے ہیں اور اس وقت پانچویں جنگ آزادی میں مصروف ہیں، آج بلوچ کی یہ جنگ پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکی ہے کہ پاکستان خطے کے لئے ایک ناسور ہے، اور دنیا اس ناسور سے ہاتھ ملانے اور گلے لگاکر صحت مند اور توانا نہیں ہوسکا، بلکہ مزید اس بیماری کا شکار ہوکر اپنے بازوں اور جسم کے مختلف اعضا کو متاثر کررہی ہے، افغانستان میں گذشتہ پانچ دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی اور پراکسی جنگ میں پاکستان اور ایران اس وقت کھل کر لڑ رہے ہیں۔
پڑوسی ممالک میں بنگلہ دیش، افغانستان اور ہندوستان کے علاوہ اب پاکستان اور ایران کی پھیلائی گئی شرپسندی اور فساد پھیل کر خلیج اور یورپ تک پہنچ چکی ہے، اس وقت دنیا میں رونما ہونے والے ہر دہشت گردی کا سراغ لگانے پر پتہ چلتا ہے کہ ان عناصر کا تعلق پاکستانی دہشت گردی آئی ایس آئی ، ایم آئی اور دیگر پاکستان کے پالے ہوئے، اور ضیا الحق کے لگائے گئے شجر دہشت گردی سے منسلک نظر آتی ہے۔
جیسے اوپر ذکر کرچکا ہوں دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج کی طرح ہے یہاں پاکستان اور چین مل کر سی پیک نامی ایک بلوچ ، پشتون اور سندھی کش منصوبے پر عمل پیرا ہے، جسے بلوچ، اور دیگر اقوام اپنی نسل کشی اور معاشی، ثقافتی اور ملکی تباہی قرار دے کر عالمی دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اس چینی و پاکستانی استعصالی پروجیکٹ سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا ، اس سے نہ صرف بلوچ اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کردیا جائے گا بلکہ چین کا بلوچستان میں فوجی تنصیبات اور نیول بیس کی تعمیر سے امریکہ، ہندوستان اور دیگر ممالک کے لئے بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
دنیا کے اس گلوبل ولیج میں واقع بلوچ، پشتون اور سندھی اقوام کی نا گفتہ بہ حالت زار پر عالمی برادری جتنی بھی خاموشی اور چھپ کا روزہ رکھے وہ چھپ نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے (عالمی برادری کے) بلوچ ، پشتون اور سندھی اقوام کے مفادات کو برابر نقصان پہنچائی جارہی ہے اور پاکستان اس وقت پوری دنیا کے لئے ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
پاکستانی فوج پنجاب کے مفادات کی خاطر بلوچ نسل کشی میں تیزی لاچکی ہے، سی پیک جہاں ، جہاں بھی گزرنے کے نقشے ہیں وہاں کی پوری بلوچ آبادی کو بیدخل کرنے کے لئے پاکستانی فوج دن رات متحرک ہے، وہاں کے باسیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اور ان کے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو اٹھا کر غائب یا پھر مسخ شدہ لاشوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کچھ عرصے سے بلوچستان کے طول و ارض میں بلوچ خواتین کی عصمت دریوں کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں جو پاکستان کی غیر اسلامی اور غیر مہذب خصلت کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان کے ایسے غیر انسانی سلوک نئے نہیں ہیں، ان کی فوج نے ایسے غیر مہذب ہتکھنڈے بنگلا دیش کی آزادی کو روکنے کے لئے بنگالیوں کے خلاف بھی آزمائے لیکن بنگالی قوم کی آزادی کی مارچ کو روک نہ سکا۔
وقت کا تقاضا یہی ہے کہ عالمی برادری بلوچ، پشتون اور سندھی اقوام کی آواز کو سنے اور وہاں کے باسیوں کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے انہیں اپنی آزاد ملک قائم کرنے کی اجازت دے تاکہ بلوچ، سندھی اور پشتون اقوام بھی دیگر اقوام کی طرح وقار، خوشحالی اور پائیدار امن کے ساتھ رہ سکے۔اور پاکستانی دہشت صفت فوج کو انہیں بلا وجہ تنگ کرنے، معاشی استحصال اور ان کی قومی شناخت کو حائل خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔