قومی جہد آزادی کی لمبی چھوڑی تاریخ میں ہمیشہ سے اتحاد و اتفاق ہوتے رہے ہیں لیکن تمام اتحاد وقت و حالات میں روایتی رہے، مل بیٹھ کر مطمئن ہو کر کچھ نقاط پر اتحاد و اتفاق و انضمام ہوئے لیکن بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والے حالات رہے کیونکہ نیتیں اور سوچ مختلف تھے اور ہر ایک دوسرے کو کراس کرنے کی کوشش میں لگا رہا اور اجتماعیت کو پاؤں تلے روند کر گروہی بن کر رہ گئی اور کچھ ہی سالوں میں وہ انضمام اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہو گئے اور نتیجہ جوڑ توڑ کی صورت میں سامنے آتے رہے ۔تحریک اپنے اصل ٹارگٹ سے ہٹ کر اندرونی خلفشار کا لقمہ بن گئی، اب ماضی سے ہٹ کر موجودہ رواں تحریک پر نظر ڈالی جائے تو صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں یہاں بھی اتحاد خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے ،سب ایک تھے لیکن علیحدہ رہے اعتماد تھا لیکن بداعتمادی پروان چڑھتی رہی، بغل میں چھری لیکر ایک دوسرے پر وار ہوتا رہا نتیجہ یکساں طور کسی فرد ادارے کو نہیں قومی تحریک کو ہوا اور ریاست اندرونی کمزوریوں و اختلافات کو بھانپ کر اپنے ظلم و جبر میں شدت لے آیا اور قومی تحریک میں کمزور اعصاب والے سرنڈر تک پہنچ گئے جو کمزوریاں کل تک تھے وہ آج بھی کسی نہ کسی طرح موجود ہیں لیکن وقت حاضر میں تحریک کو اولیت دے کر گروہی و پارٹی مفادات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفادات کو سامنے رکھ کر کچھ نقاط پر اتحاد و اتفاق ممکن ہے اور یہ بھی سنبھلنے کا ایک بہترین موقع ہے نہ کہ آنے والے حالات اس سے زیادہ کھٹن ہونگے۔ بلوچ قومی رہبر حیربیار مری نے تحریک میں تمام پارٹیوں کے لیے ایک بنیادی خیال سامنے لایا کہ اگر دیگر پارٹیاں و ادارے اتحاد و مشترکہ جہد کے حوالے سے سنجیدہ ہیں تو انکے سامنے دو بنیادی شرائط رکھے۔ یہ نقاط قومی جہد اتحاد و مشترکہ جہد کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دو نقاط پر عمل پیرا ہو کر مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔ سنگت حیربیار جو کہ تمام سیاسی و دیگر تنظیموں کو بلا شرط و شرائط مدد کرتے رہے لیکن دیگر تنظیمیں جب مضبوط ہوئے تو حیربیار مری انکے لیے قابل قبول نہیں رہا اور الزامات کی بوچھاڑ رہی لیکن ان تمام پروپگنڈوں و اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حیربیار مری نے قومی تحریک کی خاطر سب کے سامنے اپنا ہاتھ بڑھایا ۔اگر دیکھا جائے تو ان پر انا پرستی و دیگر الزامات لگانے والوں کے سامنے انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کل بھی قومی مجموعی مفادات کے لیے مثبت قدم اٹھانے کے لیے آگے تھے اور آج بھی۔ تمام تنظیموں کو کمک سے لیکر بلوچستان لبریشن چارٹر تک تمام اجتماعی نوعیت کے فیصلے تھے جن کا فائدہ ایک فرد یا ایک ادارے کا نہ تھا بلکہ اجتماعی حوالے سے قوم کا ہی تھا کل کی کوتاہیوں غلطیوں کو پس پشت ڈال کر اگر آج نیک نیتی کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر ایک اتحاد یا مشترکہ جہد کے حوالے سے کچھ نقاط پر ہم آہنگی پیدا ہوگی تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے ۔اپنی غلطیوں کو ماننا کوئی بری بات نہیں بلکہ انھی غلطیوں سے سیکھ کر ہی ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کے راستے کھل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر و براہمدغ بگٹی کل بھی قابل احترام شخصیات تھے اور آج بھی ہیں لیکن ان کے سیاسی فیصلوں حکمت عملی و طریقہ کار پر تنقید کا مقصد انکی کردار کشی نہیں تھا بلکہ تعمیر تھا کہ جس سے ان غلطیوں کو نہ ماننے اور غلط حکمت عملیوں سے نقصان اجتماعی حوالے سے قومی تحریک کو ہوا اور غلط حکمت عملیوں و غلط فیصلوں سے مجموعی طور تحریک پر گہرے منفی اثرات پڑے۔ ریفرنڈم سے لیکر سوشلزم تک سبھی پالیسیاں بلوچ سماج سے میل نہیں کھاتے ہیں ان پینسٹھ سالوں کی غلامی میں ریاست نے بلوچ وطن کے جغرافیہ کو ہی تبدیل کر کے بلوچ وطن کو اپنی نو آبادیات بنا چکا ہے ہم کس حد تک اس قابل ہیں کہ ریفرنڈم کو کامیاب بنا سکیں اور سوشلزم کی صورتحال تو بالکل ہی مختلف ہے۔ اگر ہم ماضی کے دھندلکوں میں پڑ کر ہاتھ پاؤں مارنے لگے تو ہمیں کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اب ایک موقع ہے کہ تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیمیں کچھ نقاط پر یا مکمل طور اتحاد و مشترکہ جہد یا کہ انضمام کے حوالے سے قدم اٹھائیں تحریک کی روح کو جاوداں و سلامت رکھنے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں ۔اتحاد کے حوالے سے براہمدغ بگٹی کی رائے اس وقت مبہم ہی تھا جب انھوں نے کہا کہ میں اختر مینگل سے اتحاد کر سکتا ہوں کہ اسکی پارٹی ہے جبکہ حیربیار سے نہیں اور اسی طرح بی این ایم کا موقف تھا۔ اس وقت پوائنٹ سکورنگ ہی تھا کہ ہم اتحاد چاہتے ہیں سنگت حیربیار مری نہیں چاہتے حالانکہ اس وقت سب ایک ہی ساتھ تھے لیکن بی این ایف سے لیکر مدد و کمک تک سبھی ایک ساتھ محو سفر تھے لیکن گروہی سوچ و گروہی مفادات ان رشتوں کو پارہ پارہ کرنے لگے۔ آج سنگت حیر بیار مری نے کھل کر اتحاد کے حوالے سے دو بنیادی شرائط رکھے ہیں وہ براہ راست قومی نوعیت کے معاملات سے ہیں۔ اگر تمام آزادی پسند تنظیمیں باریک بینی سے اپنے پالیسیوں کی جانچ پڑتال کریں تو انکے بہت سے وقتی و جذباتی نوعیت کے فیصلوں سے تحریک کو نقصان پہنچا ہے خصوصاً غلط معلومات کی بنیاد پر غداری کا لقب دے کر انھیں انجام تک پہنچانا جیسے جذباتی فیصلوں سے عوام کا تحریک سے اعتماد اٹھتا گیا اور ریاست کے جبر کے ردعمل میں بہت سی ایسی کاروائیاں سامنے آئیں جو کسی محکوم قوم کے لیے عالمی فورمز میں دفاع کرنا ناممکن ٹھہرا اور عالمی دنیا انھی فیصلوں کو مدنظر رکھ مثبت و منفی رائے قائم کرتے ہیں ۔ہر عمل کسی مضبوط جواز کا مستحق ہوتا ہے اور کسی مضبوط جواز و جنگی قوانین کے دائرے میں کوئی عمل مثبت یا منفی ٹھہرتا ہے اور اس دوران ایسے بہت سے اعمال سرزد ہوئے کہ جنکی وجہ سے عالمی سطح پر تحریک پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ رہااور سفارت کاری کے حوالے سے ہر تنظیم کی علیحدہ موقف نے مجموعی حوالے سے تحریک پر منفی اثرات ڈالے۔اگر گذشتہ دس پندرہ سالوں میں کیے گئے اپنے غلطیوں کا اعتراف کرکے قومی بقا کی خاطر ایک نقطے پر آ کر ایک ہو جائیں تو اس سے بہتر اور کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور شوشلزم و ریفرنڈم جیسے مبہم خیالات سے کنارہ کشی کرکے اپنے سماج کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیاں مرتب کریں تو غلطی کی گنجائش کم ہی رہے گا۔ غلطیاں ہر سطح و ہر تحریک میں ہوتے رہے ہیں لیکن سب سے بڑی بات غلطیوں کو مان کر ان سے سبق سیکھنا گھاٹے کا سودا نہیں غلطیاں سپر پاور ملکوں سے ہوئے ہیں جہاں انکے تھنک ٹینک سرجوڑ کر پالیسیاں بناتے رہے اور شکست انکا مقدر رہی وہ ان حالات کا اور اس سماج کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ ویت نام میں امریکہ کی کیا حالت رہی عراق میں صدام حسین کو مارنے کے بعد جو مذہبی ہوا مشرق وسطیٰ میں شروع ہوئی جس نے اب یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور افغانستان میں سپر پاور روس کی شکست…. یہ غلط حکمت عملیوں کا سبب رہے اب ہم بحیثیت مظلوم و محکوم قوم جہاں وسائل کی کمی کے ساتھ ہمارا مقابلہ ایک ایٹمی طاقت سے ہے انفراسٹرکچر اسی ملک کا استعمال کرتے ہوئے آزادی کے لیے برسرکار ہیں تو اپنی طاقت کے ساتھ دشمن کی طاقت کا اندازہ لگانا اور حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار جہد ہی ہمیں کامیابی تک پہنچا سکتا ہے ۔سرفیس جہد کو مسلح سے گوند کر دونوں کے فرق کو ختم کردیا گیا نتیجہ نقصان کا سبب ہی بنا۔ یہ غلطیاں معمولی غلطیاں نہیں ان غلطیوں سے نقصان مجموعی حوالے سے تحریک کو ہوا اور غیر مسلح جہد ایک سطح پر مکمل ختم ہوتا نظر آیا۔ اگر مرحلہ وار حکمت عملی کے تحت جہد ہوتا تو آج اتنے نقصانات نہ اٹھانے پڑتے اور بیرون ممالک سفارت کاری کے حوالے سے کوئی مخصوص مجموعی متفقہ ادارہ نہ ہونے سے پارٹیوں کی کھینچا تانی اور مقابلے کے رحجان نے مزید دوریوں کو بڑھانے کا سبب بنے غلط فہمیاں بد گمانی سے گذر کر بداعتمادی تک پہنچ گئے ۔چارٹر بلاجواز مسترد ہوا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایجنٹ غدار وغیرہ کے القابات دیے گئے نتیجہ نقصان مجموعی حوالے سے تحریک کا ہوا غلطیوں سے نہ کوئی ادارہ پاک ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی فرد۔ اگر کوئی پاک ہوگا تو وہ انسان نہیں خدا کہلائے گا اب وقت ،حالات و قومی جہد سب سے یہی تقاضا کر رہے ہیں کہ نیک نیتوں کے ساتھ سنگت حیربیار مری کے خلوص پر اکٹھے ہو کر تمام غلطیوں کوتاہیوں کمزوریوں کا جائزہ لے کر نئے حکمت عملیوں کے ساتھ جہد کو آگے بڑھانے کا بوجھ اٹھا لیں نہ کہ ڈیڑھ انچ والی مسجدوں سے ……براہمدغ بگٹی نے کیا حاصل کیا اور اب اگر ڈاکٹر اللہ نذر اس سوچ کو لیکر دوڑیں گے تو کچھ وقت تک کچھ ضرور حاصل کرینگے لیکن موضوعی و معروضی حالات اپنے تقاضوں کے تحت اتل پتھل کرکے ہر ایک کو تنہا کرینگے جس سے دشمن کے لیے ہر ایک کو ایک ایک کر کے مارنے میں آسانی ہوگی۔ تنظیموں کے اندرونی مسائل سے لیکر تمام مسائل براہ راست قومی جہد سے وابستہ ہیں اور ان تمام کے لیے وقت و حالات ہم سے مشترکہ پالیسی کا تقاضا کر رہے ہیں کیونکہ بلوچ وطن کے موضوعی و معروضی حالات جس طرح ہوں اور گوریلا جنگ کے جو بھی اپنے لوازمات ہوں لیکن ہر عمل براہ راست دنیا سے جڑا ہے اگر کوئی بھی غلطی کسی بھی تنظیم کی جانب سے سرزد ہوگا تو دنیا کے سامنے جو پیغام جائے گا وہ بلوچ کی حیثیت سے جائے گا۔ جہد کے تقاضے کل بھی وہی تھے اور آج بھی ہیں کہ اتحاد یا مشترکہ جہد کے حوالے سے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر غلطیوں کو قبول کرنے سے نئے حکمت عملیوں کے ساتھ سامنے آنے سے فائدہ قومی جہد کا ہوگا۔ بلوچستان لبریشن چارٹر کو سامنے رکھ کر متفقہ قومی پروگرام کو آگے لے جائیں اگر بلوچستان لبریشن چارٹر میں کوئی کمزوری ہے تو بلوچستان لبریشن چارٹر کو سامنے رکھ کر اس میں مل بیٹھ کر ترامیم کر کے ایک متفقہ قومی پروگرام سامنے لائیں اور گروہی قبائلی خیالات سے ہٹ کر مکمل قومی دائرے کو اہمیت دے کر اصول قوائد بنائے جائیں اور اتحاد یا کچھ نقاط پر مشترکہ جہد کے قوائد و اصولوں کو قوم کے سامنے لا کر انھیں اعتماد میں لے لیں کہ اتحاد و مشترکہ مفاد کن نقاط پر ہوگا اور انکی خلاف ورزی پر فریقین جواب طلبی و سزا کے مستحق ہوں گے اور یہ فیصلے قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔ جسطرح سنگت حیر بیار مری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قوم کو اعتماد میں لیکر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا، اور یہ جہد قوم کے نام پر قوم کے ذریعے ہی کی جارہی ہے اور ہر عمل کا اثر براہ راست قوم پر پڑتا ہے اور ہر عمل و ردعمل سے قوم متاثر ہوتا ہے اس طرح قوم کو بعض نقاط پر اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اب وقت و حالات کا تقاضا بھی یہی ہے اور سنگت حیربیار نے خلوص کے ساتھ سب کو قومی دائرے میں آنے کی دعوت دی ہے اور مشترکہ جہد یا اتحاد کا عندیہ دیا ہے اب دیگر ادارے اس مثبت عمل پر مثبت قومی یک جہتی کے حوالے سے آگے آئیں اس حوالے سے بی این ایم کے ترجمان حمل حیدر کا بیان خوش آئند ہے وہ بھی وہی درد محسوس کرتے ہیں جسے ہر سیاسی کارکن محسوس کرتا ہے اکیلے رہ کر جہد تو کی جاسکتی ہے لیکن کامیابی ممکن نہیں اب دیگر ادارے قومی یک جہتی کے لیے قدم بڑھا کر جہد آزادی کی آبیاری کریں کیونکہ اتحاد مسلسل جہد و بہتر حکمت عملی سے دشمن کو شکست دی جا سکے گی۔