ہمگام کالم:
سائنسدان چیخ چیخ کر چلا رہے تھے کہ فضائی آلودگی سے کائنات کو خطرہ ہے۔ جب اوزون لیئر (خلا کا سطح جو سورج کی روشنی کو سیدھا زمین پر پڑنے سے بچاتا ہے اور فلٹر کا کام کرتا ہے) زمین پر انسانوں کی جانب سے مہلک گیسوں کے خراج، ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے ایندھن کو بے دھڑک فیکٹریوں میں استعمال سے ہاتھ نہیں کھینچا گیا اور اسلحہ کا نہ ختم ہونے والا دور ایٹمی و بارودی مواد کو جمع کرکے انہیں پٹاخوں کی طرح پھوڑنے کی اس خطرناک دوڑ کو نہ روکا گیا تو نتائج خطرناک ہونگے۔ مگر بار بار کی ان خطرناک ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کی اپیلیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔ ایک بھی ملک نے رضاکارانہ طور پر فضا دوست ماحول دوست پالیسی پر حامی نہیں بھری ہر ایک نے سوچا میرا اوزون لیئر کی خستہ حالی سے کیا لینا دینا، اوزون پھٹ جانے سے کیا صرف میرے ملک کے شہری ہلاک ہونگے؟ میں تو اپنی فیکٹریاں اور دیگر ماحول دشمن گیسوں کے اخراج والی کسی بھی تجربہ کو روک نہیں سکتا، میں تو جنگل کے درختوں کو کاٹونگا کیونکہ اس سے میرے ملک کا زر مبادلہ بڑھے گا اور کار خارنوں میں زیادہ کوئلے کے استعمال سے مجھے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا، گلیشیر کے برفانی تودے وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ پگھلنا شروع ہوں تو میرا کیا جاتا ہے، آسمان سے غیرمعولی بارشیں آسمان پھاڑ کر برسیں اور سیلاب کا موجب بنیں تو میرے ملک میں تھوڑی تباہی آئے گی؟ امریکہ اور آسٹریلیا میں خشک موسم سے جنگلات میں آگ بھڑکے اور لاکھوں جانور زندہ جل کر لقمہ اجل بن جائیں تو یہ میرا سردرد نہیں وغیرہ وغیرہ۔
یعنی ہر ملک نے یہ سوچا کہ اوزون لیئر کی حفاظت میری ذمہ داری نہیں، ہر سال کلائمیٹ چینج ماحولیاتی تبدیلی کے نام پر سیمینار اور لمبی چوڑی بھاشن بازی کے علاوہ کسی بھی ملک نے اپنے حصے کی ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اور قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا۔
لیکن جب سے کرونا وائرس کا ظہور ہوا ہے سب ہی ممالک نے بنا کسی اپیل کے، بنا کسی تعطل اپنے اپنے ملکوں میں دھواں چھوڑتی کروڑوں گاڑیوں کو گھروں میں پارک کردیا، فیکٹریوں میں تالے پڑ گئے، جہازوں کے پنکھے رک گئے اور یوں ساری دنیا میں فیکٹریوں، جہازوں، گاڑیوں کے شور کی جگہ پرندوں کی چہچہاہٹ نے لی ، لوگ گھروں میں اور جانور سڑکوں پر نکلے۔
یہ کام نہ شمالی کوریا کا ہے نہ امریکہ کا کمال ہے جن کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بیانات نے سرخیاں بٹوری تھیں جس میں کم جن اون نے کہا ان کا ہاتھ ایٹمی ہتھیار کے بٹن پر ہے اور ٹرمپ نے جواب دیا تھا کہ ان کا بٹن کم جن اون کی بٹن سے بڑا اور طاقتور ہے۔
پھر خدا نے کہا میرا بٹن تم سب کی بٹن سے بڑا ہے اور یوں کوروناوائرس دنیا کے کونے میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلنے لگا جو ہنوز پھیل رہا ہے، کب رکے گا کتنی جانیں لے گا کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
اوزون لئیر کی تحفظ میں ناکام دنیا اب نہ چاہتے ہوئے بھی اوزون لیئر کی صحت یابی کی وجہ بن رہے ہیں کیونکہ ناسا کی تازہ رپورٹ کے مطابق اوزون لیئر روبہ صحت ہے کیونکہ ساری دنیا میں لگ بھگ لاک ڈاون ہے، کارخانے گاڑیاں اور مشنری بند پڑی ہے جو فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ تھے۔
اوزون لیئر یا کلایئمیٹ چینج سے متعلق ممالک غیرسنجیدہ اس لیے تھے کیونکہ ان کی نظر میں یہ خطرہ ان کی ذات سے دور ہے، وہ کیوں فکر کریں، اوزون لئیر جب پھٹے گا سو دیکھا جائے گا لیکن جب سے کرونا وائرس نے ہر گھر میں دستک دینا شروع کی ان کو ہوش آیا کہ یہ تو ان کی ذات کے لیے خطرہ ہے۔ ملکہ، بادشاہ، وزیر و مشیر، امیر و غریب مرد و زن کمسن و بوڑھے ہر کوئی اس کا شکار ہونے لگے ہیں۔
اوزون کی تہیہ پھٹ جانے سے یہ خطرہ اجتماعی تھا لہذا کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگی لیکن جب سے یہ خطرہ انفرادی ہوا تو ہر کوئی ملک احتیاطی تدابیر میں جٹ گیا۔ اگر یہ خطرہ غریبوں اور ایک خاص طبقے کے لیے ہوتا تب بھی شائد دنیا سنجیدہ نہ ہوتی لیکن جب سے یہ سب کو برابرمتاثر کررہی ہے اب تمام ممالک نے اسے سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے اور اپنے تئیں اس کی بیخ کنی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔
لیکن کرہ ارض پر ایک ہستی اور بھی ہے جسے نہ اوزون لیئریعنی خلاہ کے پردے پھٹ جانے سے ڈر خوف یا فکر ہے نہ کوروناوائرس سے لڑنے کی کوئی قومی و اجتماعی پالیسی، نہ سکت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی حمایت سے متعلق کوئی قومی کوشش یا اقدام اٹھائے گئے۔ اس ہستی کو بلوچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بلوچ گذشتہ ستر سالوں سے پاکستانی و ایرانی غلامی کی وائرس سے متاثر ہیں۔ بلوچ نے بھی عالمی برادری کی طرز پر اپنی غلامی کے خلاف کوئی اجتماعی بیانیہ اور پالیسی نہیں اپنائی، جب مری انگریز راج سے مذاہمت کررہے تھے تو باقی بلوچوں نے کہا ہمارا کیا، یہ ان پڑھ جاہل مری لوگ لڑ رہے ہیں، ان کو لڑنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں آتا، پھر پرنس عبدالکریم نے آزادی کا علم بلند کیا اس وقت بھی باقی بلوچوں کا رویہ مایوس کن رہا کہ چھوڑیئے عبدالکریم اور ساتھی ہیں دیکھتے ہیں کب تک لڑیں گے، ہم خوامخواہ کیوں اپنے علاقے، برادری اور جائدادیں چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کریں؟ جب نواب نوروز خان پہاڑوں پر تھے تب بھی ہماری قوم نے ان کے کارواں کا ساتھ دینے کی بجائے بس تماش بین کاکردار ادا کیا، نواب نوروز اپنے تین بیٹوں اور دیگر کامریڈوں کے ہمراہ مچ جیل میں پھانسی پر چڑھ کر شہید کئے گئے لیکن مجال کہ بلوچ نے قومی بیانیہ اور اجتماعی طاقت جمع کرنے پر کوئی دھیان دی ہو۔ پھر جب مری، زہری و مینگل قبائل پاکستانی قابض فوج کے خلاف لڑ رہے تھے تب بھی باقی ماندہ بلوچستان خواب غفلت میں سورہا تھا یا پھر ذاتی مراعات کے دریا میں غرق تھا، انہوں نے سوچا ہم تو محفوظ ہیں ، ہم کیوں ہتھیار اٹھائیں؟ یہ لڑائی بھی اپنوں کی بے رخی اور دشمن کی بے جا طاقت سے کمزور کراکر دبا دی گئی۔
اس کے بعد یہ چنگاری پھر بھڑک اٹھی اور کوہستان مری، جھالوان اور کچھ حصوں کو تپش محسوس ہونے لگی لیکن پھر وہی سوچ کہ میرا گھر محفوظ ہے، میرا قبیلہ سلامت ہے اور میری پگڑی سلامت ہے، میرا ماہانہ اجرت جاری ہے میں کیوں بلوچ مزاحمت کا ساتھ دے کر اپنے ذاتی مراعات و اجرت کو لات ماردوں؟
موجودہ دور میں یہ لڑائی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی طرح پر ہر گھر میں پھیلانے کی کوشش کی گئی اور اس جنگ کو شروع کرنے والے سنگت حیربیار اور بابا مری (مرحوم) اور ان کے انقلابی جفا کش دوستوں نے ایک حکمت عملی کے تحت وسیع کردیا۔ ماضی کی بہ نسبت اس بار اس لڑائی کے ریڈار کے اندر سب ہی سوچ اور برادری کے لوگ لائے گئے اب یہ جنگ قلم اور بندوق دونوں سے لڑی جانے لگی۔
چونکہ کورونا وائرس کی طرح یہ جنگ ہر طبقے اور علاقے میں پھیل چکا تھا، دشمن نے ہر گھر سے ایک نوجوان اٹھایا، اور پہلی بار ہر گھر سے ایک سرمچار قومی درد کو یکساں محسوس کرنے لگا۔ اب سب بلوچوں نے اس دشمن کو ایک مشترکہ خطرہ سمجھا اور اس سے ملکر مقابلہ کرنے کا تہیہ کرلیا تھا، سب ملکر دشمن کی جارحیت پر لاک ڈاون کرتے، سب ملکر پہیہ جام کراتے اور سب ملکر اپنی ضرورت مند قوم کی مدد کرنے لگے، کوہلو کاہان، ڈیرہ بگٹی سے مکران، لسبیلہ سے کوئٹہ تک سب کا ایک ہی نعرہ تھا بلوچستان سے پاکستانی فوج کا انخلا ناگزیر۔
بد قسمتی سے پھر حالات تبدیل ہونے لگے، اوزون لیئر بابت ممالک کی بے رخی کی پالیسی ہمارے اندر بھی پنپنے لگی، اجتماعی سوچ کمزور ہونے لگی، نئے نئے کارکنوں میں لیڈری کی مرض نے سر اٹھانا شروع کیا، قومی سوچ کی جگہ پارٹی، تنظیم اور گروہ نے لی۔ ہر ایک نے سوچا میری تنظیم مضبوط تو میں مضبوط لیکن یہ نہیں سوچا کی ایٹمی غنڈہ گرد ریاست پاکستان سے تنظیم و گروہ بن کر نہیں بلکہ ایک قوم بن کر جیتا جاسکتا ہے۔ جب بھی کسی جہد کار کا نقصان ہوتا تو سامنے والاکہتا میرا نقصان نہیں یہ فلاں تنظیم کے لوگ تھے، اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام یہ آیا کہ تنظیموں کے اندر لابینگ، وہاں سے اسلحہ لیکر لانا، اچھے بھلے تنظیم کے اندر دراڑیں ڈال کر ان کے ساتھیوں کو مراعات و لالچ دے کر اپنی تنظیمی تعداد بڑھانے کو کامیابی کا پیمانہ گرداننے لگا۔ اس وقت ہم عالمی برادری کی طرح کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں یعنی ہمارا دکھ و درد اور خوشی سب تقسیم۔
آج بلوچ تحریک کو کرونا وائرس کی طرح اپنے دشمن پر حملہ آور ہونا چاہئے، آپ کہیں گے کہ میں بلوچ کو کسی وائرس سے تشبہہ دے کر گناہ کررہا ہوں تو عرض ہے کہ میں بلوچ کو وائرس نہیں لیکن وائرس کے ‘طریقہ پھیلاو’ کا حوالہ دے رہا ہوں۔ بلوچ قوم کی غلامی کو ایک وائرس سمجھنا ہوگا جو ہم سب کو ایک ایک کرکے مار رہا ہے، یہ وائرس نما دشمن مڈل کلاس شہید غلام محمد، شہید فدا، شہید حمید ، شہید نواب اکبربگٹی، شہید نواب نوروز، شہید بالاچ مری میں تمیز نہیں کرتا سب کو نشانہ بنا چکا ہے، اور اب یہ ہر گھر کے لوگوں کو متاثر کررہا ہے، اب اگر اس وائرس کو کوہلو، کاہان، ڈیرہ بگٹی، وڈھ یا مکران تک محدود کیا گیا تو پھر ماضی کی طرح کچھ لڑیں گے باقی تماشا دیکھیں گے جیسے اب کچھ سال سے یہ معجرہ دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن اس قومی غفلت، مایوسی، خودغرضی، غیرحساسیت، اور تنگ نظری کے جمود کو توڑنا پڑیگا ۔ اس بار اس چنگاری کو گولڈ سمتھ لائن کی دوسری پار بھی منتقل کرنا ہوگا تاکہ ہم سب اس غلامی کی کرونا وائرس کے خطرے کو یکساں محسوس کرسکیں، ہمیں یہ سمجھ کر تسلیم کرنا پڑیگا کہ پنجابی اور گجر کی یہ جارحیت، بلوچ کشی، قتل و غارت گری، اور نسل کشی اب ایک قبیلہ، ایک ضلع یا ایک طبقہ تک محدود نہیں بلکہ قابض ریاست کا ہماری سرزمین پر قبضہ ہماری قومی اجتماعی وجود کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔ جب پوری دنیا کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اکھٹی ہوسکتی ہے تو بلوچ اس غلامی کے کورونا سے لڑنے کے لیے کیونکر اکھٹی نہیں ہوسکتی؟ اگر اب بھی ہم پاکستان اور غلامی سے متعلق ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ کر لڑنے کی کوشش کریں گے تو نقصانات زیادہ اچھے نتائج کم ملیں گے۔ قومی سوچ اپنا کر ہر چرواہے، دہقان، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب کو شامل کریں گے تو ہر کوئی اس جنگ کو اپنا سمجھ کر ہمارے ساتھ ہوچلے گا اور یوں ہم جیت جائیں گے۔