شال(ہمگام نیوز)جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے لوگوں کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی طرف سے شال پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ جاری ہے۔
آج اس احتجاجی کیمپ کو 5698 دن پورے ہوگئے ہیں۔ بی ایس او پجار کے سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر طارق ، مرکزی سیکریٹری جنرل ابرار برکت اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
انھوں نے کہا طویل احتجاج کے باوجود بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شدت سے جاری ہے۔ روزانہ لوگوں کو اٹھا کر جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ رکنا چاہیے کیونکہ جبری گمشدگی صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اجتماعی سزا کی بدترین شکل ہے۔
ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان کی عالمی اور علاقائی اہمیت کی وجہ سے یہاں مقامی سیاسی قوتوں کو جو بلوچ قومی مفادات کی سیاست کرتے ہیں ریاستی تشدد کا سامنا ہے۔ ریاست نے جبری گمشدگی کو ایک ہتھیار بنایا ہوا ہے تاکہ بلوچ سیاسی قوتوں کو پسپا کرکے یہاں اپنی عالمی شراکت داروں کے ساتھ سودے بازی کرسکے۔
انھوں نے کہا بلوچستان کا جغرافیہ اور مخصوص سیاسی حالات بالواسطہ جبری گمشدگیوں سے جڑے ہیں لیکن اس کا ذمہ دار صرف ریاست ہے جو یہاں بلوچ کی مرضی کی بغیر لوٹ مار کے لیے کھلی چھوٹ چاہتی ہے۔کسی بھی آبادی کو جدید دور میں سیاسی و انسانی حقوق کے سے محروم کرکے اپنی حکمرانی قائم نہیں کی جاسکتی ، مزاحمت ایک فطری ردعمل ہے۔
ماما قدیر نے کہا پاکستان کے قوانین بھی اس آمرانہ طرز عمل کی اجازت نہیں دیتے۔ بلوچستان کے معاملات میں پاکستانی انٹلی جنس اداروں کی بیجا مداخلت سے حالات انتہائی حد تک گھمبیر ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں کسی بھی واقعے کے بعد جو ردعمل نظر آتا ہے اسے ٹارگٹڈ آپریشن نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ اجتماعی سزا ہے۔ زہری میں حال ہی کے ایک واقعے کے بعد جو گرفتاریاں کی گئی ہیں اور جس طرح کے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں یہ جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا اگر ریاست کی طرف سے کی گئیں گرفتاریوں کا کوئی جواز ہے تو ریاستی فورسز کو گرفتار افراد کو عدالت میں پیش کرکے ملزمان کو مجرم ثابت کرنا ہوگا ۔ جبری گمشدگیوں کا کسی بھی صورت کوئی جواز نہیں اور اس پر بلوچ قوم کا ردعمل جائز ہے ہم اپنے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔