شال(ہمگام نیوز) جبری لاپتہ افراد کو سینے پر بارود باندھ کر دھماکوں میں قتل کیا جا رہا ہے اور زہری میں اپنی ناکامیوں سے خائف فورسز بے گناہوں کو گرفتار کرکے جبری لاپتہ کر رہی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے شال میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کمیپ میں آئے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج ( بدھ ) 5700 دن پورے ہوگئے۔
ماما قدیر بلوچ نے جبری لاپتہ افراد کے بارے میں پہلی عالمی کانگریس کو ایک خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے کہا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جبری گمشدگی پر عالمی کانگریس کا انعقاد ایک امید افزا قدم ہے۔ وہاں بلوچستان کی نمائندگی بھی ہے اور بلوچ جبری لاپتہ افراد کے بارے میں بات ہو رہی ہے اس پیش رفت پر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین میں انصاف کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کو اس سنگین مسئلے پر دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے جبری گمشدگی کے ذمہ داران کو عالمی سطح پر جوابدہ بنانا چاہیے۔
انھوں نے کہا زہری میں ریاستی مفادات پر حملے کیے گئے اور حملہ آور وہاں آٹھ گھنٹے تک موجود رہے ، یہ ناکامی ریاستی فورسز کی ہے لیکن اس کا غصہ عوام پر نکالا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں کو گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا ہے اور لیویز اہلکاروں کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا ہے۔ یہ واضح طور پر نا انصافی اور متعصبانہ عمل ہے کیونکہ لیویز اہلکار بلوچ ہیں تو انھیں سخت سزا کے طور پر برطرف کیا گیا لیکن اس کے علاوہ جن فورسز کو ایسے حالات سے نمٹنے کی تربیت اور وسائل دستیاب ہیں ، ان کو ہر ناکامی پر مزید شاباشی اور وسائل ملتے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا جبری گمشدگیوں ، فوجی کارروائیوں اور بلوچ سیاسی قوتوں کو دبانے سے بلوچستان کا مسئلہ اور قومی سوال حل نہیں ہوں گے۔ بلوچوں کو ان کے بنیادی حقوق سمیت تمام تر حقوق دینے ہوں گے ، اس سے انکار بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی صورت نکل رہا ہے۔