پنجشنبه, سپتمبر 19, 2024
Homeآرٹیکلزاخترمینگل استفعیٰ، سَر کن پِِر کن اُپ کن ہچ۔ تحریر :حفیظ حسن...

اخترمینگل استفعیٰ، سَر کن پِِر کن اُپ کن ہچ۔ تحریر :حفیظ حسن آبادی

پاکستان ایک طرف قرضوں کے بوجھ تلے دب کر دیوالیہ کے قریب ہے دوسری طرف امریکہ اور چین کے درمیان رقابت کی وجہ سے سرگردان ہے کہ کس کا ساتھ دے اور کس کی ناراضگی کا بوجھ سہنے تیاری پکڑے جبکہ اندر سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے اوپر سے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں پُرامن احتجاجیوں اور عسکری تنظیموں نے حکومتی رٹ کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے . ایسے میں جب اسلام آباد والوں کے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کہاں سے چیزوں کو درست کرنے کا عمل شروع کریں عین اس وقت ریاست کا با اعتبار معتبر شخص بی این پی مینگل کا سربراہ اخترمینگل انھیں کندھا دینے کے بجائے قومی اسمبلی میں اپنی ممبرشپ سے استعفیے کا اعلان کر کے وقتی طور پر ملک چھوڑ چکے ہیں۔

اس تناظر میں گذشتہ چند دنوں سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے. کوئی اسے مرکزی حکومت کیلئے بہت بڑا دھچکا اور اسے بلوچ سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ قرار دے رہا یہ رائے رکھ کر وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ سردار مینگل پاکستانی پارلیمانی سیاست سے حقیقی طور پر مایوس ہو کر بلوچ قوم میں اس سے نجات کیلئے گراؤنڈ میں اُتر کر اُسے عملی طور پر منظم کریں گے تاکہ اگلے قدم پر بلوچستان کی آزادی کیلئے بین الاقوامی حمایت کی راہ ہموار کرنے میں آسانی ہو اور کچھ اسے سابقہ بھڑک بازیوں کا تسلسل کہہ کر اگلے الیکشن میں کچھ زیادہ سیٹیں لینے کیلئے ابھی سے دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی سمجھتے ہیں اور کچھ اسے موجودہ حکومت پر خودکش حملہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت کی کشتی پہلے سے مسائل کے بھنور میں چکر کاٹتی ہچکولے کھا رہی ہے اوپر سے بلوچستان جیسے حساس صوبے سے ایسی غیر متوقع صورتحال کا پیش آنا یقیناً مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

مگر حقیقت میں یہ بی این پی مینگل کے سربراہ کا مرکز پر سیاسی خودکش حملہ اُس ناکام حملے کی مانند ہے جو ہدف تک پہنچنے سے پہلے خودکش کا جیکٹ پھٹ جائے اور خود اس کے سوا کسی کو نقصان نہ پہنچائے۔

 گو کہ مرکز میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مینگل کے استعفیٰ سے جمہوریت پر سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ جائے گا اور بلوچستان کے معاملات کو درست کرنے میں دشواری ہوگی مگر ان دونوں باتوں میں صداقت نہیں کیونکہ جہاں جمہوریت ہو ہی نا تو اس پر سے اعتماد کے اُتھ جانے کا سوال کہاں سے اٹھتا ہے دوسرا یہ کہ بلوچستان کا ایک ممبر تو کیا سارے کے سارے ممبرز استعفیٰ دے دیں تب بھی اس مرکز کو فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ فرق وہاں پڑتا ہے جہاں ادارے ہوں اور وہ بااختیار بھی ہوں یہاں تو نام کے ادارے موجود ہیں مگر یہ جانتے سب ہیں کہ وہ عضو معطل کی طرح ناکارہ ہیں۔

 جہاں تک بلوچستان کے مسلے کو حل کرنے کا سوال ہے اُس بارے میں جو پریس کانفرنس آئی ایس پی آر نے پچھلے دنوں کی اُس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اُنکے پاس اسکے حل کیلئے کوئی ٹھوس قابل عمل فارمولا نہیں جو کچھ وہاں کہا گیا وہ کم از کم ہزار دفعہ اس سے قبل دہرائی گئی باتیں اور وضاحتیں تھیں. لگتا یہی ہے کہ وہ ابھی تک زور سے دو جمع دو برابر پانچ دیکھنے کے متمنی ہیں اور ایسا کسی صورت بھی ممکن نہیں جبکہ اس مسئلے کو کسی اور زاویے سے دیکھنے اور حل تلاش کرنے کی کوشش اُنکی طرف سے تاحال دکھائی نہیں دے رہا. اُن کے اس بے اعتنائی پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں ویژن کی کمی ہے یا نیت میں خلل ہے البتہ ایک بات طے ہے کہ یہ مسلے کو حل کرنے کا نہیں اُسے مزید الجھانے کی روش ہے اس رویے کی فرینڈلی اپوزیشن کی شکل میں سردار مینگل نے خالی بیانات دے دے کر بہت مدد کی مگر اس سے کچھ نہیں بنا آئندہ اگر اختر مینگل مرکز سے ناراض رہیں کہ خوش اس مسلے پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

سو مینگل صاحب کے استعفیٰ سے سب سے زیادہ نقصان خود انہی کو اور بعد میں انکی پارٹی کو ہوا ہے۔

1) جو قدم مینگل صاحب نے اُٹھائی ہے وہ کسی ایسے شخص کا نہیں ہو سکتا جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہو کیونکہ ایک شخص جب اپنی پارٹی میں جمہوری اصولوں کا پاس نہیں رکھ سکتا وہ دوسروں سے پورے پاکستان میں جمہوری اقدار کی پاسداری کا توقع کس طرح رکھ سکتا ہے. پاکستان کی سیاست میں سب جانتے ہیں کہ سینٹرل کمیٹی، ایگزیکٹو باڈی وغیرہ سب نمائشی ہوتے ہیں اصل فیصلہ تو پارٹی لیڈر ہی کرتا ہے باقی تو اس فیصلے کو جمہوری فیصلے کا جامہ پہنانے ہاتھ ہی اُٹھاتے ہیں یہاں بھی کچھ الگ نہیں ہونے والا تھا مگر سردار کے سرداری مزاج نے سولو فلائٹ کی ایسی اُڑان بھری کہ آپ نے رسم دنیا اور اپنے اداروں کی لاج رکھنے کوئی میٹنگ بلا کر اُس کے سامنے اپنے استعفیٰ کا سوال رکھنے کو بھی لازمی نہیں سمجھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے ادارے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور کس حد تک اپنے ساتھیوں کے رائے کو سُننے کے قابل سمجھتے ہیں۔

2) ایک اور بات جو کسی طرح بھی قابل وضاحت نہیں کہ آپ نے تو پارٹی سربراہ ہو کے پاکستانی پارلیمان سے مایوس ہو کر استعفیٰ دے دیا اب باقی پارٹی کیا کرے؟ اس کے سینیٹ، صوبائی اسمبلی اور لوکل باڈیز کے ممبران کیاکریں؟ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ قومی اسمبلی سے اعتبار اُٹھ گیا ہے لیکن سینیٹ، صوبائی اسمبلی اور لوکل باڈیز قابل اعتبار ہیں. جیسےکہ پہلے عرض کیا چکا اور سردار صاحب نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آپ نے اکیلے اپنے استعفیٰ کا فیصلہ کیا ہے باقی پارٹی اپنا فیصلہ 13 ستمبر کے میٹنگ میں کرے گی آپ نے جوش خطابت میں یہاں تک فرمایا کہ اگر پارٹی مجھے اپنا فیصلہ واپس لینے کا کہے میں پھر بھی اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا اس نافرمانی کی پاداش میں اگر پارٹی مجھے سزا دے پھر بھی میں اپنے فیصلے پر اٹل رہوں گا. سردار صاحب کی اپنے ہی پارٹی کے سامنے ایسی ہٹ دھرمی اپنی پارٹی کے جمہوری ہونے کے منہ پر زناٹے دار تھماچہ ہے۔

جہاں تک ہماری معلومات ہے پوری دنیا میں پارٹی ممبران حتیٰ کہ اس کے سینئر لیڈرز بھی غلطی کرکے معطل ہوتے، بحال ہوتے یا بالکل پارٹی سے نکال دئے جاتے ہیں سردار پہلے پارٹی سربراہ ہیں جو پارٹی سربراہ ہو کر خود پارٹی اصولوں کی خلاف ورزی پر نازاں خود اپنے معطلی یا ممبر شپ ختم کرنے کی بات کرتے ہیں اصل میں انھیں بخوبی علم ہے ایک پارٹی جو اس کے نام (مینگل) سے منسوب ہے وہ کسی طرح مینگل کو نکال کر بی این پی بینگن تو تشکیل نہیں دے سکتے اس لئے کہتے ہیں مجھے سزا دیں تب بھی اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا۔

کیا کبھی کسی نے سُنا ہے کسی جرنل نے خود میدان چھوڑ کر جنگ سپاہیوں کی سپرد کی ہو ؟ یا کسی ٹرین کہ انجن ماسٹر نے انجن سے منسلک مسافروں سے بھری بوگیوں کو ریلوئے اسٹیشن پر چھوڑ کر خود انجن لیکر کہیں نکلا ہو؟ یقیناً نہیں! تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پارٹی قائد کسی پلیٹ فارم کو غیر موثر سمجھ کر اُس سے نکلتا ہے اور اُس کی پارٹی وہاں بیٹھی رہتی ہے؟ اس صورت میں یا تو قائد درست ہے یا اُس کے ورکر جو بقولِ بی این پی مینگل کے سابق سینیٹر لیڈر وحید بلوچ کے کہ ورکر اپنے قائد کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں جس سے وہ یقیناً ابھی تک مخمصے میں ہیں کہ کیا کریں؟ اور یہ قائد نے کیا کیا جو نہ اُس کے اپنےسمجھ میں آرہا اور نہ ہم سمجھ

پا رہے ہیں کہ آپ نے یہ کیوں کیا ؟

استفعیٰ کے بعد سردار صاحب نے اپنے نئے تین نکاتی مطالبے رکھے ہیں جو ابھی تک انکے استعفیٰ واپس لینے سے مشروط نہیں مگر لگتا یہی ہے کہ آپ انہی کے پورا ہونے کو اپنے پلٹنے سے مشروط کر کے کوئی باعزت واپسی(جسے بلوچی میں “آرتءِ پونز یعنی آٹے کی ناک کہتے ہیں) کے خواہاں ہیں۔

پہلا مطالبہ لاپتہ افراد کی بازیابی،دوسرا مسخ شدہ لاشوں کے زمہ داروں کا فری ٹرائل اور شفیق مینگل جیسے نجی ملیشیا کا خاتمہ آپ کے مطالبات تکراری ہیں مگرپھر بھی اُس صورت میں قابل تعریف ہیں اگر اُن پر ڈٹے رہ کر اُن کے عملی ہونے کو یقینی بناسکیں کیونکہ سردار صاحب اور اُسکی پارٹی کی وعدوں پر پورا اُترنے کی تاریخ ماضی سے لیکر اب تک قابل رشک نہیں رہی ہے ماضی میں آپ کے والد گرامی سردار عطا ء اللہ خان مینگل نے لندن سے اس وعدے کیساتھ اعلان کیا کہ وہ جب تک پاکستانی آرمی کو شکست سے دوچار کرکے آزاد بلوچستان تشکیل نہیں دیں گے غلام بلوچستان میں قدم نہیں رکھیں گے اوربقول شے رگام (واجہ جان محمد دشتی) اسی نعرے کے تحت برسوں آپ نے گلف کے غریب بلوچ مزدوروں سے چندہ جمع کئے بعد میں جب پاکستانی حکمرانوں سے سودا طے ہوا تو آزادی کا نعرہ کہیں ٹحلیل ہوا اور آپ صوبائی خودمختاری کے جھوٹے وعدے پر پاکستانی پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے. لندن سے یہاں آکر انیس سو چھیانووے میں بڑے سردار نے اعلان کیا کہ پارٹی کا جوجو نامزد اُمیدوار قومی یا صؤبائی اسمبلی میں کامیاب نہیں ہوگا وہ سینیٹ کیلئے اُمیدوارنہیں بن سکتا اور یہ پارٹی سربراہ کا اٹل فیصلہ ہے لیکن شاید قدرت نے قول پر ڈٹے رہنے اور خالی بیان داغنے کا راز فاش کرنا تھا اس لئے سردار ثناء اللہ زہری غیر متوقع طور پر الیکشن ہار گیا پھر کیا ہوا سب پارٹی ممبرز سردار مینگل صاحب کا وعدہ بھول گئے اور آپ نے کسی کو اپنی وعدہ خلافی کا وضاحت دئے بغیر ثناء اللہ زہری کو سینیٹر منتخب کرایا۔اس کے بعد سردار اختر مینگل صاحب کے وعدوں پر نہ ٹکے رہنے کی طویل فہرست ہے مگر کالم کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فقط تین وعدوں کے یاددہانی پر اکتفا کریں گے پہلے آپ نے گلف سے آتے ہی چھ نکات کا دھماکہ دار اعلان کیا اور کہا کہ اگر میرے ان چھ نکات پر عمل درآمد نہیں ہوا تو میں پاکستانی پارلیمانی سیاست نہیں کرسکتا. ریاست نے چھ تو کیا ایک نکتہ بھی نہیں مانا اور یہ بات ہم نے اس وقت اپنے متعدد تحریروں میں لکھا مگر بی این پی مینگل ایک بھی مطالبے قبول کروائے بغیر پارلیمنٹ کا حصہ بنتی رہی اور عمران خان کے دؤر حکومت میں تو حکومتی اتحاد تک کا حصہ بنے مگر اپنے چھ نکات کا ذکر کہیں بھی غلطی سے نہیں کیا. دوسرا آپ ہمیشہ فرناتے ہیں جی ایچ کیو سیاسی انجینئرنگ کرتی ہے اور وہ ہمیں کسی طور قبول نہیں. آپ کی یہ بات درست ہے اور اسی بات کے تناظر میں آپ نے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو جی ایچ کیو والوں کا ناجائز اولاد قرار دیا جس پر بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ مل کر قہقہے لگائے . لیکن بعد میں آپ نے اسی ناجائز اولاد (بقول آپ کے) کے چیئرمین سینیٹ اور بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کو ووٹ دیا اور اس کے باپ کو ایکسٹنشن دینے ووٹ دیا دوسری دفعہ آپ نے بی وائی سی پر اسلام آباد میں ذیادتیوں پر اپنے گورنر کے استعفیٰ کا وعدہ کیا جو وفا نہیں ہوا. سو ہم بڑے تاسف کیساتھ یہ کہتے ہیں کہ سردار صاحب کا یہ استعفیٰ کسی درد کا دوا نہیں کیونکہ بلوچ قوم اب سمجھ چکی ہے کہ یہ سارے پارلیمانی سیاستدان حضراتِ اپنے سیٹوں اور مفادات کے بندی ہیں اُن کے یہ نعرے، یہ بڑی بڑی باتیں فقط ایک چیک سے دوسرے چیک کے درمیان تعطل کو ختم کرنے کیلئے یاد دہانی کے سگنل کے سوا کچھ نہیں. عوام کی اسی سرد مہری کو محسوس کرتے ہوئے مرکز نے نخرے اُٹھانے بند کئے ہیں۔

اسکے باوجود بلوچ قوم اب بھی نااُمید نہیں کہ آپ لوگ زمینی حقائق کو سمجھتے اور نوشتہ دیوار کو پڑھتے ہوئے نمائشی بیانات اور مرحوم سلطان راہی کی طرح ڈائیلاگ مارنے کے بجائے ماہ رنگ بلوچ کی طرح اس پارلیمانی دلدل سے نکل کر میدان عمل میں اس ارادے کے ساتھ آئیں کہ اگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کسی پارلیمنٹ میں جائے بغیر بلوچوں کیلئے اُمید کے کرن ثابت ہو سکتی ہے تو آپ کیوں نہیں. جہاں تک آپ کے مطالبات کا سوال ہے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہونے والا اس کے باوجود آپ اپنا استعفیٰ واپس لیتے ہیں یا پارٹی کے باقی پارلیمان ممبران اور لوکل باڈیز ممبران کو استعفیٰ کا کہتے ہو آپ کی مرضی وہ آپکی بات مانیں نہ مانیں اُن کی مرضی جبکہ آپ کے سینیٹرز جنہوں نے پارٹی فنڈ کے علاوہ ایک ایک ووٹ کیلئے کروڑوں روپے دئیے ہیں اُن کا استعفیٰ دینا تقریباً ناممکن لگتا ہے. اسی طرح لوکل باڈیز میں بھی نہیں لگتا ہے کہ آپ کی صحیح طریقے سے شنوائی ہوگی۔

اور آخر میں سب سے اہم سوال جس کا جاننا بہت ضروری ہے کہ اگر مرکز عقل کا فیصلہ کر کے آپ کا استعفیٰ منظور کرتی ہے اور بفرض محال آپ کے دوسرے پارلیمنٹ ممبران اور لوکل باڈیز ممبران استعفیٰ دیتے ہیں اور الیکشن کمیشن سب سیٹوں پر پھر سے الیکشن کرائے گی اُس صورت میں آپ کیا کریں گے؟ کیا واقعی آپ ان الیکشنز میں حصہ نہیں لیں گے؟ کیونکہ آپ فرما چکے ہیں کہ آپ اب تمام اداروں اور تمام بڑی جماعتوں (خاصکر پی پی پی، مسلم لیگ، تحریک انصاف) کے لیڈروں سے مایوس یوچکے ہیں کیونکہ ان سب نے آپ کے ساتھ دھوکہ کیا ہے یا پارٹی کے آزاد اُمیدوار کھڑی کر کے اگلے الیکشن تک جگہ محفوظ پکڑ میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائیں گے؟ مشکل یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں آپ نقصان میں ہوں گے اگر الیکشن نہیں لڑیں گے تو کم از کم آدھی پارٹی آپ کو کھڑے کھڑے چھوڑ دے گی یا اگر آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آزاد اُمیدواروں کے پیچھے الیکشن لڑیں گے تو آپ کے استعفیٰ بارے اُن لوگوں کا یہ کہا سو فیصد درست ہوگا کہ آپ کی یہ مایوسی کے بیانات یہ استعفیٰ وغیرہ سب ڈھونگ اور اگلے الیکشن میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے کی فریاد و زاری کے نئی نئی قسمیں ہیں۔

 ایسے میں آپ کے پاس سر جھکا کر کسی بہانے واپس آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تاہم ایک راستہ ضرور ہے جس کا اُوپر ذکر ہوچکا مگر اُس پر جانے فی الحال آپ آمادہ نظر نہیں آتے کیونکہ اُس کیلئے کم از کم اکبر خان بگٹی، بالاچ مری یا غلام محمد بلوچ جیسے دل گردے کی ضرورت ہے جو آپ 1996 سے اسلام آباد میں گروی رکھ چھوڑے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز