پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ قومی مزاحمت کو کچلنے میں ایرانکے بالواسطہ کردار پر اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ ایک معتبر بلوچ ذریعےنے اطلاع دی کہ استاد واحد کمبر بلوچ کو ایران نے پاکستانی حکام کےحوالے کیا ہے، اس کے بدلے میں اپنے مطلوب افراد کا سودہ طے پایا۔ استادکی فیملی اور وابستہ تنظیموں نے ان کے کرمان سے اغوا کا بیان دیا تھا،مگر حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔

ایک طرف پاکستان نے آزادی پسند سیاسی سرگرمیوں پر مکمل قدغن لگا کربلوچ جماعتوں کو جلاوطنی پر مجبور کردیا ہے، جہاں ایف بی ایم، بی آر پیاور بی این ایم جیسی جماعتیں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکندوسری طرف بی این ایم نے خود کو ایران کے خلاف خاموشی کی زنجیرمیں جکڑ کر قومی طاقت کے اتحاد کو مزید محدود کردیا ہے، جس کا فائدہبراہ راست ایران اور پاکستان اٹھا رہے ہیں۔

اگرچہ فری بلوچستان موومنٹ (ایف بی ایم) نے منت سماجت کرتےہوئے کئیکوششیں کیں کہ آپس میں کسی سطح پر اشتراکِ عمل قائم ہو، مگر بی اینایم ایرانی بلیک میلنگ کی وجہ سے آگے بڑھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اس کا ایک سبب وہ خاندان اور چند سنیئر سیاسی کارکن ہیں جوسیکیورٹی کے سبب ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اورایران کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سیکیورٹیمعاہدے اور اسکیمیں بلوچ قومی تحریک کو دبانے کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔

چونکہ فری بلوچستان موومنٹ متحدہ بلوچستان تھیم کے تحت آزادی کیتحریک چلا رہی ہے، جس میں ایرانی مقبوضہ بلوچستان بھی شامل ہے، اسنعرے کو ایران ایک سیکیورٹی رسک سمھتا ہے، کئی فکٹروں کے ساتھایرانی کی ناراضگی بھی ایک بڑا  فکٹر ہے تو اسی وجہ سے بی این ایماس نعرے کی وجہ سے اتحاد کے معاملے پر پس و پیش کا شکار ہے۔  غالب گمان یہی ہے کہ ایران اتحاد کے سامنا سب سے بڑا مانع ہے۔

اتحاد کے لیے، تقریباً دو سال قبل بی این ایم نے ایک ڈرافٹ تیار کیا تھا، جوفری بلوچستان موومنٹ اور بی آر پی کی قیادت کو پیش کیا گیا۔ اطلاعاتکے مطابق فری بلوچستان موومنٹ نے اس ڈرافٹ پر اپنے نکات لکھ کر واپسبھیج دیے اور تجویز دی کہ 30 سے 40 دن کے اندر مذاکرات کے ذریعےاتحاد کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ مگر اس کے بعد بی این ایم نے نہصرف دوسری جماعتوں کو جواب نہیں دیا بلکہ اپنے ہی کارکنوں کو بھیلاعلم رکھا۔ عوام کو تو بالکل اندھیرے میں رکھا گیا۔

ایک سال بعد ایف بی ایم کو معلوم ہوا کہ بی این ایم اتحاد نہیں چاہتا۔ یہانکشاف گدان اسپیس پروگرام میں بی این ایم کے مرکزی سیکریٹریاطلاعات، جناب قاضی ریحان نے کیا کہ بی این ایم کے اتحادی فریبلوچستان موومنٹ کے ساتھ اتحاد کے حق میں نہیں ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہےکہ بی این ایم کے یہ اتحادی کون ہیں؟ بی این ایم کی سرگرمیاں یورپ میںمحدود ہیں اور وہاں یہ ہمیشہ اکیلے احتجاج کرتا ہے، اس کے ساتھ کوئیاتحادی نظر نہیں آتا۔ شاید ان کے اتحادی ایران ہے، جو متحدہ بلوچستانکے نعرے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، یا پھر بشیر زیب، جو نائلہقادری کی سازشوں اور رازق اچکزئی کی لاپرائیوں سے متاثر ہو کر حیربیارمری کے خلاف coup  سازش میں شامل رہا۔

شہید چیئرمین غلام محمد کی وراثت سے ملی بی این ایم کو ڈاکٹر اللہ نظرنے استاد واحد کمبر کے طبقاتی نظریے اور اینٹی سرداری بیانیے پر ڈال کرانتشار کا شکار بنا دیا ۔ اینٹی سردارکے نام پر حیربیار مری پر بے دریغالزامات لگائے گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ اینٹی سرداری کا نعرہ، بشیر زیب اور ایران کیناراضگی کا کیا جواز اور میرٹ بنتا ہے جس کی وجہ سے تحریک کیافرادی قوت تقسیم ہوچکی ہے اور تحریک ایک ’’نمائندہ قومی قیادت‘‘ سےمحروم ہوچکی ہے؟ اس انتشار کی وجہ سے کوئی بھی بین الاقوامی قوتبلوچ تحریک کو کھل کر سپورٹ کرنے سے گریزاں ہے۔ تحریک میںغیرضروری کمزوریوں کی وجہ سے خود استاد واحد کمبر جیسے رہنمادشمن کے ہاتھ لگ گئے، اور کئی دیگر رہنما اور کارکن بھی خطرے میں پڑچکے ہیں۔ استاد کی گرفتاری  اور ایران کے بلیک میل میں آ کر انکے حوالےغلط انفارمیشن پھیلانے تک  یہی تاثر ابھرتا ہے کہ بی این ایم مجموعی طورپر بلکل بلیک ہوچکاہے۔

معلومات کے مطابق، فری بلوچستان موومنٹ نے بی این ایم سے رابطہ کرکےدریافت کیا کہ اتحاد کے 12 نکات کا کیا بنا؟ مگر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد فری بلوچستان موومنٹ نے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے بیان دیا کہوہ اب اتحاد کی کوششوں سے دستبردار ہوچکے ہیں اور آئندہ اتحاد کےلیے کوئی کال نہیں دی جائے گی۔

تحریک قومی قیادت کی فقدان اور عدم مرکزیت کا شکار ہے جس کے باعثتحریک معروضی حالات سے پیدا شدہ مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے قابلنہیں رہی۔ تحریک کا سیاسی محاذ ایرانی بلیک میلنگ کی وجہ سے تقریباًختم ہوچکا ہے، اور عملی طور پر بلوچ قومی تحریک ایران کے شکنجے میںآچکی ہے۔

موجودہ مسلح مزاحمت نے زمینی سطح پر ایک chain of reaction کیشکل میں ایک طاقتور نتیجہ خیز قوت پیدا کی ہے، جسے ہم تحریک کیغیرجانبدار عوامی قوت کہہ سکتے ہیں۔ مگر اب اس عوامی قوت پر بھیپابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اس کی اسٹریٹ پاور کو محدود کرنے کیکوششیں جاری رہیں، تو تحریک میں شامل تمام شراکت داروں کو اپنیپالیسیاں ازسرنو غور و فکر کے ساتھ نئے تقاضوں پر مرتب کرنی ہوں گی۔