کتاب: فلسفۂ اخلاق کے عناصر
مصنف: جیمز ریچلز — اسٹوارٹ ریچلز
اردو ترجمہ: عمر عدیل
حصہ دوّم
عین رینڈ کے دلائل
عین رینڈ (Ayn Rand) کے کام پر فلسفی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ان کے ناول کے اہم موضوعات “فرد کی فضیلت اور سرمایہ داری کی برتری” تھے، جنہیں مزید درشتی کے ساتھ دیگر مصنفین نے تشکیل دیا۔ تاہم، وہ ایک کرشماتی شخصیت تھیں، جنہوں نے بہت سے شائق معتقدین کو راغب کیا۔ بیسویں صدی کے کسی بھی دوسرے مصنف کی نسبت اخلاقی خودغرضیت رینڈ سے زیادہ وابستہ ہے۔
• اخلاقیات ایثار کی رد میں عین رینڈ کے دلائل
عین رینڈ نے “اخلاقیات ایثار” (Ethical Altruism) کو سماج اور اسے اپنانے والے افراد، دونوں کی زندگیوں کیلئے عمل طور پر تباہ کن تصور سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایثار، فرد کی فضیلت سے انکار پر منتج ہوتا ہے۔ یہ ایک شخص سے کہتا ہے کہ؛ تمہاری زندگی محض ایک قربانی کی چیز ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ “اگر کوئی شخص اخلاقیات ایثار کو قبول کرتا ہے تو اس کی اولین تشویش یہ نہیں ہوتی کہ اپنی زندگی کیسے جی جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کیسے قربان کی جائے۔ جو لوگ اخلاقیات ایثار کو فروغ دیتے ہیں، وہ بصد معذرت، وہ سب طفیلیے ہیں، وہ اپنی زندگی بنانے اور بر قرار رکھنے کے بجائے، دوسرے خود پرداختہ (Self made) لوگوں کا خون چوستے ہیں۔
رینڈ مزید کہتی ہیں؛
“طفیلیوں، منکروں، لٹیروں اور ٹھگوں کی انسانوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ایسے معاشرے میں رہنے سے انہیں کوئی فائدہ ہو سکتا ہے جو ان کی ضروریات، مطالبات اور تحفظات کو اہمیت دیتا ہو۔
ایک ایسا معاشرہ جو اسے قربانی کا جانور سمجھتا ہو اور اس کی نیکیوں کے لئے اس کو اس لئے مزادے تاکہ ان (مخیر حضرات) کو ان کی برائیوں کی جزا دی جاسکے، جس کا مطلب ہے؛ اخلاقیاتِ ایثار پر مبنی ایک معاشرہ۔”
“اپنی زندگی کی قربانی” دینے سے، رینڈ کا مطلب مرنے جیسی کوئی تمثیلی چیز نہیں ہے۔ ایک شخص کی زندگی کچھ جاری منصوبوں، چیزیں کمانے و بنانے جیسی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔ چنانچہ کسی شخص سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنے منصوبے ترک کر دے یا اپنی چیزیں چھوڑ دیں، ایسا ہی ہے جیسے اس سے زندگی کی قربانی کا مطالبہ کرنا۔”
• اخلاقی خودغرضیت، بطورِ مابعدالطبیعیاتی تصور
رینڈ یہ بھی تجویز کرتی ہیں کہ اخلاقی خودغرضیت کی ایک مابعدالطبیعیاتی بنیاد بھی ہے۔ یہ وہ واحد اخلاقیات ہے جو کسی نہ کسی طرح فرد کی حقیقت کو سنجیدگی سے تسلیم کرتی ہے۔ وہ فریاد کرتی ہیں کہ “سنگین بد اخلاقی کی حد تک ایثاریت پسندی، لوگوں کی اس صلاحیت ادراک کو مٹا دیتی ہے، جو ایک انفرادی زندگی کی قدر کر سکے؛ اس سے ایک ایسی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس سے حقیقت انسانی مٹائی جا چکی ہے۔”
پھر، فاقہ کش بچوں کا کیا؟ کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقی خود غرضیت سے ایک ایسی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس سے حقیقت انسانی مٹائی جاچکی ہے “یعنی وہ انسان جو فاقے سے مر رہا ہے۔ لیکن رینڈ نے اپنے ایک پیروکار کا جواب با اجازت نقل کیا ہے: “ایک بار، جب باربرا برینڈن (Barbara Brandon) سے کسی طالب علم نے پوچھا؛
“اس غریب کا کیا ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا؛ اگر آپ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو نہیں روکا جائے گا۔”
• استدلال اور نتیجہ
یہ تمام جوابات ایک ہی دلیل و (استدلال) کا حصہ ہیں جو کچھ اس طرح چلتی ہے؛
۱) ہر شخص کے پاس جینے کیلئے صرف ایک ہی زندگی ہوتی ہے۔ اگر ہم فرد کی قدر کرتے ہیں، تو پھر ہمیں اس بات سے اتفاق کرنا چاہئیے کہ اسکی زندگی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ بہر حال، یہ اس کے پاس ایک ہی ہے، اور یہی اسکا سب کچھ ہے۔
۲) اخلاقیات ایثار، فرد کی زندگی کو یوں تصور کرتی ہے جیسے یہ کوئی ایسی چیز ہے جو دوسروں کی بھلائی کی خاطر قربان کی جاسکتی ہے۔ لہذا، اخلاقیات ایثار فرد کی قدر سنجیدگی سے نہیں کرتی۔
۳) اخلاقی خودغرضیت، جو ہر فرد کو اپنی زندگی کو بنیادی اہمیت دینے کی اجازت دیتا ہے، فرد کی قدر سنجیدگی سے کرتا ہے۔ در حقیقت، یہ وہ واحد فلسفہ ہے، جو ایسا سمجھتا ہے۔
۴) چنانچہ ہمیں اخلاقی خود غرضیت کو قبول کرنا چاہئیے۔