عنوان میں ایک بلوچی مقولہ ہے، جس کا لگ بھگ مطلب یہی نکلتا ہے کہ کسی ایسے واقعے کو جھوٹ بول کر، غلط بیانی کرکے اور قسم اٹھا کر چھپانے کی کوشش کرنا جو بہت ہی بڑا اور نہایت واضح ہو، یعنی مرغی، یا بکرے کی چوری تو پھر بھی چھپائی جا سکتی ہے لیکن اونٹ کے معاملے میں یہ قدرے ناممکن سا لگتا ہے، ، حجم اور جسامت کے اعتبار سے، ویسے ہی دکی میں مارے گئے کوئلے کے کانوں میں مزدوری کرتے پشتون مزدوروں کے واقعے کا ہے، اس واقعے کی مضمرات و اپنی خدشات پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے کچھ چیزوں کا احاطہ کرتے ہیں جو ہماری عمومی سوچ میں موجود ہیں۔ بہت سارے پشتون لوگ پاکستانی سول اور آرمڈ فورسز سمیت، ملٹری و خفیہ ایجنسیوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو بلوچ کو مارتے ہیں، بلوچ کی نسل کشی سمیت بلوچ قومی غلامی کی اس تاریک سلسلے میں پنجابی کے ساتھ پشتون، سندھی اور خود بلوچ کے بھی کچھ لوگوں کا عمل دخل شامل ہے، چونکہ ریاستی بند و بست شروع سے ہی ایسی بنائی گئی اور پشتون کو پنجابی کے زیرکمان موجودہ پاکستانی بندو بست کے ہرعلاقے میں ہر قوم سے لڑایا گیا اور مظلوم قوموں کی نسل کشی کی جاتی رہی، حتیٰ خود پشتون کو، بندوق برداری اور تنخواہ و مراعات کے مد میں باقی کے پشتونوں سے صوبہ سرحد سمیت دیگر علاقوں کے اندر لڑایا گیا، مذہب کے نام پر، دہشت گردی کے عنوان پر اور دیگر کئی جہات میں پشتون کی پشتون کے ساتھ لڑائی تاحال جاری ہے، اور یہ سب قابض پاکستان کی ایماء پر ابھی بھی کیا جارہا ہے۔ اس تمام کے باوجود ایک سوال کہ کیا پشتون یا پھٹان بلوچ کا دشمن ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو اکثر و بیشتر ہمارے سیاسی کارکناں ہمیں افغانی زیر انتظام بلوچستان سمیت پاکستان میں موجود پشتونوں کی ایک حصے کی پاکستانی ملٹری و پیرا ملٹری میں شمولیت اور بلوچوں پر ریاستی جبر اور قومی نسل کشی کے باوصف پوچھتے رہتے ہیں تو اسکی سادہ، عام فہم اور زمینی حقائق سے جڑی جواب اس سے بہتر کبھی نہیں ہوسکتی کہ شفیق مینگل، ملا قاسم ،سرفراز بگٹی بلوچ ہیں اور دیگر جتنے بھی ریاستی کارندے اور ایجنٹس ہیں وہ سب بلوچ ہوتے ہوئے بھی آئی ایس آئی کے پیرول پر لڑتے ان پشتونوں سے بھی بدتر اور گئے گزرے ہیں جو بنددق بردار و تنخواہ خور ہے، سو مسئلہ فی الحال قومیتی بنیادوں پشتون، بلوچ، سندھی کا نہیں مسئلہ نوآبادیات اور نوآبادیاتی توسیع پسندانہ ذہنیت کی ہے، جس میں البتہ پنجاب کی نوآبادیاتی پالیسیاں ضرور قابل سوال ہیں۔

دکی میں کوئلے کے کانوں کے اندر مزدوری کرتے اپنے اور اہلخانہ کی پیٹ پالتے پشتونوں کی بے دردی سے قتل عام بڑا ہی دلخراش اور افسردگی سے لبریز سانحہ تھا۔ریاست نے ہمیشہ بلوچ اور پشتون کو دست و گریبان کرنے کی سازشیں رچی ہیں، حتیٰ کہ پاکستانی ریاست کے سرپرست برطانوی سامراج جب ادھر سے منتقل ہورہا تھا، تو انہوں بھی اسی سازش کے تحت بلوچستان کے مختلف علاقوں کو افغانستان کے اندر مدغم کیا اور کچھ پشتون علاقے بھی پاکستانی زیر دست بلوچستان کے اندر شامل کئے تاکہ دونوں اقوام کے درمیان اپنے اپنے سرزمین کی دعوؤں کو لے کر ایک چپقلش اور مخاصمتی ماحول ہمہ وقت برقرار رہے، جو کہ بسا اوقات دونوں اقوام کے اندر کچھ لاابالیوں اور بھڑک بازیوں کی وجہ سے بہت زیادہ شدید نوعیت تک بھی پہنچ گیا ہے لیکن بلوچ اور پشتون بزرگ رہنماؤں نے ہمیشہ بردباری اور رواداری سے کام لیتے ہوئے ابھرتے کشیدہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کی ہیں، کیونکہ بلوچ اور پشتون لڑیں گے یا بلوچ آپس میں لڑیں گے یا پھر پشتون آپس میں بھڑیں گے ان تمام صورتوں میں فائدہ بلوچ پر قابض ریاست پاکستان کو ہی ہونا تھا۔

دکی میں مارے گئے ان پشتون مظلوم مزدورں کی اجتماعی قتل بلوچستان کے سرزمین پر ایک گہری سازش کے تحت ہوئی ہے، اسی سے مجھے غالباً دوہزار تیرہ چودہ میں ہونے والی ہزارہ قوم کی کوئٹہ کے اندر پے در پے حملوں کی یاد آئی، یہ ریاستی سازشوں کا بلوچ راجی جہدِ آجوئی کو بدنام کرنے اور دنیا کے سامنے اسے ایک مذہبی رنگ دینے کی کوششوں کا نہ صرف آغاز تھا بلکہ اس سے ریاست بلوچ اور ہزارہ کے درمیان موجود بد اعتمادی کو مزید گہرا کرتے ہوئے ہزارہ قوم کو اپنے مزید قریب لاتے ہوئے اپنی مفادات کے استعمال کرنے کی سازشوں میں لگا رہا، شال کے اندر زندگی کرنے والے ہزارہ بلوچ کے بیچ موجود تضاد کو بچشم خود دیکھتے ہوئے بسیارسے سیاسی دوست اس وقت کی اس ہزارہ قتل عام سے دل ہی دل میں خوش تھے لیکن بلوچ اجتماعی مفادات پر اسکے گہرے اور دور رس اثرات پڑے۔ پشتون بلوچ قومی آہنگی اور باہمی اعتماد کو ریاست پاکستان ایڑھی چوٹی کی زور لگا کر بھی نہ توڑ سکا، پاکستانی ریاست کبھی بلوچ کے اندر موجود ریاستی لے پالکوں کو پشتون کے خلاف استعمال کرتا تو کبھی پشتونوں کے اندر موجود پیداگیروں کو بلوچوں کے خلاف محاذ آرائی کی ذمہ داری دیتا، لیکن بلوچ اور پشتون قوم کے بزرگوں نے ہمیشہ معاملات کو انتہائی زیرک اور دانشمندانہ طریقے سے سنبھالا کہ بلوچ پشتون گرما گرمی تو ہوتی رہی لیکن معاملات ہاتھ سے کبھی نہیں نکلے اس میں دونوں اطراف سے ہمیشہ خیر کی کوششیں ہوتی رہیں، اگر اجتماعی سطح کی بات کریں تو جب طالبان نے سقوط کابل اور ازاں بعد نجیب کو جملہ ساتھیوں کے پکڑ کر سزائے موت دے دی تو بلوچ قومی رہنما نواب خیربخش مری جملہ ساتھیوں سمیت اسی بندوبست کے اندر افغانستان میں موجود رہے اور طالبان اس وقت جتنا پاکستانی آئی ایس آئی کے قریب تھے اس بارے پوری تاریخ گواہ ہے، لیکن بلوچ کے اجتماعی اعتماد کو پھر نہیں توڑا گیا اور بلوچ و پشتون باہمی خیرسگالی کے رویوں کو برقرار رکھا گیا، اور دوسری طرف ڈیورنڈ لائن جسے آج بھی بلوچ اپنے گلے کا طوق اور غلامی کی بنیادی وجہ سمجھتے ہوئے اسکے خلاف کوشاں ہے وہیں آج تک افغان و پشتون نے اس کو کسی بھی صورت میں باضابطہ بنیادوں پر تسلیم نہیں کیا۔ ہماری بہت ساری قدریں مشترک ہیں، اور یہی اشتراکیتی اقدار نے ہمیں تمامتر پاکستانی سازشوں کے باوجود ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے سے روکے رکھا، پاکستان ایک ریاست ہے، جیسا ہے جو بھی ہے، ناکام ہے، دنیا میں رسوا ہے، بد عہد ہے، اور غیر فطری ہے، پھر سوچو اس نے ان تمام ناکامیوں، رسوائیوں اور بد عہدیوں کے باوجود تم بلوچ کو اپنا مقبوضہ بنا رکھا ہے، اگر یہ سوچ چکے تو پھر یہ بھی سوچو کہ پاکستان بلوچ راجی جہد آجوئی کو متنازع بنانے، اسے مزید دیگر چپقلشوں میں مصروف رکھنے کے لیے کیا کیا کرسکتا ہے؟ ذرا سوچو تو پوری تصویر از خود کھل کر تمہارے سامنے آجائیگی، یہی کہانی دکی میں مارے جانے والے پشتون مزدوروں کی ہے، اسکی ذمہ دار یقیناً پاکستان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی مکاریوں اور سیاسی عیاریوں سے کام لیتے ہوئے کچھ ایسے ناعاقبت اندیشوں کو دستانے پہنا رکھے ہیں جو لہو کی امڑتی پہوار میں سرمست ہیں، اور انہی دستانوں میں چھپے ہاتھ بلوچ اجتماعی قومی مفادات کے ساتھ ہاتھ کررہے ہیں ، دراصل یہ دستانے “ میڈ ان پاکستانی” ٹیگ والے ہیں۔ دکی میں حملہ ہوتا ہے، مزدور مارے جاتے ہیں، خبر پھیل جاتی ہے، تو بہت ساری سوشل میڈیا ہینڈلز اپنی وابستگیوں کے باوصف اس عمل کو نہ صرف کارِ خیر مانتے ہیں بلکہ در پردہ یہ نوید بھی دیتے ہیں کہ انکے ساتھ کچھ ڈیتھ اسکواڈز کے لوگ بھی وہیں پر مارے گئے ہیں، پھر خبر کی سنگینی کا ادراک ہونے کے بعد وہ ایک سو اسی کے زاویے کا ٹرن مار کر کہتے ہیں کہ یہ کام پاکستانی ایجنسیوں نے کیا ہے، اور پشتون قوم کے بڑے بزرگ زیر لب بلوچ سے اسکی وضاحت مانگتے دکھائی دے رہے ہیں، بلوچ راجی آجوئی کی یہ تحریک تمام ترنشیب و فراز سے ہوتا ہوا ” ایک طرف کنویں دوسری طرف کھائی ” والی صورتحال سے دوچار ہے، ایک تو اس پورے تحریک آزادی کو انسانی حقوق کی پامالیوں تک سمیٹا گیا ہے تو دوسری طرف اس تحریک آزادی کو بھتہ خوری اور مادی مفادات کے بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ نظریہ، کمٹمنٹ، اصول پسندی، آدرش، معاملہ فہمی اور رواداری دور کھڑے عالمِ ندامت میں سرجھکائے ہوئے ہیں۔ اس پر تو کوئی دورائے نہیں کہ یہ کام پاکستانی ایجنسیوں اور فوج کا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ یہ کام انہوں کس سے کروایا ہے، ہمیں ان ہاتھوں کے بارے میں سوال ہے جو اپنی نادانیوں اور لاابالیوں کے باوصف پاکستانی ایجنسیوں کی فراہم کردہ “ میڈ ان پنجاب “ کے ٹیگ والے دستانے پہن کر بلوچوں جیسے مظلوم و مقہور پشتون مزدوروں پر گولیاں برسا چکے ہیں، اس سے پہلے بھی پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹرز کی سو کے قریب ٹرکوں کو جلا کر خاکستر کیا گیا، نقصان کس کا اور فائدے میں کون؟ بلوچ قوم کو شکر ادا کرنا چاہئیے کہ ابھی بھی ایسے معاملہ فہم اور ادراک رکھنے والے لیڈرشپ کی کھیپ موجود ہے جو معاملات کو کسی حد تک ہاتھوں سے نکلنے نہیں دے رہا، لیکن اپنی نادانیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کو لے کر بلوچستان کے اندر پاکستانی ایجنسیوں کی طرح حرکتیں کرنا بلوچ اجتماعی مفادات کی راہ میں بے پناہ رکاوٹیں ڈالے گا، جب کوئی گروہ تحریک آزادی کی جہد کے بنیادی اور اہم ترین نقطہ ” اصول پسندی ” کو جوتے کی نوک پر رکھ دے تو اس میں کوئی بعید نہیں کہ اسکے اندر بے اصولیوں کا ایک ایسا سلسلہ سر اٹھائے کہ پھر دشمن اسی بے اصولی اورناعاقبت اندیش رویوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے ایجنٹس اور لے پالکوں کو کثیر تعداد میں تحریک کے صفوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہوجائے، اور دکی جیسے سانحات کی بھرمار رہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہے، فیشن ہے، شوق ہے، مراعات کی حصول کی دوڑ ہے، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بازی ہے، قومی آزادی کی جنگ ہے؟ آخر ایسا کیوں کیا جاتا ہے کہ پشتون اور بلوچ کے درمیان موجود فالٹ لائنز کو ابھارا جائے، انہی ناعاقبت اندیشیوں کے باوصف آج بلوچ اور پشتون مشترکہ آبادیوں والے علاقوں میں ایک باہمی مخاصمت اور چپقلش کا خدشہ ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا، یہ اصولوں سے بھاگی گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے بلوچ جہد آجوئی کو میراتھن دوڑ میں بدلنے والوں کی صفوں میں موجود لوپ ہولز ہیں جہاں اب پاکستانی ایجنسیاں دراندازی کرتے ہوئے بلوچ قومی جہدِ آجوئی کے صفوں میں گھس کر اپنے مقصد کے وہی کام کروا رہے ہیں جو وہ برسوں کی انتھک محنت و مشقت کے باوجود ہمارے بزرگوں کی معاملہ فہمی اور باہمی رواداری کے باوصف کروانے میں ہمیشہ ناکام و نامراد رہے ہیں۔ حرفِ آخر بلوچ و پشتون ڈیورنڈ لائن کے کسی بھی پار بستے ہوں وہ دونوں ماضی کی برٹش تقسیم کی پالیسیوں اور آج کی پاکستانی جبر و استبداد کے برابر شکار ہیں، دونوں مظلوم ہیں اور دونوں اقوام کا باہمی خیر سگالی کی ایک تاریخ موجود ہے۔

ماضی میں جنگی قوت حاصل کرنے کے باوصف اسی قوم کی دی ہوئی طاقت کی غرور میں بدمستوں نے پورے مکران کے طول و عرض میں بلوچ برادر کشی کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ روا رکھا جو بالآخر بلوچ راجی جنز کے لیے دور رس نقصانات پر منتج ہوا، اسی طاقت کی بے دریغ استعمال اور برادرکشیوں کے بنا پر پاکستانی قابض فوج کو بلوچ معاشرے کے اندر اپنے لیے بڑی آسانی اور نہایت کم دام پر وہ لوگ ملے جو کہیں ظاہر اور کہیں گمنام باقاعدہ ایک مربوط نیٹ ورک کے طور پر آج بھی بلوچ قومی مفادات کے برعکس کام کررہے ہیں۔

آج ایک بار پھر طاقت کی خمار میں مست، بیش قیمت لہو کی بے دریغ زیاں پر نازاں کچھ گروہ محض اپنی گروہی مفادات و مادی فوائد کے حصول اور بھتہ خوری کے واسطے پشتون بلوچ کے مابین موجود خیرسگالی کے رویوں کی جڑیں کاٹنے اور دونوں اقوام کے درمیان موجود تضادات کو ابھارنے اور دونوں اقوام کو باہم دست و گریبان کرنے کے لیے ویسی حرکتیں کررہے ہیں جوکہ پاکستانی ریاست اور اسکی خفیہ ایجنسیاں دسیوں سالوں کی جد و جہد اور بے پناہ مادی و افرادی وسائل لٹانے کے باوجود نہ کرسکیں۔

ایسی بچگانہ حرکتیں اور کچھ کریں یا نہ کریں لیکن بلوچ راجی جہد آجوئی کی اس مشکل سفر کو مزید کٹھن بنادیتے ہیں۔اور محض ایک بیان دینے اور اپنی گلے سے طوق ندامت اتارنے کی کوششوں سے موجود حقیقت کسی طور بھی مبہم نہیں رہ سکتی۔ اسی لیے بلوچ کہتا ہے کہ “ اشتر ءِ دُزّی پہ کین کِنزی نہ بیت “