جیسے ہی اس نے اپنی ماں کو دیکھا احتراماََ اس کی قدموں میں جھک گیا،بہت عرصے کے بعد وہ اپنی ماں سے مل رہا تھا ماں بڑے عرصے کے بعد اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی بیٹے کو باہوں میں پکڑ کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اسے اپنے آنسوؤں پر کوئی کنٹرول نہیں رہا تھا بیٹے کو دیکھ کر کئی سالوں سے خشک آنکھوں سے آنسو خود بخود جاری ہو گئے ماں بیٹے کو پھر گلے سے لگاتی اور اس کی خوشبو کو سنگتی ماں بیٹے میں دیر تک یہی سلسلہ چلتا رہا،بڑی دیر کے بعد اسے ہوش آیا کہ بیٹے سے ملنے کے لئے اس کا باپ بھی انتظار میں کھڑے ہیں،باپ بیٹے سے ملا تینوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے. ماں نے دیکھا بیٹا بہت کمزور ہو گیا ہے داڑھی بھی کافی نکل آئی ہے. اب میرا بیٹا بڑا ہو گیا ہے اس کے کندھوں کی طرف دیکھا جو بندوق کی میگزینوں کے وزن سے کافی کمزور لگ رہے تھے. اس کے کپڑے کئی جگہوں سے پھٹے ہوئے تھے. اس کے جوتے بہت پرانے ہو چکے تھے جو کبھی پالش نہ ہوئے ہوں. بال کافی لمبے ہو گئے تھے. ماں کو اس کے اسکول کا دور یاد آیا جب کبھی بال تھوڑے بڑے ہوتے تو وہ اس سے ضد کر کے پیسے لیتا کہ اسکول میں ٹیچر سے بال بڑے ہونے پر مار نہ پڑے. وہ بغیر استری کے کپڑے نہیں پہنتا تھا. اب اس کے جسم پر جو کپڑے تھے ان کا رنگ کئی جگہوں سے مٹ چکا تھا. کم و بیش باپ بھی بیٹے کی ان چیزوں پر سوچ رہا تھا بڑی دیر کے بعد ماں نے پوچھا بیٹا کیسے ہو. تمھارے سب سنگت کیسے ہیں سب ٹھیک ہیں نا ،بیٹا کیا وہ آپریشن بہت بڑا تھا جس میں امیر جان، شیر جان اور گزین جان شھید ہو گئے. میں نے سنا تھا کہ دشمن کے بھاری فوج کے ساتھ سترہ ہیلی کاپٹروں نے بھی آپریشن میں حصہ لیا تھا. سات اپریل کو تمھارے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا کہ سرکار ٹی وی پر اپنے آپریشن جاری ہونے کا اعلان کر رہا ہے. میں نے جیسے ہی آپریشن کا سنا مصلح اٹھا کر تمھاری اور تمھارے سرمچار دوستوں کی کامیابی کے لئے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی . تم سب کے خیر و عافیت کے لیے خدا کے آگے ہاتھ اٹھا کر گڑگڑایا. شام کو جب سرکار نے اعلان کیا کہ آپریشن مکمل ہو گیا ہے اور چالیس سرمچار مارنے کا دعویٰ کیا تو میرا دل بیٹھنے لگا. ساری رات جاگتے گزری. ہر پل یہی خیال دل میں آتا کہ چالیس شھید ہوئے تو پھر بچا کون. لیکن اپنے آپ کو تسلی دیتی رہی کہ سرکار جھوٹ کہہ رہا ہے. رات کو کھانے پر بیٹھی تو ایک بھی نوالہ حلق سے نہیں گزرا. صبح جب تمھارے بھائی نے بی ایل اے کا بیان پڑھ کر سنایا کہ میرک بلوچ نے کہا ہے کہ ہمارے تین ساتھی شھید ہوئے ہیں. دل کو تھوڑی تسلی ہوئی. باقی دو کے نام سن کر دل رونے لگا لیکن امیر الملک کا نام آتے ہی کلیجہ منہ کو آیا. امیر کا نام بہت عرصے سے سنا تھا کہ دشمن نے کیسے اس کے گاؤں پر دھاوا بولا تھا کیسے اس کے بھائی اور رشتہ داروں کو اغوا کیا جن کا آج تک کچھ پتہ بھی چل رہا کہ وہ زندہ ہیں یا مار دیے گئے. بس بیٹا آپ اور آپ کے سنگت قربانی دے رہے ہیں اور کچھ اپنی ان قربانیوں کا سودا کر رہے ہیں، بیٹا یہ آج کل کیا ہو رہا ہے حاجی قلاتی کے بعد روزانہ خبریں آ رہی ہیں کہ بہت سے سرمچاروں نے ہتھیار سرکار کے حوالے کیے ہیں. شروع میں میں یہی سمجھتی رہی کہ سرکار جھوٹ بول رہا ہے لیکن جب تمہارے دوست آغا اور ثنا کا نام سنا کہ انھوں نے بھی سرکار سے معافی مانگے ہیں تو سرکار کی کچھ کچھ باتوں پر یقین ہونے لگا. ڈاکٹر اللہ نزر کے بہت سے ساتھیوں نے بھی ہتھیار پھینک دیے ہیں. یہ سب کیا ہے میں زیادہ نہیں جانتی تم زرا بتاؤ یہ سب کیا ہو رہا ہے ماں بولے جا رہی تھی . بیٹا ماں کے پوچھنے پر کہنے لگا کہ حالات سخت سے سخت ہو رہے ہیں اس لیے کچھ لوگ واپس چلے گئے. کچھ اپنی تنظیم کی کمزوریوں کو دیکھ کر کمزور پڑ گئے. کچھ اپنے ہمسفر دوستوں کے رویے دیکھ کر مایوس ہو گئے. بس اماں کچھ سرکار کی ستم اور کچھ اپنے کمانڈروں کی مہربانی ہے. اماں حقیقت جانو تو کمزوری ہمارے بندوں میں بھی ہے. ماں بیٹے کی باتیں سنتی جا رہی تھی. اسے اپنے بیٹے کی باتوں سے تھکاوٹ اور مایوسی محسوس ہو رہی تھی. جب وہ اپنے بیٹے کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے میں اسے آغا، ثنا اور قلاتی کے چہرے نظر آنے لگے. اس کی موجودگی سے بوجھ محسوس ہونے لگا. تھوڑی دیر پہلے وہ جس بیٹے کو اپنے سینے سے جدا کرنا نہیں چاہتی اب اس کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر اسے اپنے جگر کے ٹکڑے کی سوچ پر افسوس ہونے لگا. اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے. گلوگیر آواز میں بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگی بیٹا میں تمھاری ماں ہوں. نو مہینے تمھیں اپنی کوکھ میں رکھا ہے. کئی سال تک تمھیں پالا پوسا. میں اچھی طرح جانتی ہوں بیٹا تم اپنی کمزوری اور نالائقی کو کیوں کسی اور کاندھے پر ڈالنا چاہتے ہو. بیٹا صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم تھک گئے ہو. دشمن کی طاقت کو دیکھ کر کیوں ڈرنے لگے ہو. کیوں اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ مرنے سے زیادہ تمھیں زندگی عزیز ہے. بیٹا کہنے لگا نہیں اماں آپ سادہ ہو. آپ کچھ نہیں جانتے. یہ سب اپنی کمانڈری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں. میں ان کی کمانڈری کے لیے آپ سب کو خوار اور درپدر نہیں کر سکتا. ماں نے کہا ہاں بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو. میں اس جنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی لیکن دشمن کے ظلم کو دیکھ کر، ہر روز گرتے بلوچ نوجوانوں کی لاشوں اور تمھاری دوری نے مجھے بہت کچھ سیکھا دیا ہے. بیٹا مجھے جتنا خوار جتنی دربدری دیکھنا تھا دیکھ لیا. تمھارے پہاڑوں پر جانے کے بعد میں نے تمھارے رشتہ داروں کی کیسی کیسی باتیں سنیں. تمھارے جانے کے بعد انھوں نے ہمارے ہاں آنا جانا چھوڑ دیا ہے تمھیں پتہ نہیں تمھارے اس کزن کا جو پاکستان کے فوج میں تھا اسکی شادی پر تمھارے چچا نے ہمیں بلایا بھی نہیں. بلکہ چھپ چھپا کر شادی کر دی. بیٹا ہم تمھارے جدو جہد کے سامنے کبھی رکاوٹ نہیں بنے. جب ہمیں کچھ پتہ چلا اس جنگ کے بارے میں تو ہم نے ہمیشہ تم سب کی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہے ہیں. آج جب میں اس جدوجھد کو سمجھنے لگی ہوں تو پھر تمھیں کیا ہوا تم تو خود مجھے دشمن کے بارے میں بتاتے رہے اور ایک بات آج تم کہتے ہو تنظیم کمزور ہے یا آپ کہتے ہو سینئر دوستوں میں کمزوری ہے یا وہ تم جیسوں کو اپنی کمانڈری کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو بیٹا مجھے معلوم ہے تم اور تمہارے دوست استعمال ہو رہے ہیں لیکن کسی زات کے لیے نہیں بلکہ بلوچ سرزمین کے لیے استعمال ہو رہے ہیں. اور ماں کے درد کو وہ بیٹے سمجھ سکتے ہیں جو اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں

باپ جو خاموش بیٹھا اپنے بیٹے اور اس کی ماں کی باتیں سن رہا تھا اپنی بیوی سے کہنے لگا نیک بخت بیٹا آرام کی زندگی گزارنا چاہتا ہے اور تم اسے واپس بھیجنا چاہتی ہو شاید وہ یہاں رہ کر کچھ کمائے گا تو ہمارے بڑھاپے کے دن آرام سے گزر جائیں گے. بیوی اپنے شوہر سے کہنے لگی کہ اگر تمھارا بیٹا گھر میں بیٹھنا چاہتا ہے تو جاکے ان بے گواہ نوجوانوں کو لے کر آئے جن کی مائیں اس امید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ اس کے بیٹے کے دوست دشمن سے لڑ رہے ہیں. جاؤ جا کر امیر جان کو لے کر آؤ اسکی ماں نے اسے کئی سالوں سے نہیں دیکھا تھا. شیر جان کو لیکر آؤ جس کے معصوم بچے اس کی انتظار میں ہر روز گھر کا دروازہ تکتے رہتے ہیں. میرے نثار جان کو لیکر آو جس کی آخری دیدار اس کی ماں کو نصیب نہیں ہوئی. حق نواز کو یاد کرو جس کی لاش کو تم نے اپنے ہاتھوں سے گاڑی میں ڈال کر اس کی ماں کے پاس روانہ کیا تھا. جاؤ جا کر ان سب کی ماؤں کو جواب دو پھر آ کر میرے پہلو میں چھپ جاؤ. اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے. وہ اپنی ماں کی باتیں سننے کے بعد کافی شرمندہ تھا کہ اسی اثنا میں اس کی آنکھ کھل گئی . اٹھ کر بیٹھ گیا ادھر ادھر دیکھنے لگا وہ اپنے جھگ نما کمرے میں تھا اس نے اپنا جاٹہ اور بندوق اٹھا کر اوتاک کی طرف روانہ ہوا اور اپنی کمزوریوں پر سوچتا ہوا دوستوں کے پاس پہنچ گیا.